ایک افغانی بھائی کے خط کے جواب میں


\"amirخدا حافظ۔ اللہ آپ کو اپنے ملک میں خوش رکھے۔ اور آباد رکھے۔ آپ ضرور دوبارہ آئیے مگر ٹورسٹ کی طرح۔ ویزہ لے کر۔ ھم بھی آئیں گے آپ کے خوبصورت ملک میں مگر ایک ٹورسٹ کے طور پر۔

باقی جو کچھ ہوا آپ کے ساتھ اس کا ہمیں افسوس ہے مگر اس میں پاکستانی قوم کا کوئ قصور نہیں ، آپ اپنے لیڈروں سے پوچھیے جو ھماری ریاست کے ہاتھوں بک گۓ اور آپ کے ملک کو بیڑہ غرق کیا۔ طالبان نے جو دہشت گردی کی وہ بھی آپ کے بھائی لوگ ہیں جو ھماری ریاست کے ہاتھوں بکے ہوے ہیں۔

2016 کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دو مختلف ملک، دو مختلف قومیں، دو مختلف زبانیں، دو مختلف کلچر ہیں۔ یہ فی الحال دو مختلف ملک ہیں۔ باقی سرحدیں ہر سو سال بعد تبدیل ہوتی ریتی ہیں۔

میرا کاکازئ کا خاندان کا پہلا فرد بھی اج سے پانچ سو سال پہلے اُس علاقے سے اس کو آج ھم افغانستان کہتے ہیں ،سے آیا تھا اور اس وقت افغانستان کا کوئی وجود نہیں تھا۔

افغانستان تو خود صرف تین سو سال پہلے1747 میں نادر شاہ درانی کے دور میں وجود میں آیا، جب پرشین اور مغل ریاستیں کمزور اور ٹوٹ گئیں۔ اس دور میں علاقہ باقاعدہ لڑائ لڑ کر حاصل کیا جاتا تھا

جہاں تک ڈیورنڈ لاین کی بات ہے۔ یہ ایک معاہدہ تھا برٹش اور افخانستان حکومت کے درمیان ۔ جو سرحدوں کو ڈیفاین کیا گیا تھا۔ یہ ایک سرحدی حد بندی تھی۔ اس کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس دور سے ماڈرن سٹیٹ کا دور شورع ہو گیا تھا۔ یہ علاقہ انگریزوں نے افغانیوں سے چھینا یا کسی معاہدے کے تحت حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ نہ ہی اس علاقے کو پٹے پر حاصل کیا گیا تھا۔ بلکہ یہ علاقہ انہوں نے سکھوں سے چھینا تھا، وہ بھی لڑ کے۔ یہ علاقہ سکھ پہلے ہی سے لے چکے تھے درانی خاندان سے۔

1947  میں اس علاقے نے باقائدہ ایک ریفرنڈم کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ اس لیے اگر کوئ معایدہ تھا بھی تو اس ریفرنڈم کے تحت کالعدم قرار پایا تھا اور ہے۔

ایک بات اور برٹش نے افغانستان اور روس یا موجودہ ترکمنستان کے بارڈر کی بھی حد بندی کی تھی۔ یہ حد بندی 1885 میں پنج دے کے سانحے کے بعد جب روس نے موجودہ افغانستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ تو آپ کو برٹش لارڈ ڈفرین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے آپ کا علاقہ بچا لیا ورنہ آپ کا یہ علاقہ اس وقت نہ ہوتا۔

اگر آپ کا پھر بھی کوئ کلیم ہے بھی تو جائیں سکھوں اور برٹش سے لڑیں یا یو این چلیں جائیں اور زیادہ اگر شوق ہے تو ھم ایک بار پھر سے ریفرینڈم کروا لیتے ہیں ۔ دا گز دا میدان۔۔۔

اخر میں پھر نیک تمناہیں آپ کے لیے اور آپ کے ملک کی ترقی کے لیے

خدا حافظ

اگر کچھ اور ثبوت افغانی بھائیوں کو چاہیے تو یہ پڑھ لیں۔

In 1950 the House of Commons of the United Kingdom held its view on the Afghan-Pakistan that It is His Majesty\’s Government\’s view that Pakistan is in international law the inheritor of the rights and duties of the old Government of India and of his Majesty\’s Government in the United Kingdom in these territories and that the Durand Line is the international frontier.

— Philip Noel-Baker, June 30, 1950

At the 1956 SEATO (Southeast Asia Treaty Organization) Ministerial Council Meeting held at Karachi, capital of Pakistan at the time, it was stated:

The members of the Council declared that their governments recognised that the sovereignty of Pakistan extends up to the Durand Line, the international boundary between Pakistan and Afghanistan, and it was consequently affirmed that the Treaty area referred to in Articles IV and VIII of the Treaty includes the area up to that Line.

— SEATO, March 8, 1956

Afghan rulers reaffirmed the treaty of durand line in the 1919, 1921, and 1930 treaties to accept the Indo-Afghan frontier.

The Afghan Government accepts the Indo–Afghan frontier accepted by the late Amir

— Article V of the August 8, 1919 Treaty of Rawalpindi

The two high contracting parties mutually accept the Indo-Afghan frontier as accepted by the Afghan Government under Article V of the Treaty concluded on August 8, 1919

— Article II of the November 22, 1921 finalising of the Treaty of Rawalpindi


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments