سیاست بیانیاں اُن کی


\"naseerکرپشن اور پاکستان اکھٹے نہیں چل سکتے ۔۔۔۔ (پرویز خٹک)

تو پھر آپ پاکستان چھوڑ دیں۔ ویسے اب تک تو اکھٹے چل ہی رہے ہیں بلکہ دوڑ رہے ہیں۔ عمرانیات، سیاسیات اور معاشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کرپشن کے بغیر پاکستان چل ہی نہیں سکتا۔ اندیشہ ہائے دور دراز ہے کہ کرپشن ختم ہوئی تو خداناخواستہ پاکستان ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا کرپٹ سیاستدانوں کے محبِ وطن ہونے میں کوئی شک نہیں کرنا چاہیے۔ بے چارے وطن کی محبت میں کرپشن کرتے ہیں۔

ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا تو بعض سیاسی عناصر بلوں سے باہر نکل آئے۔۔۔۔۔ (شہباز شریف)

ظاہر ہے بلوں سے باہر نکل کر ہی راہ بلکہ سی پیک کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ اب شاہراہ خود تو بلوں کے اندر جانے سے رہی۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ بعض سیاسی عناصر کوٹھیوں بنگلوں کی بجائے بلوں میں رہتے ہیں۔ گویا سیاسی عناصر نہ ہوئے، کترنےاور طاعون پھیلانے والے روڈنشیا نامی خاندان کے ہوئے۔ وزیر اعلیٰ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کون سے بلوں سے۔ بجلی اور گیس کے بل بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کی فکر میں تو عام لوگ رہتے ہیں۔ سیاسی عناصر صرف بل پاس کرتے ہیں، کسی بھی قسم کا بل ادا کرنا یا کسی بل پر عمل کرنا توہینِ سیاست سمجھتے ہیں۔ بل جمع کرانے یا کسی بل پر عملدرآمد کرنے سے ان کے استحقاقات اور جذبات اتنے ہی مجروح ہوتے ہیں جتنے عوام کے توہینِ رسالت پر ہوتے ہیں۔ عناصر کا سیاسی ہونا بھی وزیرِ اعلیٰ کے بیان سے پتا چلا ہے۔ اس سے پہلے یہی سنا اور پڑھا تھا کہ عناصر فطری ہوتے ہیں اور چار ہوتے ہیں۔ یعنی پانی، مٹی، آگ، ہوا۔ لگتا ہے وزیرِ اعلیٰ نے کوئی پانچواں عنصر دریافت کر لیا ہے جو اپنی ماہیت میں فطری نہیں غیر فطری یا سیاسی ہے۔ نئے عنصر کی دریافت پر وزیر اعلیٰ کو داد تو بنتی ہے۔

عمران خان کنٹینر پر چڑھنے سے پہلے پارٹی چندے میں ہیر پھیر کا جواب دیں ۔۔۔۔۔ (ن لیگ)

کنٹینر پر ہی چڑھنے جا رہے ہیں سولی پر نہیں کہ جملہ حساب کتاب کا جواب دے کر چڑھیں۔ اور وہ بھی مانگی ہوئی اُس رقم پر جو مختلف لوگوں سے پارٹی امور کے لیے اکٹھی کی گئی ہو۔ تحریک انصاف کے ساتھ کیسی ناانصافی ہے کہ رقم اتنے لوگوں کی اور جواب دہ صرف ایک عمران۔ ن لیگ کو چاہیئے پہلے \”چندہ\” کی رقم پر ٹیکس لگائیں پھر حساب کتاب مانگیں۔ ان کے ڈار صاحب ان امور کے ماہر ہیں۔ وہ تو شہریوں کے چلنے پھرنے اور رونے ہنسنے پر بھی ٹیکس لگا دیتے ہیں۔ گاڑیوں اور بچوں کے پارک ہر دو پر ٹیکس عائد ہے۔ اب تو ان کی ٹیکس خور طبع کی تسکین کے لیے بڑے بڑے کاروباری، آئی ٹی، تعلیمی اور صنعتی پارک بنائے جا رہے ہیں۔ جہاں اور کچھ ہوا نہ ہوا متعدد بلکہ متعدی قسم کے ٹیکس ضرور ہوں گے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ عمران دشمنی میں ڈار صاحب \”چندہ\” کی بجائے کہیں \”چندا\” یعنی چاند پر یا چندا نام کی خواتین پر ٹیکس نہ لگا دیں۔ نوٹیفکیشن ہی تو جاری کرنا ہے کہ جس جس کا نام چندا ہو گا یا جو اپنی محبوبہ اور بیوی کو چندا کہے گا یا جو جو چندا (چاند) دیکھے گا اس پر ٹیکس لگے گا۔ ہلالِ عید کی رونمائی پر اضافی ٹیکس ہو گا۔ البتہ اسلامی ملک ہونے کے ناتے رمضان کا چاند دیکھنے پر خصوصی ڈسکاؤنٹ یا ٹیکس ری بیٹ ملے گا۔ نصف چاند کی دید پر نصف ٹیکس، پورے چاند کے دیدار پر سو فیصد ٹیکس اور نیلے چاند یعنی بلیو مون کی منہ دکھائی دس گنا زیادہ ہو گی کیونکہ وہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ خیال رہے اس طرح رویتِ ہلال کمیٹی بھی ٹیکس کی زد میں آ سکتی ہے۔ شاید اسی لیے ابھی تک \”چندا ٹیکس\” نہیں لگایا گیا۔ ن لیگ کی معصومیت کا بھی جواب نہیں۔ جو کروڑوں اربوں لوٹ کر کھا رہے ہیں اس پر کچھ کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جواب کیا ہو گا لیکن چندے کا حساب کتاب مانگ رہے ہیں وہ بھی کنٹینر پر چڑھے عمران خان سے۔ پچھلی بار تو کوئی امپائر تھا جس کی انگلی عین وقت پر جواب دے گئی، پتا نہیں اس بار کنٹینر پر چڑھانے والا یعنی \”دارکش\” کون ہے۔

پانامہ پیپرز نے شریف خاندان کو بے نقاب کیا۔ (بلاول زرداری)

اور زرداری خاندان پر پردہ ڈال دیا۔ سچ کہتے ہیں باپ پر پوت پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ لگتا ہے یہ بات عوام اور وطن کی محبت اور ملک و قوم کے مفادِ عامہ میں دبئی بیٹھے خود ساختہ جلا وطنی کا لبادہ اوڑھے ان کے والدِ محترم اور پارٹی کے گاڈ فادر نے نونہال بلاول کے منہ میں ڈالی ہے۔ تربیت کا کچھ تو اثر ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کا قبلہ و کعبہ واشنگٹن ہوتا تھا اور وہ ذرا ذرا سی بات پر سیدھا وہاں اُڑتے ہوئے جاتے تھے۔ ہے تو اب بھی وہی لیکن اس کا راستہ اب دبئی، لندن اور سوٹزر لینڈ سے ہو کر جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا تو صدر دفتر، صدر دیوان بلکہ لاڑکانہ ہی اب دبئی ہے۔ اگلے الیکشن میں اگر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو قوی امکان ہے کہ ملک کا صدر مقام بھی دبئی منتقل کر دیا جائے گا تا کہ قومی خزانے پر بار بار دبئی آنے جانے اور وہاں قیام کے اخراجات کا غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔

نواز شریف کے احتساب تک سڑکوں پر رہیں گے۔ (عمران خان)

عمران خان کو ابھی تک سیاسی بیان دینا نہیں آیا۔ وہ اپنے بیان میں اگر یہ مطالبہ کرتے کہ احتساب کے محکمہ کو نیشنل ہائی ویز اتھارٹیز کی تحویل میں دے دیا جائے تو حکومت اس پر غور بھی کرتی، بلکہ شاید فوراً مان جاتی اور عمران خان کی بلے بلے ہو جاتی اور سیاسی کرکٹ میں ان کی باؤلنگ اور بلے بازی کا بھرم رہ جاتا۔ ٹریفک کی طرح احتساب بھی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دھکے کھاتا۔ دریاؤں، ندی نالوں کے پلوں، بائی پاسوں، انڈر پاسوں، اوور ہیڈ برِجوں پر اور جا بجا ٹول ٹیکس دیتا۔ احتساب \”نااہل کاروں\”، \”بے تفتیش کاروں\” کو بھی پتا چلتا کہ کسی وجہ کے بغیر عام چار پہیے والی کار کا ٹول ٹیکس کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اور پشاور سے لاہور تک اتنے ٹول پلازے ہیں کہ پٹرول سے زیادہ ٹول ٹیکس کا خرچہ پڑتا ہے۔ جبکہ سڑکوں کا یہ حال ہے کہ آنکھیں کھول کر گاڑی چلائیں یا بند کر کے \”کھڈے بازی\” ہونی ہی ہونی ہے۔ سابقہ آدھے پاکستان کے گورنر موسیٰ خان کے افتتاح کردہ دریائے جہلم کے پُل پر سے گزرنے کا ٹیکس ابھی تک لیا جا رہا ہے۔ پل پر لگی گورنر موسیٰ خان کے نام کی تختی کا احتساب ہونا چاہیئے۔ عمران خان کے کنٹینر پر رہنے سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا تو اب سڑکوں پر رہنے سے کیا فرق پڑے گا۔ البتہ عوام الناس کو، روزانہ ملازمت پر، شادیوں جنازوں پر جانے والوں، طالبعلموں، اسپتالوں کو جاتے مریضوں اور ایمبولینسوں، اشیائے صرف کی نقل و حمل اور ایک شہر سے دوسرے شہر سفر والوں کو فرق پڑے گا، ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ عمران خان سڑکوں پر چلتے پھرتے رہیں گے یا ایک ہی جگہ کھڑے رہیں گے یا کسی وقت تھک کر بیٹھ بھی جایا کریں گے۔ تینوں حالتوں میں سڑک پر ان کے اور دیگر سابقہ انصافیوں حالیہ احتسابیوں کے قیام و طعام اور دیگر حوائجِ ضروریہ کا کیا انتظام ہو گا۔ البتہ اس بیان سے ایک بات واضح ہے کہ احتساب صرف نواز شریف کا ہو گا، زرداری کے احتساب سے اب وہ دست بردار ہو چکے ہیں۔

امریکی شہری میتھیو بیرٹ کو جاسوس کہنا قبل از وقت ہے ۔۔۔۔۔۔ (ترجمان وزارتِ داخلہ)

ظاہر ہے جب وہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح باعزت طور پر بھگا دیا جائے گا اس کے بعد ہی اسے جاسوس قرار دیا جا سکتا ہے۔ پہلے جاسوس قرار دینے سے اسے رہا کرنا مشکل ہو جائے گا یا اسے رہا کرنے کے لیے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کو بھی رہا کرنا پڑے گا۔

بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر امریکہ کی خاموشی حیران کن ہے ۔۔۔۔۔۔ (ترجمان وزارتِ خارجہ)

کیونکہ یہ پاکستان کا نہیں امریکہ کا قومی معاملہ ہے۔ حد ہے امریکی حکومت اور قوم اتنی غیر ذمہ دار اور غافل ہے کہ پاکستان میں پکڑے جانے والے بھارتی جاسوس کا ذکر تک نہیں کرتی۔ پاکستان کے محب وطن لوگ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی ریٹنگ اوپر نیچے ہونے پر پریشان ہو ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان کی بے اعتنائی دیکھیں کہ دونوں امریکی صدارتی امیدواران اپنی الیکشن مہم میں اس معاملے پر خاموش ہیں۔ دنیا بھر کے حالات پر چیخم دھاڑ کرتے ہیں لیکن اپنے اتنے اہم اندرونی معاملے پر واویلا کرنا تو دور کی بات بیان تک نہیں دیتے۔ پاکستان امریکہ کے کہنے پر اپنی دہشت گردی کی جنگ لڑ لڑ کر بے حال ہو چکا ہے۔ معلوم نہیں لوگوں کو نظر کیوں نہیں آتا کہ اس جنگ میں پاکستان اور امریکہ ایک ہی پیج پر ہیں بس درمیان میں ہزاروں میلوں کا سفر، سینکڑوں سالوں کی ترقی اور کچھ اچھے برے طالبان کا فاصلہ ہے۔ امریکہ کو چاہیئے پاکستان میں بھارتی جاسوس پکڑے جانے پر فوراً بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کرے۔ آخر ہم بھی تو اس کے کتنے ہی ریمنڈ ڈیوس اور بلیک واٹریے پکڑے بغیر رہا کر دیتے ہیں۔ دوستی اور قومی ذمہ داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments