کوئٹہ حملہ اور ہماری ذہنی پستیاں


محمد بلال\"muhammad-bilal\"

2016  میں کوئٹہ میں چار حملے ہوئے جن میں کوئی 150 کے قریب شہید ہوچکے ہیں ۔لیکن یہ حملہ اس سال کا دوسرا بڑا حملہ تھا ، پہلا حملہ گلشن اقبال لاہور میں ہوا جس میں 80 کے قریب افراد شہید ہوئے ۔ سب سے پہلے تو مجھے اس بات کا افسوس ہے جو ہمارے دوست اس حملے کو بلوچ بھائیوں کی قربانی بتا کر وفاق اور پنجاب کی باسی کڑاہی میں ابال پیدا کر رہے ہیں ۔ انتہائی افسوس کی بات ہے جب دشمن \” پنجابی \” اور \” بلوچ \” کی تفریق سے ماوراء ہو کے حملے کر رہا ہے ایسے میں ہمارا ان فضول بحثوں کو اٹھانا انتہا درجے کی حماقت ہے۔ یہ وقت تعزیت یا تسلی کا ہے ایک نئے عزم کا ہے کہ ظالموں سے حساب ہوگا نا کہ یہ بات کہنے کا \’ بلوچوں \” نے یہ قربانیاں دیں اور \” پنجابیوں \” نے یہ کام کیے ۔ صرف اسی سال میں ہی دیکھ لیں دونوں کی شہادتیں برابر ہوں گی ۔ واللہ ہمارے لئے یہ دونوں خون عظیم ہیں، دونوں ہی معصوم و مطلوم ہیں ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ۔

اب اس حملے کو اگر دیکھا جائے تو کئی جہتیں سامنے آتی ہیں کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کشمیر میں \” تحریک \” پورے عروج پر ہے اور دنیا میں اس کی سبکی ہو رہی ہے ۔ پاکستان اس وقت کشمیر کے مقدمہ کو احسن انداز میں پیش کر رہا تھا ۔ ایسے وقت مین اس حملہ کا ہونا دراصل پاکستان کو \” نفسا نفسی \” کی صورتحال سے دوچار کرنا ہی لگتا ہے کہ بھائی پہلے اپنے گھر کو سنھالو پھر \” کشمیریوں \” کا سوچنا ۔ دنیا کا اصول ہے کہ کسی بھی کیس میں سب سے پہلا شک اس پر ہی کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس کا فائدہ ظاہر ہے بھارت کو ہی گیا ۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست کو عوام کی نظر میں ناکام ثابت کرنا اور یہ باور کرانا کہ ہم ابھی \” زندہ \” ہیں گو آخری سانسوں تک ہی پہنچ گئے ہیں ۔ٹی ٹی پی کے یہ حملے صرف اس لئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مطمئن کر سکیں کہ ہماری کمر ابھی تک نہیں ٹوٹی۔ اگر ہم ضرب عضب کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو ان بے غیرتوں کے حملے مرکزی اور گنجان آباد جگہوں اور صوبوں سے ہٹ کر ایسے علاقوں اور صوبوں میں شفٹ ہو چکے ہیں جو آبادی میں کم اور رقبے میں بہت زیادہ ہیں جہاں ان کی سرویلنس کافی مشکل ہوتی ہے ۔ قوم میں بے یقینی کی صورتحال پیدا کرنا ہی دراصل اس حملے کا مقصد تھا کہ ہم دشمن کے مقابلے میں ناکام ہوئے ہیں ۔

ہمارے چند دانشور ان کی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے پر تلے ہیں چاہے غیر دانستہ طور پر ہی سہی ۔ جن کے سارے تجزیہ کا لب لباب صرف اتنا ہی نکلے گا یہ ریاست کی ناکامی ہے ۔ ریاست کے سکیورٹی ادارے پہلے کہاں تھے؟ سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے یہاں سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی ۔ جب کوئی قوم ایسی فضول باتوں مین الجھتی ہے اور اپنے مخالف کے پروپیگنڈہ سے \” فرسٹریشن \” کا شکار ہو جاتی ہے تو اس کی تباہی تب شروع ہوتی ہے کیونکہ تب وہ غیر دانستہ طور پر اپنے لاشعور میں اپنے دشمن کو \” طاقتور \” سمجھ بیٹھتی ہے چاہے وہ گیدڑ کی طرح میدان سےجنگ سے بھاگ ہی کیوں نہ چکا ہو ۔ یہی وجہ ہے آج کے دن ہمیں سوشل میڈیا پر ایک احساس کمتری ، بزدلی اور الزام تراشی تو نظر آئے گی لیکن ہمت ، بہادری ، صبر و استقامت اور عزم میلوں تک نظر نہین آئیں گے ۔ اگر ہم دشمن کے اس پروپیگندہ کو سمجھنا چاہیں تو حالیہ دنوں میں ترکی مین بغاوت کی کوشش ایک واضح مثال ہے ۔ آخری وقت تک باغیوں نے یہ باور کرایا کہ اردگان گیا اور عوام جو لڑنے آئی ہے اپنی کمر تڑوا بیٹھی ہے ، میڈیا بھی ساتھ تھا تو قوم کیوں نہیں ہاری ، آخر وہ ایک فون کال پر ہی کیوں یقین کر بیٹھی ۔ وجہ صرف اتی ہے کہ وہ قوم دشمن کے ہتھکنڈوں کو سمجھتی تھی اور جانتی تھی کہ یہ وقت اس بحث کا نہیں ہے کہ اردگان \”جمہوریت پسند\” ہے یا \” ڈکٹیٹر \” بلکہ وہ جانتی تھی کہ اردگان چاہے دکٹیٹر ہویا جمہوری پر ہمارا دشمن نہیں ۔ جبکہ یہاں معاملہ برعکس ہے ہر حملے کے بعد ہمین صرف یہ دکھائی دیتا ہے یہ حملہ آرمی نے کرایا ، \” ن \” لیگ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے ایسا \”را \” کی مدد سے کر رہی ہے ۔ جب تک ہم اس پستی سے نہیں نکلیں گے تب تک ہم اپنے دشمن سے نہیں جیت سکتے ۔

\” خدارا دشمن کو پہچانو\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments