بلوچستان میں زندہ کون ہے؟


 قیصر رونجھا

\"Roonjha2\"جوان شہزادوں کو کھونے کا غم ہمارے لئے نیا نہیں ہے۔ ہم پچھلے کئی سالوں سے اس کو جھیلتے آرہے ہیں، اب قدرے عادی بھی ہو چکے ہیں۔ پر آپ کو پتہ ہے نا \”پتھروں اور پہاڑوں \”کے درمیان رہنے کے باوجود بھی تھوڑا تھوڑا دل دھڑکتا ہے، اس لئے تو ایک ساتھ اتنے پیاروں کے کھو جانے کا تھوڑا سا غم ہے۔

پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک جوان چلا جاتا تھا تو ہم سمجھ جاتے تھے کہ بس اب لحد تیار کرنی ہے چونکہ لاش کسی بھی وقت دریافت ہو سکتی ہے (اگر قسمت اچھی رہی تو) یا تو پھر اجتماعی قبریں اس دھرتی ماں کے کسی کونے میں پہاڑوں یا دریاؤں کے درمیان میں کہیں نہ کہیں سے مل جائیں گی۔

اسس دھرتی ماں کی صورت بھی اس پاگل عورت جیسی ہوگئی ہے، جس کو اپنا بچہ کھونے کا اتنا دکھ ہوتا ہے کہ ہر گول مٹول چیز کو اپنا بچہ سمجھ کر گلے لگا لیتی ہے چومتی رہتی ہے اور پھر زار و قطار رونا شروع کر دیتی ہے پھر اپنے بکھرے ہوئے بالوں میں کو زوردار طریقے سے کھینچ کر ہنسنا شروع کر دیتی ہے۔

میں آپ کو یقین دلاتا ہوں آپ کے لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہم ایک دو دن میں سب کچھ بھول جائیں گے، اس کے بعد آپ بلاشبہ ہمیں رنگ برنگے کپڑے پہنا کر ٹی وی پر دکھانا شروع کر دیجئے گا۔

بلوچستان ہماری آن،ہماری جان، جیوے جیوے بلوچستان۔۔۔

مجھے یہ غلط فہمی رہی کہ اس خطے میں لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں، لیکن جب دوسرے لوگوں سے بات چیت ہوئی، اخبار پڑھے، پرائم ٹائم پر ٹی چینلز پر بیٹھے معزز اینکرز کو دیکھا تو یہ بات عیاں ہوتی گئی کہ اس خطے میں صرف، سمندر، پہاڑ، معدانیات، گیس، دشمن کے ایجنٹ یا بہت سارے سردار پیدا ہوتے ہیں اور آج کل ایک شاہراہ پیدا ہونے کو ہیں۔

ان سارے سالوں میں اب میرا یقین بھی پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ صحیح کہتے ہیں کہ بلوچستان میں انسان پیدا نہیں ہوتے۔ جو تھوڑے بہت پیدا ہوئے، جن کی وجہ سے زمین کی تھوڑی بہت شناخت پتھروں اور پہاڑوں سے نکل کر انسانوں کو منتقل ہوئی تھی اور زمین خوش فہمی میں تھی کہ اس کی زرخیزی نظر آنے لگی ہے۔ تو اس خوش فہمی کو بھی صاف کر دیا گیا۔ کبھی اساتذہ کو مارنے کی صورت میں، کبھی وکیلوں کے مارنے پر، کبھی ڈاکٹرز، کبھی صحافی حضرات وغیرہ۔

طلبہ اور سیاسی کارکنان تو گویا سلاد کی مثال ہی رہے۔ جسے بلوچستان کی ڈائنگ ٹیبل پر سجنے والی ہر ڈش کے ساتھ چبا چبا کر ختم کردیا گیا۔ وہ اس لئے کہ یہ بہت بولتے تھے اپنے کام سے کام نہیں رکھتے تھے، سوال کرتے تھے۔

ہماری کہانی بھی نا تھوڑی سی عجیب ہے، ہم نہ ادھر کہ ہو سکتے ہیں، نہ ادھر کہ بلکہ کہیں کے بھی نہی ہو سکتے سوائے مٹی کے۔ جن کو ہونا تھا وہ تو ہو گئے اب جو رہ گئے ہیں وہ بھی زندہ نہیں۔

تو پھر بلوچستان میں زندہ کون ہے؟

آپ کو نہیں معلوم؟ بلوچستان میں، پہاڑ، سمندر، گیس، معدنیات اور اک نئی شاہراہ زندہ ہے۔

وہ کیسے ؟

وہ ایسے کہ وہ سوال نہیں کرتے ،بولتے نہیں، پڑھتے نہیں، لکھتے نہیں، کبھی انکار نہیں کرتے بس اپنی جگہ پر رہتے ہیں اور سانس بھی نہیں لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments