ساشا اوباما، امریکی عوام کی پشت اور خوف خدا


پاکستانی حکمران طبقہ اور ان کی اولادیں ملکی وسائل کی جس طرح لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے نہ مجھے اس \"mehtabمیں رتی برابر کوئی شک ہے۔ مگر ساشا اوباما کی حالیہ مہم جوئی نے سوشل میڈیا پر جو سماں باندھا اور اس کے تناظر میں سوشلستان پر حکمرانوں اور ان کے بچوں کے پر تعیش طرز زندگی کے جو لتے لئے گئے سبحان اللہ!

میری ناقص رائے میں ہم صرف نکتہ چینی اور بدگمانی ہی میں ید طولیٰ نہیں رکھتے بلکہ خوش گمانی اور برے میں اچھا تلاش کرنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم سہولت کے مطابق اچھائی اور برائی دریافت کر لیتے ہیں جو نفسیاتی آسودگی بن کر ہمیں مزید خواری کی ہمت عطا کرتی ہے۔

بڑے بوڑھوں سے سنا تنقید اگر گھر سے شروع کی جاے تو سمجھنے اور سمجھانے کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔

لاہور سے جڑانوالہ کا فاصلہ 100 کلو میٹر ہے جو میری شریک حیات کا آبائی علاقہ ہے۔ سسرال جانے سے کوفت ہوتی تھی. برسوں پہلے میں نے بیگم سے کہا کی مسافت بہت زیادہ ہے۔ مگر بڑا یا برا بول آگے آ جاتا ہے۔ اس وقت میں 100 کلومیٹر کی مسافت روز طے کر کے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر پہنچتا ہوں مگر میں نے سہولت کے مطابق اس میں کچھ اچھائیاں دریافت کر لی ہیں۔ اس مضافاتی علاقے میں آب ہوا اچھی ہے۔ اب روزانہ سفر کا عادی ہو گیا ہوں اور دفتر کے بہانے گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی نمٹا لیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ پر سب میری یا ساشا اوباما کی طرح خوش نصیب نہیں ہوتے کہ اپنی دریافت کردہ اچھائی کو کیش کرا سکیں۔

پاکستانی تاریخ کے مبینہ شہید ضیاالحق کی تو سادگی بھی ہمیں کھٹکتی ہے۔ مرحوم ایک مرتبہ سائیکل پر بیٹھ کر اسلام آباد کی ایک مشہور مارکیٹ میں تشریف لے گئے  تھے مگر یار لوگوں کی نظر ان کی اس درویش صفت دریافت سے زیادہ پروٹوکول کی ان گاڑیوں پر رہی جو صدر پاکستان کی سیکیورٹی پر مامور تھیں۔ اب پاکستانی صدر کی سادگی ہو یا امریکی صدر کی بیٹی کی اخلاقی تربیت، سیکیورٹی کے ساتھ نیت کو خلط ملط کر کے تنقید کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ضیا آمر تھے لہٰذا ان کی وکالت نہیں کی جا سکتی یار لوگ ناراض ہو جائیں گے رہی ساشا اوباما تو دل سے یہی نعرہ نکلتا ہے، ٹرے لاؤ ساشا اوباما، ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

یہاں نکتہ چینوں کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ امریکہ میں حقیقی جمہوریت ہے، پاکستانی حکمرانوں کی اولادیں تو مارشل لا ادوار کی پیداوار ہیں۔ ہمیں ان کے اعمال سے کچھ اچھا دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہم مشعل اوباما کے اس اقدام کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ انہوں نے بیٹی کی اعلیٰ تربیت کی ایک ارفع مثال قائم کی۔ جس طرح مشہور بھارتی صنعتکار امبانی کی زوجہ محترمہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ان کے بچے بزنس کلاس ہی میں سفر کرتے ہیں۔ وہ بھی ایک سمجھدار ماں واقع ہوئیں اور کبھی بچوں کو ذاتی جہاز میں عیش و عشرت کا موقع فراہم نہیں کیا تا کہ وہ جان سکیں کہ بزنس کلاس میں سفر کرنے والے عام ہندوستانی کیسی کرب انگیز زندگی گزارتے ہیں۔

ہمارے جاگیردارطبقے کو حصول علم کی طلب ہوئی تو جاگیردار یا وڈیرےکا بچہ مار کھانے کے لیے ایک کمی کے بچے کو ساتھ سکول لے جاتا۔ علم کی پیاس جاگیردار زادے کی بجھتی تھی اور اس کے سائیڈ ایفکٹس کمی کے بچے کی پشت پر پائے جاتے۔ ساشا اوباما کی اچھی تربیت کے سائیڈ ایفیکٹس امریکی ٹیکس دہندہ کی پشت  پر پڑے ہیں؟ اور کچھ نہیں کہوں گا بس اتنا کہ تنقید کرنے والے کچھ تو خوف خدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments