کوئٹہ والو ! متحد رہو گے تو ہی زندہ رہو گے!


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"کوئٹہ۔ آج پھر دل پر ویسی ہی سی اداسی طاری ہے جیسی آرمی پبلک سکول والے دن تھی، گو کہ مانتا ہوں کہ شدت کچھ کم ہے۔ پانچ سال کے معصوم بچوں کو چن چن کر نشانہ بنانے کا تصور ہی روح فرسا ہے۔ لیکن بے شمار ننھے بچوں کے اس طرح یکلخت یتیم ہو جانے کا تصور بھِی تو جان لیوا ہے۔

خدارا اب یہ مت کہنا کہ یہ کام کسی مسلمان کا نہیں ہو سکتا ہے۔ خوارج بھی مسلمان ہی تھے۔ حجاج بن یوسف بھی مسلمان ہی تھا جس نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کر کے اسے ڈھا دیا تھا۔ ہمارے فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے طالبان بھی مسلمان ہی ہیں۔ اور کوئٹہ میں خودکش دھماکہ کرنے بھی کوئی غیر مسلم نہیں آیا ہو گا۔ جس نے بھی یہ قیامت ڈھائی ہے، اپنے تئیں تو وہ جنت جانے کے لیے اپنی جان دے رہا ہو گا، اور دوسروں کی جان لے رہا ہو گا۔ مرنے والے بھی مسلمان تھے اور مارنے والے بھی مسلمان ہی ہوں گے۔

یہ دھماکہ ایسا تھا کہ دور دور تک اس کی گونج سنائی دی ہے۔ پنجاب کے منڈی بہا الدین کے ایک وکیل دوست کراچی میں ہیں۔ سوگوار ہیں کہ ان کے ایک قریبی کولیگ کے چچا اور بھائی اس دھماکے میں شہید ہوئے ہیں۔ عثمان قاضی تو کوئٹہ کے جم پل ہیں۔ وہ اداس ہیں کہ ان کی ایک بزرگ نے انہیں بتایا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کام پر اور پوتوں کو سکول بھیجنے کے بعد کسی بھی ایسی خبر کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔ لیکن دل توڑ دینے والا بیان تو ان کے بھتیجے کا تھا جو ہسپتال میں خون دے کر آیا تھا۔ اس نے کہا کہ زخمیوں کی جلد از جلد موت کی دعا کریں کیونکہ وہ اتنی بری طرح مسخ ہو چکے ہیں کہ ان کی زندگی ان کی موت سے کہیں زیادہ بدتر ہو گی۔

\"hazara

لیکن کوئٹہ تو نہ جانے کب سے اس غارت گری کا شکار ہے۔ پہلے یہاں ہزارہ اور شیعہ زائرین نشانہ بنتے تھے۔ وہ دسمبر کی سرد راتوں میں اپنے مردوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھ کر انصاف مانگتے تھے۔ لیکن وہ تو شیعہ تھے۔ ان کے ساتھ سنی کیوں کھڑے ہوں؟ ان کے غم میں سنی کیوں شامل ہوں؟ لیکن سنی شامل نہیں ہوں گے تو پھر بم ایسے علاقے میں بھی پھاڑا جائے گا جہاں سنی بھی ہوتے ہیں۔ بم پھر ہسپتال کو بھی نشانہ بنائے گا اور پوچھ کر نہیں مارے گا کہ تمہارا مذہب و مسلک کیا ہے؟

دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی بھی خودکش دھماکوں کا توڑ نہیں کر سکتی ہے۔ فرانس اور بیلجئیم والوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ ان دہشت گردوں کا توڑ صرف شہری ہی کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے مخالف مسلک و مذہب والے آج مریں گے تو کل ہم بھی نشانے پر ہوں گے۔ لیکن اگر ہم سب اپنے اپنے مذہب و مسلک والوں کو دوسرے لوگوں کو برا بھلا کہنے سے روکیں گے تو پھر ہی امن قائم ہو گا۔ نفرت آمیز گفتگو ختم کریں گے، دوسروں کو برداشت کریں گے، دوسروں کے دین ایمان کا فیصلہ یہاں اس دنیا میں کرنے کی بجائے خدا پر چھوڑیں گے، اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو پھر ہی امن قائم ہو گا۔ جب شیعہ ہزارہ مریں تو سب احتجاج کریں، اور جب سنی بلوچ بھی مارا جائے، تو سب اس کے لیے انصاف کا مطالبہ کریں۔ جب مظلوم کا جنازہ پڑھا جائے تو سب ہی اس کی صفوں میں دکھائی دیں۔ مان لو کہ سب انسانوں کے خون کا رنگ سرخ ہی ہے اور مظلوم جہاں بھی مرے وہاں کی دھرتی سرخ ہی ہوتی ہے۔ یاد رکھو کہ اگر تم سریاب روڈ پر نہیں ہو گے تو پھر تمہیں سول ہسپتال میں ہونا ہو گا۔

\"burial-of-the-kirani-road-blast-shia-hazara\"

یہ خوب جان لو کہ جب قتل و غارت شروع ہوتی ہے تو پھر یہ کسی ایک گروہ تک محدود نہیں رہتی ہے۔ سب ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ افغانستان، لیبیا، عراق اور شام کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ کیا ہمیں اس حققیت کا علم نہِیں ہے کہ کوئی ایک گروہ باقی سب گروہوں کو روئے زمین سے مٹانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ یا تو مستقل قتل و غارت کے ماحول کے لیے تیار رہیں اور شام جیسے حالات میں جینے پر راضی ہو جائیں، یا پھر سب کو جینے کا حق دیں۔ دوسرے کو جینے کا حق دیں گے اور اس کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوں گے تو پھر ہی آپ کو بھی جینے کا حق ملے گا۔

حکومت بھی اپنی دو عملی ترک کرے۔ صرف سرکاری عسکری تنظیموں کو ہی اسلحہ رکھنے اور فوجی تربیت دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ نجی مسلح تنظیمیں ختم کی جائیں خواہ وہ کسی مقصد کے لیے ہی کیوں نہ بنائی جائیں۔ افغانستان اور ایران میں فوجی تربیت حاصل کرنے کا سلسلہ روکا جائے اور انٹیلی جنس تنظیموں کی مدد سے ایسے افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے جو یہ تربیت پاتے ہیں۔ نفرت پھیلانے والے مبلغین کا قرار واقعی علاج کیا جائے۔ کسی بھِی شہری گروہ کے خلاف تشدد پر ابھارنے والے کو سخت سزا دی جائے۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ سلمان تاثیر کو مار ڈالنے پر ممتاز قادری کو تو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے، لیکن جس نے اسے اس کام پر مائل کیا تھا، وہ شخص محفوظ رہتا ہے۔

\"awaz-protest\"

ریاست کو بھی یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس کے غیر قانونی اقدامات اسے کمزور کر رہے ہیں۔ اب دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو ریاست کو بھی مجرمین کی صف میں کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیوں نے یہ دن دکھلایا ہے۔ جس ملک میں انتظامیہ ہی قانون کی پاسداری نہیں کرے گی، تو اس ملک میں ہر شخص قانون سے کھیلے گا۔ کیا واحد بلوچ کی گمشدگی پر ملک بھر سے اٹھنے والی آوازیں ایک وارننگ نہیں ہیں؟ کیا قومی اسمبلی کے فلور پر مولانا شیرانی کی تقریر ایک تنہا آواز ہے؟

مذہبی شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے ریاست کو بھی یا تو عملی طور پر اسلامی ریاست بناتے ہوئے مسجد سے صرف حاکم وقت کا بھیجا گیا خطبہ ہی پڑھنے کی اجازت دی جانی چاہیے، یا پھر اسے سیکولر قرار دیتے ہوئے مذہب کو امور ریاست سے الگ کیا جائے اور جو فرد بھی نفرت پر ابھارے اسے قوم کا مجرم قرار دیا جائے اور سخت سزا دی جائے۔

ورنہ پھر خون کا یہ کھیل جاری رہے گا۔ ہم کٹتے رہیں گے۔ ہم مرتے رہیں گے۔ کوئٹہ والو ! متحد رہو گے تو ہی زندہ رہو گے! پاکستان والو ! متحد رہو گے تو ہی زندہ رہو گے!

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments