عورتیں کسی سے کم نہیں ہیں



کچھ مہینوں ‌ پہلے کی بات ہے کہ ایک لڑکی نے پاکستان کے شمالی علاقے سے فیس بک پر میسج بھیجا کہ اس کا چانڈکا میڈیکل کالج میں ‌ داخلہ ہو گیا ہے، وہ کافی دور ہے اور کیا اسے جانا چاہیے یا نہیں۔ معلوم نہیں ‌ اسے کیسے پتا چلا کہ میں نے وہاں ‌سے پڑھا تھا۔ میں ‌ نے اس کو یہی مشورہ دیا کہ اگر داخلہ مل گیا ہے تو اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ضرور ڈاکٹر بنیں۔ اس کے بعد کام بھی کریں۔

میں ‌ ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ کوئی پوچھے کہ اب ہمیں پتا چل چکا ہے آپ بار بار کیوں ‌ بتا رہی ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ پاکستان میں میڈیکل عملے اور سہولیات کی کمی ہے، اس کی 200 ملین آبادی میں ‌ مزید اینڈوکرنالوجسٹ چاہئیں۔ اینڈوکرنالوجی کا فوکس خطرناک بیماریوں ‌ اور پیچیدگیوں ‌ کو ہونے سے پہلے روکنے سے متعلق ہے۔ ہم جانتے ہیں ‌کہ پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اور لوگ اس فیلڈ میں ‌ اسپیشلائز کریں ‌ گے۔ ذیابیطس تمام دنیا میں ‌ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس سنجیدہ بیماری کو بروقت تشخیص کرنے اور اس کا علاج کرنے سے اس کی پیچیدگیوں ‌ سے بچا جا سکتا ہے۔

ایک بات حیرانی کی ہے کہ ہم ایک شخص سے دوستی کرتے ہیں۔ اور پھر ایک اور سے تو وہ لوگ آپس میں ‌ دوست نکلتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملتے جلتے خیالات رکھنے والے ایک دوسرے کو مل جاتے ہیں وہ بھی بالکل ایسی جگہوں ‌ پر جہاں ‌ آپ توقع نہیں ‌ کر رہے ہوتے۔

ایک دن میں ‌ اپنی ساس کے ساتھ اوکلاہوما سٹی کے اسپائسز آف انڈیا گئی جہاں ‌ ہم لوگ گھوم پھر کر شاپنگ کر رہے تھے۔ میں ‌ سبزیاں ‌ اپنی کارٹ ‌میں ‌ ڈال رہی تھی تو آئل کے دوسری طرف سے ایک خاتون کی آواز سنی جو فون پر شاید لانگ ڈسٹنس پر بات کر رہی تھیں ‌ کیونکہ وہ کافی اونچا بول رہی تھیں۔ وہ اپنی کتاب \ ”لائف آف کشمیری وومن\“ کے بارے میں ‌ کسی کو بتا رہی تھیں۔ جب وہ گھوم کر ہماری طرف آئیں ‌ اور ان کی بات ختم ہو گئی تو میں ‌ نے ان سے کہا معاف کیجئیے گا میں ‌ آپ کی آپس کی گفتگو سننا نہیں ‌ چاہ رہی تھی لیکن میں ‌ نے آپ کی کتاب کے بارے میں سنا اور مجھے اس کو پڑھنے میں ‌ دلچسپی ہے اس لیے آپ مجھے اس کے بارے میں ‌بتائیں۔ انہوں ‌ نے کہا کہ میرا نام نائلہ علی خان ہے اور میں ‌ یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں ‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہوں۔ میں ‌ نے ان سے کہا کہ میں ‌ بھی نارمن میں ‌ کام کرتی ہوں۔ انہوں ‌ نے مجھے اپنا کارڈ دیا اور میں ‌ نے انہیں ‌ اپنا کارڈ دیا۔

پھر ان کی کتاب ایمازون سے آرڈر کی، پڑھی بھی اور اس کے کچھ چیپٹرز کا اردو میں ‌ ترجمہ بھی کیا۔ جب کتاب آ گئی تو میں ‌ نے انہیں ‌ کہا کہ نائلہ جی آپ کی کتاب کے دو ترجمے کرنے پڑیں گے ایک آپ کی انگلش ٹو ایزی انگلش اور ایک انگلش ٹو اردو۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑیں۔ دیگر انگلش کتابوں ‌ کے مقابلے میں ‌ لائف آف کشمیری وومن ذرا مشکل انگلش میں ‌ ہے۔

اس کے بعد ہم لوگ ٹیسٹ آف انڈیا میں ‌ لنچ آور میں ‌ ملے جہاں ‌ وہ دوسری پروفیسر کیتھرین ہابز کے ساتھ آئیں۔ ہم لوگوں ‌ نے ساتھ میں ‌ کھایا پیا اور گپ شپ کی۔ ایک بار وہ لوگ میرے آفس بھی آئے جہاں ‌ ہم نے ساتھ میں ‌ لنچ کیا۔ اس طرح‌ ہماری اچھی دوستی ہوتی چلی گئی۔ ہم لوگ دیسی پارٹیوں ‌ میں ‌ نہیں ‌ ملے کیونکہ نہ وہ زیادہ جاتی ہیں نہ میں ‌۔ میں ‌نے ان سے کہا کہ ہم لوگ تعلیم کے ذریعے اپنے حالات بدلنے میں ‌جتے ہوئے تھے اس لیے فیشن اور پارٹیوں ‌ میں ‌ دلچسپی نہیں ‌ ہے۔ انہوں ‌ نے کہا کہ بچپن سے ہر چیز میسر تھی تو ان چیزوں ‌کی اہمیت نہیں ‌ رہی۔

ہمارے دوست بھی ایک دوسرے کے دوست نکلے مثلاً کیتھرین ہابز نے کہا کہ کیا تم میری فرانسس کو جانتی ہو؟ میں ‌ نے انہیں ‌ کہا کہ ہاں ‌ میں ‌ میری فرانسس کو کئی سالوں ‌ سے جانتی ہوں ‌، وہ میری اچھی دوست بھی ہیں اور پسندیدہ شخصیت بھی۔ انہیں ‌ چند سال پہلے ہیومن رائٹس کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔ میری فرانسس کی وہ تصویر میری پسندیدہ ہے جس میں ‌ ڈی سی میں ‌ مظاہرہ کرنے پر ایک پولیس والا ان کو ہتھکڑی لگا کر لے جا رہا ہے اور وہ چشمے کے اوپر سے اس کو دیکھ رہی ہیں۔ میری فرانسس 70 سال کی ہیں اور ماحولیات کی حفاظت کی بڑی حامی ہیں۔ اس بارے میں ‌ پانچ منٹ بات کر کے ان کو آسانی سے رلایا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کی زندگی زیادہ باقی نہیں رہی ہے لیکن وہ آنے والے انسانوں ‌ کے لیے یہ لڑائی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں ‌ کی حساسیت، ان کی انسانیت، ان کی باضمیری اور بہادری ہی وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے میں ‌ ان کو بہت پسند کرتی ہوں۔

اس سے پہلے میں ‌ نائلہ کو نہیں ‌ جانتی تھی۔ نہ ہی ان کی فیملی کو جانتی تھی لیکن پھر فیس بک کے ذریعے اور ان کی کتاب پڑھ کر کچھ معلومات میں ‌ اضافہ ہوا۔ ہم لوگ پروفیشنل لوگ ہیں یعنی سارا ہفتہ کام کرتے ہیں۔ چھٹی کے دن چھٹی منانے کے بجائے ہم دونوں نے ہی اپنا وقت اس گفتگو میں ‌ صرف کیا اور پھر اس کو لکھنے میں ‌ سارا دن لگ گیا۔ اب میں ‌سوچ رہی ہوں ‌کہ اس کو انگلش میں لکھ کر بھی چھپنے کے لیے بھیجا جائے تاکہ جن ماؤں ‌کے بچے انڈیا اور پاکستانی فوج میں ‌ بھی مر رہے ہیں ‌وہ بھی دباؤ ‌ڈالیں کہ ہمارے بچے کس لیے مر رہے ہیں اور کب تک مرتے رہیں گے۔ آخر ان ممالک کی کشمیر پالیسی کیا ہے اور مستقبل کے بارے میں وہ کون سے مثبت قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو جیسا پائیں اس سے بہتر چھوڑ کر جانے کی کوشش کریں۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ انتہائی ضروری سوشل سروسز کے ادارے ٹھپ پڑے ہوئے ہیں اور ان میں ‌ کام کرنے کے لیے اور ملک کی ترقی کے لیے خواتین کو آگے آنے کے مواقع اور حالات فراہم نہیں ‌ کیے جا رہے۔ انفرادی ترقی تو دور کی بات، ان کو اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ زندہ تک رہنے نہیں ‌ دیا جا رہا ۔ ایک کہاوت ہے کہ انسان خود اپنا بستر بناتا ہے جس پر وہ سوتا ہے۔ جو بدحالی ہمارے ملک کی ہے وہ ہماری اپنی بنائی ہوئی ہے۔

برہان وانی کے بارے میں ‌ انٹرویو کے بعد ملنے والی فیڈ بیک سے متعلق کچھ جوابات یہ ہیں۔ اس مضمون کا فوکس یہ نہیں ‌ تھا کہ انڈیا کو یا اس کی فوج کو کیا کرنا چاہیے۔ اس پر تو کافی دیگر افراد پہلے سے لکھ چکے ہیں۔ اس انٹرویو میں ‌ یہ بات جاننے کی کوشش کی گئی کہ عوام انفرادی طور پر اپنے حالات بدلنے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں اور نوجوانوں کی توانائی کو کس طرح مثبت راستے پر ڈالا جائے۔ سب سے اہم کام اپنی تعلیم میں ‌ اضافہ کر کے قوانین میں ‌ تبدیلی لانے سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر نائلہ خان کو امریکی شہری کہا گیا۔ وہ انڈین شہری ہیں، وہ امریکی شہری نہیں ‌ ہیں۔ میں ‌ ایک پاکستانی اور امریکی شہری ہوں۔ پاکستان اور امریکہ دہری شہریت کی اجازت دیتے ہیں لیکن انڈیا دہری شہریت کی اجازت نہیں ‌ دیتا۔ اگر آپ کسی اور ملک کی شہریت لے لیں ‌ تو انڈیا کی شہریت چھوڑ دینی ہوتی ہے۔

خان نام پر بھی اعتراض اٹھایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نائلہ علی خان کا نام خان ان کا شادی شدہ نام ہے۔ ان کے شوہر فیصل خان شہر میں ‌ ایک کولیگ ڈاکٹر ہیں، وہ رہوماٹولوجسٹ ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ علی خان کا شادی سے پہلے نام نائلہ علی ماٹو ہوتا تھا۔ کچھ لوگ ان کے نانا کی سیاست پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ تاریخی لوگ فرشتے یا شیطان نہیں ‌ ہوتے اور ان کو نارمل طریقے سے ہی دیکھنا چاہیے۔ وہ اپنے وقت کے لحاظ سے سوچتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔ کچھ فیصلے اور اقدام آگے چل کر فائدہ مند ہوتے ہیں اور کچھ نقصان دہ۔ کشمیر کا مسئلہ ویسے ہی کافی جذباتی ہے اور جتنا ہو سکے اس سے متعلق ٹھنڈے دماغ سے ہی گفت و شنید کی جانی چاہیے۔ اگر ان کی کسی معاملے میں ‌ آپ سے رائے الگ بھی ہے تو ان کو اپنی رائے کا حق ہے جیسے مجھے یا آپ کو اپنی رائے کا حق ہے۔

شیخ ‌محمد عبداللہ کا کشمیر میں ‌ لینڈ ریفارم کرنا قابل لائق ہے اور پاکستان کو بھی ایسا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسان ان زمینوں ‌ کے مالک بن سکیں ‌ جن پر وہ نسل در نسل سے کاشت کاری میں ‌ لگے ہوئے ہیں۔ اپنے ملک کے شہریوں ‌ کی حالت بہتر کئیے بغیر ہم اپنے ملک کی حالت بہتر نہیں کر سکتے۔ ان کی بیگم اکبر جہاں ‌ نے خواتین کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے میدان میں ‌ جو کام کیے وہ بھی قابل تعریف ہیں۔ ہمیں ‌ ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ ایک دن میں ‌ نے بی بی سی اردو میں ‌ آرٹیکل پڑھا کہ شیخ ‌محمد عبداللہ نے فیض احمد فیض کا نکاح ایلس سے پڑھایا تھا۔ فیض احمد فیض‌ میری پسندیدہ تاریخی شخصیت ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments