کتبے ہی کتبے ہیں درد کے دریچے میں


\"zeeshanسانحہ کوئٹہ کو دو روز بیت گئے۔ بلوچستان پہلے بھی لہو رنگ تھا۔ ہزارہ کے معصوم شہری قتل ہوتے رہے ریاست نے کوئی خاص سرگرمی نہ دکھائی۔ اب بھی جو نظر آ رہا ہے وہ معمول کی ہل چل ہے۔ انکار کی نفسیات ہنوز قائم ہے۔ وہ لوگ جنہیں ہیئت مقتدرہ کی حمایت حاصل ہے ہنوز اندر کے دشمن کو نظریاتی و عملی مدد دے رہے ہیں۔ ریاست جوابدہی کے ڈر سے اس واقعہ کی ذمہ داری باہر کے دشمنوں پر ڈال رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حضور قومی سلامتی پر پھر اتنے خرچ کی کیا ضرورت جب آپ باہر کے دشمنوں کو بھی نہیں روک سکتے۔ قاتل جو بھی ہیں، کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ شہریوں کا تحفظ کرے۔ اگر ریاست اپنی ذمہ داری سرانجام دینے سے ہچکچا رہی ہے تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟

بلوچ شہریوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ ایک طرف سرداری نظام کا جبر ہے جو ثقافت و روایات کے نام پر ان کا استحصال کر رہا ہے۔ دوسری طرف ریاست ہے جس نے پورے صوبہ پر فاشزم نافذ کر رکھا ہے۔ تیسری طرف وہ عسکری گروہ ہیں جو مذہب کی شدت پسند سوچ کے ساتھ بلوچ شہریوں کی جان و مال کے درپے ہیں۔ اب وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ ہمارا ریاستی بیانیہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حضور حب الوطنی کسی ٹیکسٹ بک کا سبق نہیں کہ ایک بار پڑھا دیا اور انسان کا سارا ذہنی نظام حب الوطنی کے ترانہ گانے لگا۔ فرد و ریاست کے درمیان وفاداری کا رویہ تب آتا ہے جب فرد کو یقین ہو کہ ریاست اس کی مدد کے لئے ہر وقت موجود ہے۔

ہمارے دوست سوال کرتے ہیں کہ آخر یورپی ہولوکاسٹ کا نام سن کر کیوں کانپ اٹھتے ہیں؟ ہولو کاسٹ شہریوں کے قتل عام کا وہ واقعہ ہے جو ہٹلر کے فاشزم کے نتیجے میں برپا ہوا۔ اختلاف رائے کو کچل دو۔ یہودیوں کو مار دو کیوںکہ ان سے خطرناک وبائیں پھیلتی ہیں۔ یہ پورے ملک کی معیشت پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں ان سے سب دولت چھین لو۔ یہ اہل مغرب کی حساسیت ہے کہ انہوں نے ہولوکاسٹ کو ایسی اسطور بنا دیا ہے کہ آئندہ نہ دہرائی جائے۔

کیا ہمارے ملک میں شدت پسند عناصر ہولوکاسٹ نہیں برپا کئے ہوئے؟ یہ کافر، مشرک، منافق اور فاسق ہیں، انہیں مار دو۔ جمہوریت کفر ہے اور ووٹر اس کفر میں شریک، اس لئے کسی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ ستر ہزار سے زائد قتل کر دیئے گئے۔ پورے ملک کا امن و امان داؤ پر ہے۔ معیشت سست روی کا شکار رہی کیونکہ ایک غیر محفوظ ملک میں سرمایہ کا کیا کام؟ مگر ہم آج بھی انسانی جانوں کی حساسیت سے محروم ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ راہداری پر حملہ ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ نواز حکومت کو بچانے کے لئے ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اتنے سینئر وکیل ایک جگہ اکٹھے کیوں ہوئے جب انہیں معلوم تھا کہ سیکورٹی کی صورت حال خراب ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہیئت مقتدرہ سے جواب دہی کیوں طلب کرتے ہو اس سے ان کا مورال خراب ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ نہ کہو پختون مرے ہیں اس سے نسل پرستی پیدا ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے چپ ہو جاؤ باہر کے لوگ ہمارے بارے میں منفی تاثر قائم کریں گے۔ بھانت بھانت کی اس بولی میں انسانی جان کی دہائی دینے والے کم کیوں ہیں؟ ہمارا ہولوکاسٹ ہو رہا ہے مگر ہم کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ظالمو انسان مرے ہیں؟ ریاست کا گریبان کیوں نہیں پکڑ سکتے کہ اے دور جدید کی خدائی کے دعوے دار بت، تجھے شہریت کی خبر بھی ہے؟ ہم کیوں نہیں یہ صدا لگا سکتے کہ وہ ریاست جو جان و مال اور آزادیوں کا تحفظ دینے میں ناکام ہوتی ہے وہ عملی طور پر عوامی ہوتی ہی نہیں۔

صرف پانچ دن کے بعد ہم نے جشن آزادی منانا ہے۔ اہل وطن بھول گئے کہ وہ جشن کسے کہتے تھے۔ اب تو ہم سوگ مناتے ہیں۔ لاشیں ہیں اور ہمارے کندھے ہیں۔ ایک باپ اپنے بیٹے کے جنازہ میں اس کی جوان مرگ موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکا اور فوت ہو گیا۔ کہتے ہیں یہ قربانی ہے؟ حضور قربانی تو رضاکارانہ بنیادوں پر دی جاتی ہے۔ مقتول تو اپنے وکیل رہنما کی لاش وصول کرنے آئے تھے، وہ انصاف کی دہائی دے رہے تھے کہ ان کے راہنما کو آخر کیوں مار دیا گیا؟ خود کش حملہ ہوتا ہے۔ انصاف کی دہائی دینے والے قتل ہو جاتے ہیں اور آپ اس پر کہتے ہو کہ شہید ہو گئے؟ اس طرح تو حب الوطنی کے دن نہیں منائے جا سکتے حضور۔ خدا را، کرم کیجئے۔ کچھ کر نہیں سکتے تو گھر جائیے۔

دور حاضر کی بدقسمتی ہے کہ اگر کوئی شخص یا معاشرہ اپنی ریاست کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو وہ ریاست ویسے نہیں بدل سکتا جیسے ہم اگر کسی کمپنی کی آئسکریم سے غیر مطمئن ہوتے ہیں تو کسی دوسری کمپنی سے رجوع کر لیتے ہیں۔ ریاست ہی ناگزیر ہے۔ پاکستانی شہریت کے پاس اور کوئی چارا نہیں کہ اس ریاست کی ہیئت اور کارکردگی کو بدل دے اور ریاستی اداروں کو جوابدہی کے کٹہرے میں لائے۔ یہ کام بغیر حساسیت کے ممکن نہیں۔ نہ ہی شہادت کے رومانس میں یہ ممکن ہے اور نہ ہی انکار کی نفسیات مسائل کو سلجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ شہریت کے پاس اور کوئی متبادل نہیں۔ اسے سمجھدار ذمہ دار چوکس اور متحرک ہونا ہو گا ورنہ ہمارے لاشیں اٹھانے والے کندھے چار دوسرے افراد کے کندھوں پر جھول رہے ہوں گے۔

 

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments