چھوٹے مودودی اور چھوٹے تارڑ کا الیکشن


میں سکول کی بزم ادب کے اجلاس میں ہر ہفتے میں ’’پاگل نگر کی خبریں‘‘ نہایت ریڈیائی انداز میں پڑھا کرتا تھا اور یہ سلسلہ اتنا مقبول ہوا کہ مجھے ’’پاگل نگر‘‘ کا خطاب دے دیا گیا اور پھر میرے پیچھے ’’پاغل ای اوئے‘‘ کے نعرے لگنے لگے تو انہی دنوں بزم ادب کے صدر کے لیے الیکشن کے انعقاد کا اعلان ہو گیا۔ میں بھی صدارت کے لیے کھڑا ہو گیا اور حزب مخالف نے عمر فاروق مودودی کو بہلا پھسلا کر میرے خلاف الیکشن لڑنے پر آمادہ کر لیا۔ عمرفاروق، مولانا مودودی کا بیٹا تھا اور وہ ایک نہایت شریف الطبع، نستعلیق قسم کا بچہ تھا۔ ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں اچکن پہنے ہوئے نہایت دھیمے مزاج کا۔ ہمیشہ آپ جناب سے مخاطب کرتا۔ مثلاً اگر میں آدھی چھٹی کے وقت اُسے کہتا کہ اوئے عمر فاروق چل یار نان اور چھولے کھاتے ہیں تو وہ کہتا، جناب آپ تناول فرما آئیے، مجھے بازار کی چیزوں سے پرہیز ہے۔ ہم سب اُس کی شرافت کے مداح تھے۔

البتہ پڑھائی کے معاملے میں وہ خاصا ناتواں تھا، مشکل سے پاس ہوتا اگر ہوتا۔ اتنا شریف تھا کہ ماسٹر صاحب کے بید ہاتھوں پر وصول کرتے ہوئے بھی انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتا اُف تک نہ کرتا۔ ہم اچھے دوست ہوا کرتے تھے بلکہ اُن دنوں مجھے آٹو گراف جمع کرنے کا شوق تھا تو میں نے اُسے اپنی آٹو گراف بک دی کہ اس پر اپنے ابا جی کے دستخط کروالانا۔ مولانا مودودی نے میری آٹو گراف بک کے صفحے پر لکھا ’’خدا کا خوف ہر نیکی کی جڑ ہے‘‘ ۔ ابھی پچھلے دنوں میرے ایک چاہنے والے عبید اللہ کیمر نے اپنی ویب سائٹ پر مولانا کے یہ آٹو گراف منتقل کیے اور میرے بچپن کی ایک تصویر کے ساتھ مولانا کی تصویر لگائی اور لکھا کہ دیکھئے تارڑ صاحب نے سکول کے زمانے میں مولانا کے آٹو گراف حاصل کیے یعنی میں اُن کا اتنا مداح تھا۔

مستنصر حسین تارڑ بیٹنگ کرتے ہوئے

اس پر میں نے ہلکے پھلکے انداز میں اُسے کہا کہ بھئی عبید اللہ اس بچپن میں میں نے ہالی وڈ کی فلم ایکٹرس ایوا گارڈنر اور مِس یونیورس کے علاوہ نورجہاں کے دستخط بھی حاصل کیے تھے تو اُن کی تصویریں بھی لگا دیتے تو کیا مضائقہ تھا۔ بہرطور الیکشن ہوئے اور عمر فاروق مودودی مجھ سے بری طرح ہار گیا۔ میرے سپورٹر جن میں افضل کالیا اور مدھوبالا سر فہرست تھے بے حد متحرک اور خاورزماں جو بعد میں آئی جی سندھ تعینات ہوا اور پھر آسٹریلیا میں ہمارا ہائی کمشنر مقرر ہوا، میرا بہت بڑا سپورٹر تھا۔ اُدھر عمر فاروق کچھ اس طرح سے ووٹ مانگتا کہ دیکھئے حضور اگر ناگوار خاطر نہ گزرے تو اس حقیر پُرتقصیر کو ووٹ عنایت کر دیجیے گا اور اگر آپ ووٹ نہ دیں گے تو واللہ آپ سے کچھ شکایت نہ ہو گی۔ اب آپ ہی بتائیے اس طرح ووٹ ملتے ہیں۔

بہرحال مودودی نے فراخ دلی سے شکست تسلیم کر لی اور مجھے مبارکباد دی۔ غالباً یہ اُس کا پہلا اور آخری الیکشن تھا۔ اگرچہ مجھے 70ء کے الیکشنوں کے دوران ایک پارٹی کی جانب سے نیشنل اسمبلی کا ٹکٹ آفر کیا گیا لیکن میں نے معذرت کر لی کہ بھئی میں تو شریف آدمی ہوں۔ ازاں بعد حلقہ ارباب ذوق لاہور کے الیکشن میں اُمیدوار ہوا اور سیکرٹری منتخب ہو گیا اور یہ میرا آخری الیکشن تھا۔ اولڈ بوائز کے ساتھ گپ شپ کے دوران عمر فاروق مودودی اور میرے درمیان الیکشن کے قصے بھی چھڑ گئے۔ مدھوبالا کہنے لگا ’’ویسے یار کچھ پتہ ہے کہ عمر فاروق ان دنوں کہاں ہے۔ اگر ہے تو۔ ‘‘ اس پر کسی نے کہا ’’شنید ہے کہ اس نے عربی میں ایم اے کیا اور کسی زمانے میں مدینہ منورہ میں پڑھاتا تھا۔ ان دنوں جانے کہاں ہے‘‘۔

اگر یہ کالم عمر فاروق مودودی کی نظر سے گزرے تو میں اس سے درخواست کروں گا کہ حضور اگر ناگوار خاطر نہ گزرے تو ہم سے رابطہ کر لیجیے، یہ حقیر پر تقصیر از حد شکر گزار ہو گا۔ آپ سے ملنے کو بہت جی چاہتا ہے یار‘‘۔

مستنصر حسین تارڑ ۔۔۔ الھڑ بچپن

عمر فاروق مودودی کی باتیں ہوئیں تو کسی نے شجاع کا قصہ چھیڑ دیا اور پھر اس کے حوالے سے اپنی یادوں کے قبرستان میں اتر گئے۔ شجاع کی زندگی بھی عجیب تھی۔ سکول کے زمانوں میں ٹخنوں سے اونچا دھاریدار پاجامہ پہنتا۔ آنکھوں میں سُرمہ لگاتا اور بُرش کی بجائے مسواک استعمال کرتا۔ نماز روزے کا بھی پابند تھا۔ ہمیشہ آنکھیں جھکا کر چلتا تاکہ کسی بے پردہ لڑکی پر نظر نہ پڑ جائے، اس کے نزدیک یہ ایک گناہ تھا بلکہ وہ اسے نظر کا زنا کہتا۔ میڈیکل کالج میں داخل ہوا تو صورت حال کچھ تسلی بخش ہو گئی۔ ڈاکٹر کے طور پرچند برس انگلینڈ میں بسر کر کے آیا تو لُٹیا ہی ڈوبی ہوئی، مکمل طور پر دہریہ ہو چکا تھا اور مذہب کی مخالفت میں جانے کیا کیا حوالے دیتا۔ پھر خبر آئی کہ شجاع مر گیا تھا پھر زندہ ہو گیا۔ اُسے دل کا دورہ پڑا اور اپنے ہی ہسپتال میں عارضی طور پر فوت ہو گیا۔ اس کے ساتھی ڈاکٹروں نے دل کو بجلی کے دھچکے دے کر پھر سے چالو کر دیا۔ شجاع کمپیوٹر پر اپنے دل کی حرکت کی ریکارڈنگ دیکھتا رہتا۔ لکیریں ابھرتی ہیں، کبڑی ہو کر یکدم ہموار ہو جاتی ہیں اور ایک عرصہ ہموار رہنے کے بعد پھر سے انگڑائی لے کر ابھرنے لگتی ہیں اور شجاع یہ سوچتا رہتا کہ جتنا عرصہ میرا دل رُکا رہا، میں مرا رہا تب میں کہاں تھا۔ یہ سوچ سوچ کر کبھی اس کا دماغ چل جاتا اور وہ ہنسنے لگتا۔ ایک عرصے کے بعد نارمل ہوا اور پھر داڑھی بڑھا کر نماز روزے کا پابند ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر باغی ہو گیا، اس دوران پھر اُسے دل کا دورہ پڑا اور اس مرتبہ اُس کا دل ہمیشہ کے لئے رُک گیا۔

کسی نے صلاح الدین شیخ کے بارے میں پوچھا۔ وہ میرا بہت قریبی دوست ہوا کرتا تھا اور اس کی زندگی کی کہانی بھی بہت حیرت بھری ہے، کبھی پھر سہی۔ میں نے انہیں بتایا کہ صلاح الدین کو مرے ہوئے بھی ایک مدت ہو چکی ہے۔

ابھی سب اولڈ بوائز چہک رہے تھے، بچوں کی طرح خوش ہو رہے تھے، بلکہ ایسا لگتا تھا کہ ہم پھر سے بچے ہو گئے ہیں، سکول سے فارغ ہو کر گول باغ میں گپیں لگا رہے ہیں اور ابھی ہم گھر چلے جائیں گے جہاں امی جان فکرمند ہو رہی ہوں گی کہ مستنصر کو بہت دیر ہو گئی ہے، ابھی تک آیا نہیں، کسی ملازم کو روانہ کر دیں گی کہ پتہ کرو، سکول جا کر معلوم کرو کہ کتنے بجے چھٹی ہوئی تھی۔ اور ہم اس سراب میں بہت دیر مبتلا رہے اور جب اس سے باہر آئے تو پھر بوڑھے ہو چکے تھے۔ ماں باپ کب کے مر چکے تھے، اب گھر میں کسی کو بھی ہمارا انتظار نہ تھا۔ وہ جو بچھڑ گئے تھے، ہمارے کلاس فیلو مر چکے تھے، ان کی یاد میں ہم پہلے تو آزردہ ہوئے اور پھر سب کے اندر موت کی آہٹ سنائی دینے لگی کہ ہم سب زندگی کے آخری برسوں میں تھے، ہم نے اپنی آخری کار خرید لی تھی، کہ اب نئے ماڈل تک کون جانے کیا ہو۔ اور کون جانے اگلی بار ہم میں سے کس نے غیرحاضر ہونا تھا، اپنے رب کے پاس حاضر ہونا تھا۔ ویسے ہم سب اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے کہ اس نے یہ زندگی عطا کی۔ اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا، اولاد سے نوازا، کبھی بھوکا نہ رکھا، رہنے کو گھر دیا، پہننے کو لباس دیا، اتنا کچھ دیا، کیا کیا نہ دیا۔ پر ہم نے اتنا شکر ادا نہ کیا جتنا ہم پر واجب تھا۔ ہم کیسے قسمت والے تھے کہ تقریباً ساٹھ برس بعد پھر سے اکٹھے ہو گئے تھے۔ اولڈ بوائز ہو گئے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تو ایسے رخصت ہوئے جیسے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments