اتنے زیادہ صحافی کہاں سے آ گئے؟


\"mujahidہمارے اکثر پرانے دوست اس بات کا شکوہ کرتے ہوئے ملتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت کی حالت بہت دگرگوں ہے۔ اگر اس شکوے میں سے صحافی کا کردار منہا کرلیا جائے اور پوری کتھا سنی جائے تو یقین مانیں اُس مقبول عام کہانی میں اور اس شکوے میں رتی برابر فرق نظر نہیں آتا، جو ہم سب نے کئی بار سن رکھی ہے۔ یعنی پرانے زمانے میں سب کچھ عمدہ ترین تھا، لوگ صاف دل ، دکاندار ایماندار ، پولیس مددگار، انصاف فوری دستیاب اورہر شے اُجلی اور شفاف تھی۔ اب کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ یہی صورت حال صحافت اور صحافیوں کا تقابل کرنے والے پیش کرتے ہیں۔ شکوہ بردار دوست بعض اوقات اس داستان میں قطعیت کی کیل بھی ٹھونک دیتے ہیں کہ پرانے زمانے کے صحافی نظریاتی صحافی تھے، تعلیم یافتہ اور وضع دار تھے اور اگر کہیں کسی بات پر ڈٹ گئے تو زمانہ اِدھر سے اُدھر ہوجائے اُنہیں کوئی اپنے موقف سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ شکوے کی تان اس بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ دیکھو آج ہر کوئی صحافی بنا پھرتا ہے، جس کو صحافت کی الف ب بھی نہیں آتی وہ بھی صحافی ہے، اور تو اور جو لوگ اپنے اصلی پیشوں میں بالکل ناکام ہوگئے تھے وہ جھٹ سے صحافی بن گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیاب ترین صحافی ثابت ہوئے۔ ہمارے ایک سابق وفاقی وزیردوست بھی اس روش سے بہت نالاں ہیں اور اِنہیں یقین ہے کہ اگر صحافت اور صحافی سازی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو پاکستان میں آئندہ مردم شماری کے اعداد وشمارکچھ اس طرح ہوں گے۔ کل آبادی بائیس کروڑ، اکیس کروڑ صحافی پچیس لاکھ میڈیا مالکان (بشمول میڈیا ہرقسم) باقی ماندہ سرکاری ملازمین وغیرہ جو ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد امکانی طور پر پیشہ صحافت سے وابستہ ہوں گے وغیرہ۔ پچھلے دنوں موصوف نے فرمایا کہ آج کل میڈیا مالکان کی تعداد اس لیے بڑھ رہی ہے کہ بڑے سرمایہ داروں نے صحافت کو ٹیلی فون پروٹیکٹر کی طرح استعمال کرنا شروع کردیا ہے، جیسے ایک پلاسٹک کا کور (پروٹیکٹر) ٹیلی فون سیٹ کی نازک سکرین کو خراشوں وغیرہ سے محفوظ رکھتا ہے اِسی طرح ٹیلی ویژن چینل یا اخبار وغیرہ آپ کے اصلی کا روبار کو بیرونی خطرات سے بچاتے ہیں۔ بات میں چونکہ وزن تھا اس لیے ہم کوئی اعتراض نہیں کرسکے اور اُن کی بات کو من وعن تسلیم کرلیا۔

ایک دوسرے دوست کے مطابق اگر موجودہ صحافت کی روش کو دیکھا جائے تو بعض اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری صحافت دخل در معقولات اوردر اندازی کے ناپسندیدہ ہتھیاروں سے لیس ہے۔ گاڑی پر پریس کی تختی لگائے صحافی یا موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ کو سبز رنگ کی مدد سے صحافی کی شناختی علامت بنائے ہوئے یا پھر گلے میں پریس کارڈ لٹکائے ہوئے صحافی دھونس اور من مانی کی چلتی پھرتی تصویر معلوم ہوتا ہے۔ ایسے صحافی سے کسی بھی قسم کی زبردستی یا دراز دستی کی توقع رکھی جاتی ہے اور اگر اس کو من مانی نہ کرنے دی گئی تو پھر وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، ساکھ تباہ کرسکتا ہے، تشدد پر اُتر سکتا ہے اور چپ رہنے کے عوض بھاری معاوضہ بھی طلب کرسکتا ہے۔ چوں کہ یہ دوست سرکاری ملازم تھے اس لیے اُنہوں نے یہ دعوی اپنے تجربات کی روشنی میں کیا ہے۔ اُن کے پاس کئی ایسی کہانیاں ہیں کہ کس طرح لاتعداد صحافیوں نے نہ صرف اُن کی ملازمت کو خطرے میں ڈال دیا بلکہ کئی ایک تو اُن کی نجی زندگی تباہ کرنے کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ آج کل یہ دوست کسی میڈیا ہاوس میں ملازمت کے خواہاں ہیں اور اِنہیں اُمید ہے کہ ایک نیا ٹی وی چینل جس کے مالکان اِن کے ہم مسلک ہیں، جلدی اُنہیں ایک پُرکشش معاوضے والی ملازمت پر رکھ لیں گے۔

 

ایک تیسرے دوست کا خیال قدرے مختلف ہے۔ اُ ن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کی سیلابی کیفیت نیک شگون ہے کیوں کہ پاکستان میں صحافت کی موجودہ یلغار نے ریاست کی بہت سی بنیادی کمزوریوں کو عیاں کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں ہر جگہ صحافیوں کے لاؤ لشکر نہ ہوتے تو ہم کبھی یہ نہ جان پاتے کہ تقریباً آدھی آبادی خاموشی سے گدھا خور بن گئی ہے۔ جان بچانے والی ادویات سے لے کر تربوز اور خربوزے تک ہر چیز ملاوٹ شدہ ہے، ہر سال ہزاروں معصوم بچے اغوا ہو جاتے ہیں، لاتعداد مقامات پر طاقت ور لوگوں کے ٹارچر سیل ہیں جہاں عام لوگوں کو روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پولیس اہلکار اور پٹواری کس قدر دولت مند بن گئے ہیں، واپڈا کس طرح اپنے صارفین کی جیبوں کا صفایا کرتا ہے، جسم فروشی کا مکروہ دھندہ کس قدر پھیل چکا ہے، عورتوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا جاتا ہے، کس طرح شہر در شہر معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے، اکثر پولیس مقابلے کیوں جعلی ہوتے ہیں، قیمتی زمینوں، پلاٹس، پلازوں، مساجد و مدارس، جائیدادوں پر قبضے کیوں کیے جاتے ہیں، کون کرتا ہے اور اُن کو تحفظ کون دیتا ہے، ہمارے ہر قسم کے رہنماوں کے ساتھ محافظوں کے لاؤلشکر کیوں ہوتے ہیں، فرقہ پرست گروہ کیسے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں، بھتہ کیا ہوتا ہے، کس لیے لیا اور دیا جاتا ہے، قربانی کی کھالیں کیوں چھینی جاتی ہیں، عبدالستار ایدھی کو گالیاں کیوں دی جاتی ہیں، ہر قسم کے مافیا کیوں وجود میں آتے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ کیوں ہوتے ہیں، دھرنے کیوں دئیے جاتے ہیں، فوج کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لینے کے لیے کیوں کہا جاتا ہے، کس طرح راتوں رات شہروں میں چاکنگ کی جاتی ہے، بینر آویزاں کیے جاتے ہیں، یہ سب کچھ کون کرواتا ہے، صحافی کیوں مارے جاتے ہیں، ڈاکٹر اور استاد کیوں قتل ہوجاتے ہیں، طاہر القادری قرآن پر قسم کھا کر کیوں اچانک دھرنا ختم کردیتا ہے، عمران خان کیوں اعلان کرتا ہے کہ بس جلد ہی ایمپائر کی اُنگلی اُٹھنے والی ہے ، میاں نواز شریف کو اچانک دل کی تکلیف کیوں ہوجاتی ہے، میاں صاحب کے دل کا آپریشن اصلی تھا کہ محض ایک بہانہ، آصف علی زرداری کیوں اچانک ایوان صدر سے نکل کر دبئی پہنچ جاتا ہے، ڈاکٹر عاصم کیس کی اصل کہانی کیا ہے، کراچی آپریشن کیوں ہورہا ہے، مصطفی کمال کیوں اچانک ایک سیاسی پارٹی کا اعلان کردیتا ہے، سیاسی گرفتاریاں کیوں ہوتی ہیں، کشمیر میں نون لیگ کیوں جیت جاتی ہے، جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں ملتے ، قندیل بلوچ کیوں قتل کردی جاتی ہے، رویت ہلال کمیٹی والے کیوں تقسیم ہوجاتے ہیں اور مشرف کو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا؟ یہ لاتعداد \”کیوں\” جو ہماری ریاست کے کونے کونے میں بکھرے پڑے ہیں اِن کی نقاب کشائی اِنہی ٹڈی دل صحافیوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جو تجربہ کار نہ سہی، بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ سہی اور جنہوں نے واقعی کبھی صحافت کوبطور علم نہیں پڑھا لیکن بہت کچھ پاکستان کے عوام کے سامنے لے کر آئے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments