کوئٹہ دہشت گردوں کے نشانے پر


\"Sarwat

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اور بڑا دھماکا ۔ امن دشمنوں کا ایک اور کاری وار ۔ سیکیورٹی اداروں کو دشمنوں کی جانب سے ایک اور دھچکا۔ اس بار سوہنی دھرتی کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کو بزدل دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ۔ صبح نو بجے کے قریب بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو گھر سےعدالت جاتے ہوئے منوں جان روڈ پر گھات لگا کر قتل کردیا گیا ۔ بلال کاسی کی میت کو سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وکلاء کی بڑی تعداد تعزیت کے لیے اسپتال پہنچی ۔ عین اسی وقت سول اسپتال زوردار دھماکے سے گونج اٹھا ۔ دھماکا اسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کے داخلی دروازے پر ہوا ، اسپتال ذرائع کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں ساٹھ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے جنھیں بی ایم سی، سی ایم ایچ اور ایف سی اسپتال منتقل کردیا گیا ۔ واقعے میں وکلاء کی بڑی تعداد کے ساتھ میڈیا کے نمائندے بھی متاثر ہوئے ۔ نجی ٹی وی کا ایک کیمرہ مین صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا ، جبکہ دوسرے کیمرہ مین کی حالت تشویش ناک ہے ۔ جاں بحق افراد میں بلوچستان بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر باز محمد کاکڑ بھی شامل ہیں ۔
پولیس اور تفتیسی اداروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سول اسپتال میں حملہ خود کش نوعیت کا تھا ۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق حملےمیں آٹھ کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا ۔ افسوس ناک واقعے کی اطلاع ملتے ہی ملکی و صوبائی سطح پر کھلبلی مچ گئی ۔ سیاسی قائدین کی جانب سے دھماکے کی مذمت ، جاں بحق افراد سے اظہار تعزیت، زخمیوں کے علاج اور امداد کے لیے اقدامات ، مختلف تنظیموں کی جانب سے سوگ، ہڑتال اور احتجاج کے روایتی اعلانات ، سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے جانے کے رٹے رٹائے عزم کے ارادوں کی بازگشت ، آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی جیسے جملے ہر شخص کے کانوں میں سیسے کی طرح انڈیلے جارہے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے بھی دھماکے کی مذمت اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرادی ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی کوئٹہ پہنچے ہیں اور جائے وقوع کا جائزہ لیا۔ بلوچستان کےصوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے بھی بیان داغ دیا کہ سول اسپتال دھماکا سیکیورٹی لیپس ہے ،ذمہ دار جو بھی ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔
واقعہ کے رد عمل میں صوبائی وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے کہا کہ امن دشمن دہشت گرد آسان ہدف کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ حملہ بظاہر خود کش نوعیت کا لگتا ہے اور دھماکے میں بھارتی خفیہ ایجنسی \”را \” کے ملوث ہونے کے امکانات ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ ماہ قبل اسی صوبے سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ جس نے ملک کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا اور مزید حملوں کی منصوبہ بندیوں کی نشان دہی بھی کی تھی۔

\"quetta2\"صوبہ بلوچستان میں گذشتہ کچھ سالوں میں ہونے والے دھماکوں اور مختلف چھوٹے بڑے حملوں کے اعداد و شمار کے مطابق 2005 میں اکیاون افراد،2007 میں اننچاس افراد، 2009 میں بارہ افراد ،2010 میں اٹھاسی افراد، 2011 میں ساٹھ افراد، 2012میں تیس افراد ،2013 میں مختلف حملوں میں دو سو تینتس- افراد ،2014 میں بارہ افراد 2016 میں بتیس افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔
ملک دشمن عناصر کو شکست دینے کے عزم کا آج دوبارہ اعادہ کیا گیا ۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تین روزہ سوگ کا اعلان جبکہ سپریم کورٹ بار نے کوئٹہ سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے سات روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ صدر سپریم کورٹ بار کہتے ہیں دہشت گردوں کے حملے سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہر جمالی نے دھماکے میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ امن کے دشمن افراد کو بزدل کیوں سمجھا جاتا ہے ؟ یہ بزدل افراد ملک کے کونے کونے میں کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ بہت منصوبہ بندی کے بعد طاقت ور اور کامیاب حملے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس ملک میں محفوظ کون ہے؟ وکلاء برادری، صحافتی برادری،عام شہری، فنکار برادری، پولیس اہل کار، فوجی اور رینجرز اہل کار کسی کی جان بھی تو محفوظ نہیں۔ وزیر داخلہ کی جانب سے جعلی شناختی کارڈز کی پکڑ کے باوجود یہ نامعلوم دہشت گرد جن کی کوئی شناخت تک سامنے نہیں آتی ، ملک کے ہر صوبے کے ہر شہر کے اندر دندنا رہے ہیں ۔ جمہوری معاشرے کے عام شہری کا مملکت کے سربراہان سے سوال ہے کہ آخر کب تک بے گناہ عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے؟
­­­­امن کب اور کس طرح قائم ہوگا؟ آخر کتنے شہیدوں کی قربانیوں کے بعد عوام پر امن ماحول میں سانس لے سکیں گے؟ نیشنل ایکشن پلان کے مثبت نتائج کب برآمد ہوں گے ؟ امن دشمن کے خلاف محاذ میں جیت ہماری کب ہوگی؟ یا ہر واقعے کی طرح اس بار بھی بات وزراء کے دوروں ،بیانات،تعزیت،امدادکے اعلان،یوم سوگ، ہڑتال،احتجاج، تحقیقات اور تفتیشی ٹیموں کی تشکیل کے بعد معاملہ اگلے سانحےکے ہونے سے پہلے ہی سرد پڑ جائے گا۔

آخر یہ دہشت گرد کمزور کیوں نہیں پڑتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments