سانحہ گزر گیا، اب لکیر پیٹئے


\"sidra\"ہر بار کی طرح اس بار بھی کوئٹہ لہو لہو ہوگیا، 69 واں یوم آزادی اب چند دن دور ہی ہے ایسے میں فضا میں وطن سے محبت کے نغمے گونج رہے ہیں ہر جانب سبز ہلالی پرچموں کی بہار یہ بتا رہی ہے کہ اس ملک کا کوئی چوراہا نہیں کوئی گلی نہیں جو وطن کی محبت سے سرشار رہنے والوں سے بھرا نہ ہو۔ ایسے میں کوئٹہ کے سول اسپتال کے باہر ہونے والا دھماکہ ملی نغموں کی گونج سے بڑا سنائی دیا۔ ستر سے زائد افراد جاں بحق کئی زخمی۔۔۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا، سوشل میڈیا پر تعزیاتی بیانات ایسے جاری ہوئے کہ کئی تو ٹرینڈز بن گئے۔ لیکن سوال اب بھی وہی کہ اب ہوگا کیا؟ وزیر اعلی بلوچستان ثناءاللہ زہری نے اسے را کی کاروائی کہا۔ پاک افواج اور حکومت کا موقف رہا کہ یہ پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ میڈیا پر بیٹھنے والوں کو شام سے رات گئے تک ایک گرم موضوع مل گیا لیکن سوال پھر وہی کہ اب ہوگا کیا؟ جب جب کہا گیا کہ ہم نے دشمن کی کمر توڑ دی ہے اسی زور سے دشمن کی جانب سے بھرپور جواب آتا ہے۔ کبھی ہم آرمی پبلک اسکول میں پڑھنے والے اپنے قوم کے مستقبل کی قربانی دیتے ہیں تو کبھی لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہنستے مسکراتے چہرے بارود سے نہلا دئیے جانے پر ماتم مناتے ہیں یہ تو صرف دو واقعات ہیں ایسے واقعات سے تو ملک کی تاریخ بھری پڑی ہے۔

آخر کب تک ہم اپنوں کے بہتے لہو سے اپنی ہی زمین کو سیراب کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہم اپنی قوم کو یہ تسلیاں دیتے رہیں گے کہ ہم نے اس ملک میں امن قائم کردیا ہے اور دشمن کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت وقت بھلے دعوے کرتی رہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ کل کے سانحے میں دشمن نے ستر سے زائد خاندانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ جن کے پیارے گزر گئے ان کے گھرانوں کا کیا ہوگا؟ جس ملک کے صوبے مین رینجرز کو اختیارات دینے پر اتنی سوچ بچار ہو کہ کہیں وسیع اختیارات دینے پر ہاتھ ہماری دستاروں پر نہ پہنچ جائیں وہاں امن کی بات مذاق سی لگتی ہے، جس شہر میں دن دیہاڑے دو فوجی جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے وہان تب سر جوڑ کر سوچا جاتا ہے کہ اب رینجرز کو اختیارات دئیے جائیں یا نہیں؟ جس شہر میں آج سے تین سال قبل اس مقام پر ایسی دہشت گردی کی گئی ہو جہاں کل تاریخ دہرائی گئی وہاں تین برس میں سیکیورٹی کے بہتر اقدامات کیوں نہیں کئیے گئے؟ اگر کچھ ہو رہا ہے تو بس اتنا کہ تعزیت کرنے کے لئے جانے والے اب بھی صرف بیانات تک محدود ہیں۔

گزشتہ دنوں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک نجی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے پاکستان کی افغانستان میں بھارتی ایجنسیوں کی موجودگی اور بلوچستان میں ان کی کاروائیوں کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ان کا دوست ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ اس معاملے میں پاکستان کی تنقید کو مناسب نہیں سمجھتے۔ افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان امن کا خواہشمند ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں پر بھی افغان صدر نے اس موضوع پر بات نہیں کی کہ سوویت یونین اور افغانستان کے مابین جنگ کے دوران پاکستان آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دینے میں پاکستان کو کن مشکلات کو سہنا پڑا اور وہ واپس اپنے ہم وطنوں کی واپسی کے لئے کتنی سنجیدگی رکھتا ہے۔ انھوں نے کہیں یہ تسلیم نہیں کیا کہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوکر کامیاب کارروائیاں کرنے کے بعد واپس اپنے ملک داخل ہوجاتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی تربیت میں بدنام زمانہ ایجنسی را ملوث ہے لیکن اس تمام بات چیت میں افغان صدر کا جھکاؤ بھارت کی طرف اور توپوں کا دہانا پاکستان کی جانب دکھائی دیا۔ حکومت کی جانب سے اس انٹرویو کا بھرپور جواب دیا جانا چائیے تھا لیکن حکومت کی اپنی کمزور خارجہ پالیسی اورنرم روئیے کے باعث اگر کسی کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو وہ ہے اس ملک کے باسی۔۔۔۔ جو ہر بار کسی منظم کارروائی میں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور جب کوئی سانحہ گزر جاتا ہے تو اسکی لکیر پیٹی جاتی ہے واقعے کے بعد زور وشور سے اجلاس طلب کئے جاتے ہیں، ایجنسیوں کو فعال کیا جاتا ہے لیکن پھر کوئی ایسی کاری ضرب لگتی ہے کہ حکومت پھر صفر پر کھڑی نظر آتی ہے۔ سانحہ کوئٹہ اگر را کی کارروائی ہے اور اس پر وزیر اعلی بلوچستان کا موقف مضبوط ہے تو حکومت اس سلسلے مین اب کیا اقدامات کرے گی؟ یہ اگر سی پیک کو سبو تاز کرنے کی سازش ہے تو فوج اور حکمران کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا یہ ملک ہمیشہ امریکہ کی ڈو مور پالیسی، تو کبھی را، تو کبھی افغانیوں کی جانب سے نفرت کی زد پر رہے گا یا کبھی ہم بھی یہ کہہ سکیں گے کہ ہاں ہم ایک پر امن ملک میں بستے ہیں جہاں جشن آزادی کا جشن مناتے وقت ہم مطمئن ہوتے ہیں کہ ہم اپنوں کے ہمراہ گھر خیریت سے لوٹیں گے۔ اے پی ایس پر حملے کے بعد دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا عمل شروع ہوا، نیشنل ایکشن پلان بھی بنا لیکن اس کے باوجود جس طرح سے ملک میں امن کا قیام ہونا چائیے تھا وہ نہ ہوسکا، خدارا اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا دشمن آپ سے زیادہ مضبوط ہے طاقتور ہے تو کم از کم عوام کو جھوٹی تسلیاں اور دعووں سے متاثر بھی نہ کریں۔ کیونکہ آپ کے دعوی، مذمتیں، بیانات اور دورے ان خاندانوں کے ان کے پیارے نہیں لوٹا سکتے جو کل ہم سے بچھڑ گئے۔

 

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments