کبھی تسلیم جاں ہے زندگی….


\"Lubaba کسی دانا نے کیا خوب کہا تھا!

میں نہیں جانتا ! کہ زندگی اتنی مختصر کیوں ہے؟یہ ایک نا معلوم شے ہے ،کب اور کہاں ہے؟جس کے ہونے نا ہونے کا مجھے اس کا اس قدر احساس ہے کہ اس نا معلوم شے کے مختصر ہونے کے رازکو میں نے روش روش تلاش کیا ،کائنات کے ذرے ذرے میں ڈھونڈا اور چپہ چپہ چھان مارا مگر حقیقت نہ کھل سکی۔

اس زندگی کو سمجھنے کے لیے میں نے متعدد بار کوشش کی لیکن ہر امتحان میں ناکامی کا منہ دیکھا ۔اس لیے کہ زندگی کا ادراک اور اس کے بسیط میں بازی لے جانا ناممکنات میں سے ہے، سب کو یہی جواب ملتا ہے کہ بہت مختصر ہے زندگی۔ بات یہ ہے صاحبو!کہ زندگی کی تعریف ہر فرد نے اپنے فہم کے مطابق کی ہے۔ کہیں مختصر زندگی بڑی حسین ہے تو کسی کے لیے یہی مانند اذیت و کرب ہے۔ شعرائے کرام اکثرو بیشتر زندگی کا رونا روتے اور موت کی دعائیں کرتے نظر آتے ہیں کبھی صورت حال پژمردگی اور رجائیت پسندی کے طور پر بھی ابھرتی ہے۔ غالب کہتے ہیں

 ہاں مت کھائیو فریب ہستی

 ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے

 اقبال کہتے ہیں

 بر تر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی

 ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

 احقرہ زندگی کو صرف دھوکے کا نام دیتی ہے اور وہ دھوکہ جو انسان بڑی خوشی سے کھانا چاہتا ہے۔اس دھوکے کے لیے ہمارے دنیا کے باسی شب و روز کی تگ و دو میں غلطاں و پیچاں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس مختصر زندگی میں کامیابی کی دوڑ میں مکر و فریب بھی ہے اور سچائی و مخلصی بھی ۔جو افراد زندگی کے اس جزو کل کو پالیتے ہیں وہ اسے بحر بیکراں کا نام دیتے ہیں ، جس کی حےثیت سمندر کے بغےر آب جو سے زیادہ نہیں ۔

زندگی پر حق اسی کا ہے جو اسے گزارنے کے گر جانتا ہو، پھر یہی زندگی کامرانی کا خواب ہے اور اس چند روزہ زندگی سے اللہ کے قرب کوپانے کے بھی حقدار ہوجاتے ہیں ۔بزرگان دین زندگی کا اصل مقصد اللہ کی محبت کوقرار دیتے ہوئے ریاضت خداوندی اور مخلوق خدا کے کام آنا زندگی کا شعار بنا لیتے ہیں تو پھر آخری سانسوں تک ان کے دل اللہ کے نام پر دھڑکتے ہیںاور انہیں اپنی مختصر سی زندگی کا کسی سے گلہ نہیں ہوتا، پھر یہ حضرت نظام الدین اولیاء، خواجہ معین الدین چشتی اور داتا گنج بخش جیسے اعلی صفات کے بزرگان کے طور پر زندہ جاوید ہوتے ہیں۔

 وہ لوگ جو زندگی کو بلا مقصدگزارتے ہیں ان کی زندگیاں کسی وبال سے کم نہیں ۔اصل زندگی تو وہی ہے جس میں زندگی کا مطلب ریگ زار یا نخلستان سے گزرنا ہے۔ جہاں نشیب بھی ہیں اور فراز بھی۔ وہ افراد جو اسے نعمت سمجھنے کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ یہ بڑا خوبصورت تحفہ ہے جس کا انمول ہونا تو آپ اس مریض سے پوچھیں جو اپنی زیست کی سانسیں کسی اسپتال کے بستر پر پڑے اس آس میں گزار رہا ہوتا ہے کہ کہیں اسے چند پل اور نصیب ہوجائیں تو وہ اپنے لیے ،اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ کرلے، ان الفتوں کا مزا تو پالے اور اس کے عزیز اس کی محبت میں اللہ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اللہ !کسی طرح اس میں زندگی کی رمق پیدا کر دے مگر اکثر ناکامی ہی مقدر بنتی ہے۔چاہے آپ اپنے پیاروں کے بغیر زندگی کا ایک لمحہ گزارنے کا تصور بھی نہ کرتے ہوں مگر آپ کو طویل جدائی میں وقت کاٹنا ہوگا ۔

معروف شاعر ابن انشاءنے اپنی موت سے پہلے جب ان کے کینسر کے مرض کی تشخیص ہوگئی تھی ان دنوں میں آپ نے یہ شعر کہہ کر ایک مختصر گزارنے والے کے جذبات کی خوب عکاسی کی تھی۔

  اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

  اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے

 ہر انسان اپنی عمر کا جتنا وقت اس دنیا میں کاٹتا ہے اسے ہر وقت یہ احساس ستاتا ہے کہ زندگی برف کی مانند ہر لمحہ پگھلتی جارہی ہے ۔ہم نے تو ان جوانوں کو بھی دیکھا ہے جو خوش خرم زندگی گزارتے ہیں ، زندگی کا لطف لیتے ہیں خواہشات کو حقیقت کا روپ بھی دیتے ہیں ۔تاہم یہ سارے خواب جن کی ہم جلد از جلد تعبیر چاہتے ہیں موت جےسے تغےر کے سبب ہے ۔اس لیے کہ

 ہوس کو ہے نشاط کا ر کیا کیا

 نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

اگر آپ کو موت کا کھٹکا نہ ہو تو اس کی زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑجائیں اور آپ آج جن خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں

 وہ کل اور پھر شاید اس سے بھی آنے والے کل پر چھوڑ دیں ۔ زندگی کا لطف اس امر میں پوشیدہ ہے کہ آپ اپنے ماضی کی یادوں کو بھلا کر یعنی ناسٹیلجیا سے نکل کر حال میں زندگی گزاریں ۔اس لیے کہ ماضی صرف راکھ ہے اور مستقبل شرر۔ جس نے اس نکتے کو پالیا اس کے نزدیک مختصر کے کیا معنی کیونکہ اس نے تمام عمر اپنی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ بندگان خدا کے کام آکر زندگی کا وہ سرور پالیا جو شاید طویل العمر ہوکر بھی حاصل نہ ہوتا ۔ ان صاحبان نے زندگی مختصر ہونے کا شکوہ کیا تو یوں کیا کہ ابھی تو بہت سے افراد کو ان کی ضرورت تھی، ابھی زندگی کے جام کے مزید گھونٹ لینے تھے، ابھی تو اس کا سرور ہوا تھا کہ یہ کیا ہوا کہ زندگی کو موت نے گلے لگا لیا۔

 انسان اپنی زندگی میں کئی ادوار سے گزرتا ہے جس کی ترجمانی ”خلیل جبران “ کے مکالمے ”انسان اور زندگی“ سے ہوسکتی ہے۔

زندگی نے مجھے جوانی کے پہاڑوں کے دامن میں کھڑا کردیا اور پیچھے کی طرف اشارہ کیا ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک عجیب و غریب وضع کا شہر نظر آیا جو ایک ہموار زمین کی چھاتی پر آباد تھا۔ اس شہر میں مختلف قسم کی پرچھائیاں اور رنگ برنگ کے بخارات گردش کررہے تھے

 اور اس پر ایک ایسی پر لطیف کہر کی نقاب پڑی تھی،وہ قریب تھا کہ اسے نگاہوں سے اوجھل کردیتی ۔

 میں نے پوچھا

 زندگی !یہ کیا ہے؟

 اس نے کہا !

 غور سے دیکھو ، یہ دیار ماضی ہے ، جو دور بھی ہے اور نزدیک بھی ، نگاہوں کے سامنے بھی ہے اور روپوش بھی ۔

 زندگی نے قدم اٹھایا اور کہنے لگی ۔

 اٹھ اور چل کہ ٹھہرنا بزدلی ہے اور دیار ماضی کو دیکھنا جہالت “۔

 یہ کہ زندگی اپنی طویل تر رعنائیوں کے ساتھ امید بھی ہے تو ناامیدی بھی ، محبت بھی ہے اور نفرت بھی، امیری بھی ہے تو فقیری بھی، اعتقاد بھی ہے اور بے اعتقادی بھی۔ اس زندگی میں تمام تر رفعتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی چونکہ کسی کو بھی ہمیشگی حاصل نہیں اس لیے بظاہر ہر عروج کا انجام بس دو مٹھی خاک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments