جعلی جمہوریت کا اصلی نوحہ


\"wajahat\"عبدالمجید خان یوسف زئی نیک آدمی تھے۔ ان کی زندگی دوسروں کی خدمت اور وفاداری سے عبارت تھی۔ یہ خوبیاں ایسی ہیں کہ اپنی ذات کی نفی کرنا پڑتی ہے۔ وجود معنی مانگتا ہے۔ اس خلا کو عبدالمجید خان یوسف زئی نے ’ساکھ سجر‘ کے ہتھیار سے پورا کیا تھا۔ ساکھ سجر دراصل ’شاخ شجر‘ کی خرابی تھی جس سے وہ شجرہ نسب مراد لیتے تھے، ’ساکھ سجر‘ کا اصول گویا عبدالمجید خان یوسف زئی کی ناک پر دھرا تھا، اسد محمد خان کی کہانی ہے۔ اور بہت سہج سے بیان کئے گئے پیچ در پیچ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالمجید خان یوسف زئی کی جملہ خوبیاں اور خامیوں کا مرکز ’ساکھ سجر‘ کی کوئی نامعلوم کمزوری تھی۔ اثبات کی خواہش تھی…. اور اس خلا کو ایک جھوٹ سے بھرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا….

قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت \”شہاب نامہ\” اردو کی مقبول ترین تصانیف میں شمار ہوتی ہے۔ چند بہت اچھے افسانے بھی شہاب صاحب کے قلم سے نکلے۔ شہاب صاحب پیشے کے اعتبار سے بیوروکریٹ تھے، اور میلان طبع ادیب کا پایا تھا۔ ان دو باہم متحارب مخلوق کی ایک قالب میں سمائی کیسے ہوتی۔ شہاب صاحب نے دونوں پر تصوف کا کمبل ڈال دیا تھا۔ شہاب صاحب اولولعزم افسروں، مقبولیت پسند ادیبوں اور خوش عقیدہ پڑھنے والوں میں یکساں مقبول ہیں۔ نومبر 1967 میں الطاف حسین قریشی کو انٹرویو دیتے ہوئے شہاب صاحب نے ایک جملہ ایسا کہہ دیا کہ طالب علم کی نظر میں ان کے سب لکھے پر بھاری ہے۔ ”(مغرب میں) دولت سخت ریاضت اور پیہم جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہوئی…. دولت کے تجریدی ارتقا سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خاص انداز کا کردار بھی تشکیل پایا ہے جس میں ایک اخلاقی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں تقسیم کے بعد دولت اور محنت کے درمیان توازن بگڑ گیا ہے، محنت اور ریاضت کی بجائے دولت فریب کاری اور جعل سازی کے ذریعے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس پر قابض رہنے کے لئے جھوٹ اور بے ایمانی کا کاروبار بڑھتا چلا گیا ہے۔“

ٹھیک پچاس برس پہلے قدرت اللہ شہاب نے یہ حقیقت بیان کی تھی مگر یہ نہیں بتایا کہ محنت اور دولت میں توازن کیسے بگڑتا ہے۔ بات یہ ہے\"Shahab کہ محنت اور دولت کے درمیان کی کڑی علمی جستجو ہے۔علمی جستجو کے نتیجے میں نامیاتی طور پر جو اقدار جنم لیتی ہیں وہ دولت پر اخلاق کا احتساب قائم کرتی ہیں۔ معاشرے میں وسائل پر اخلاق کے احتساب کا اعلیٰ ترین نمونہ جمہوریت ہے۔ جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام شہری حقوق اور رتبے میں برابر ہیں۔ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں اور اس برابری کے اصول سے جو نمائندہ حکومت قائم ہوتی ہے، وہ شہریوں کو جواب دہ ہے۔

ہمارے ہاں محنت اور دولت کا توازن اس لئے بگڑ گیا کہ ہم نے علم سے دشمنی پال لی۔ حالیہ صدیوں میں سامنے آنے والے علم کے ہر نقطے کو گمراہی، بدعت، فریب اور باطل قرار دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری محنت محض مشقت قرار پائی۔ علم کو رد کرنے اور علم کی ناگزیر محتاجی سے جو خلیج پیدا ہوئی اسے ہم نے ’ساکھ سجر‘ کی جھاڑیوں سے پاٹنے کی کوشش کی۔ عورت اور مرد میں امتیاز پیدائش کے ’ساکھ سجر‘ پر کاغذی بیلیں چڑھانے ہی کا کام تو تھا۔ عقیدے کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق مساوات کی نفی ہے۔ مساوات کی نفی سے جمہوریت کیسے جنم لے سکتی ہے۔ ذات پات تو نام ہی مفروضہ پیدائشی اونچ نیچ کا ہے۔ اللہ کے فضل سے ہمارے قانون ساز اداروں، عدالتوں، درس گاہوں اور علاج گاہوں میں ہر معزز نام نے ’ساکھ سجر‘ کی جھاڑی باندھ رکھی ہے۔ علم کی کونپلوں کو ہم نے نظریاتی مفروضات کے گرین ہاو¿س سے ڈھانپ دیا ہے۔ علم سے انکار کیا جائے تو ماضی کا جائز معاشی مفاد لمحہ موجود کے استحصال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس استحصالی مفاد کو قائم رکھنے کے لئے جمہوریت سے انکار کیا۔ علم کے فروغ سے بیدار ہونے والی معاشرتی قدروں کو مستحکم کرنے کے لئے جمہوریت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ علم کا پھیلاو¿، محنت کی نیکی، مساوات کا تحفظ اور \"Bano-Qudsia\"جمہوریت کی جوابدہی مل کر زندگی کو معنویت بخشے ہیں۔ یہ وجود کا وہ اثبات ہے جو علم کی دیانت سے پھوٹتا ہے۔ علم سے انکار کیا جائے تو جمہوریت کی گھاس بازار سے خرید کر اپنے لان میں نصب نہیں کی جاسکتی۔ علم ، محنت، دولت اور سیاسی بندوبست میں دیانت دارانہ توازن سے جنم لینے والی معنویت ہی حقیقی ہو سکتی ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں علم کی سچائی کو ساکھ سجر کے جھوٹ میں بدل دیا۔ اس سے معنی اور بے معنویت کا بحران پیدا ہوتا ہے۔

محترمہ بانو قدسیہ نے اپنے ناول راجہ گڑھ میں معنویت اور بے معنویت کا سوال اٹھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تسلیم کرنے سے حلت یعنی جائز مظہر وجود میں آتا ہے اور انکار کرنے سے مرداریعنی حرام پیدا ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ حلال کو معنی اور حرام کو بے معنویت کا استعارہ قرار دیتی ہیں۔ معذرت لیکن علم کی منطق اس سے مختلف ہے۔ علم کی دنیا میں سوال کی حقیقی جستجو اور اس سے سامنے آنے والے ممکنہ طور پر قابل تصدیق نتائج سے جواز پیدا ہوتا ہے۔ اس جواز کی بنیادیں لمحہ موجود کی علمی دیانت میں ہوتی ہیں۔ اس دیانت پر قابل عمل اقدار استوار ہوتی ہیں۔ تاریخ میں انسان انہی اقدار کو اپناتے آئے ہیں جو معاشی اور معاشرتی طور پر فائدہ مند ہوتی ہیں۔ جن اقدار کی افادیت ختم ہوجاتی ہیں ان کی تلقین بے نتیجہ رہتی ہے۔ مسلسل جستجو سے فعل کو معنی نہ دیا جائے تو انسانی عمل رسم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ رسم کے لئے دلیل کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ رسم وہ اخلاقی حکم ہے جس کی افادیت معیشت اور معاشرت کے ماضی میں گم ہو چکی۔ رسم غلبہ پا لے تو معنویت گم ہو جاتی ہے، ’ساکھ سجر‘ کی جھاڑیوں کی اوٹ میں حلال اور حرام کی بحث کی جاتی ہے، بریانی کی پلیٹ پر چھینا جھپٹی کی جاتی ہے۔ چوک سے گزرتے ہوئے، چلتے موٹرسائیکل پر بیٹھ کر موبائل فون پر مسیج لکھا جاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ذات برادری کا جوڑ توڑ کیا جاتا ہے۔ علمی تحقیق کے نام پر روایت سے سند لی جاتی ہے۔ پاکستان کی جمہوریت سے یورپ کی جمہوری اقدار کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کے ٹیلی ویژن پر اشتہار سنائی دیتا ہے، کوکا کولا پلا دے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments