کون محب وطن اور کون غدار؟


\"Tassawurجنرل ضیاء الحق نے امریکی ایما پر پاکستان کے قبائلی علاقوں کے مدارس سے مجاہدین بھرتی کر کے انہیں ڈالر جہاد کے لئے افغانستان بھجوا دیا اور افغانستان کا قلعہ سی آئی اے کی مدد سے ہم نے فتح کر کے وہاں \”اچھے اور محب وطن مجاہدین\” کی حکومت قائم کر لی، اور افغانستان غیر اعلانیہ طور پر ہمارا پانچواں صوبہ بن گیا۔ پھر اچانک عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا۔ 9/11 کے بعد امریکہ بہادر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ایک مرتبہ پھر انہیں اپنے فرنٹ لائن اتحادی مسلم ملک کی ضرورت پڑ گئی، مگر اس بار انہیں لبرل جنرل پرویز مشرف مل گئے۔ انہوں نے بھی امریکہ بہادر کے ساتھ عہد وفا نبھائے رکھنے ہی کا فیصلہ کیا اور قوم کو پیغام دیا کہ اگر ہم نے اس جنگ میں ایک مرتبہ پھر امریکہ بہادر کا ساتھ نہ دیا تو ہم واپس پتھر کے دور میں پہنچا دئے جائیں گے۔ پھر کیا ہونا تھا۔ وہی اچھے طالبان مجاہد جن کو ہمارے ہی ریاستی اداروں نے سی آئے اے کے ساتھ مل کر تربیت دی اور ان کی سرپرستی کی جاتی رہی، انہی کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا گیا اور افغانستان سے بالآخر ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

اسی دوران ان اچھے طالبان نے اپنے ساتھ ہونے والے اس برے برتاؤ اور استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینکنے والی پالیسی کا بدلہ لینے کی ٹھان لی مگر انہوں نے بدلہ بھی لیا تو کس سے۔ غربت، پسماندگی، بے روزگاری، اور دیگر سماجی مسائل میں گھرے مظلوم پاکستانی عوام سے اور جو کچھ پاکستانی عوام نے ان پالیسیوں کے بیک فائر کے طور پر گزشتہ دو دہائیوں میں سہا اور اب تک سہہ رہے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

بحیثیت پاکستانی ہم یہ سوال پوچھنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی سر زمین پر آج تک جس سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیت نے بھی ریاست اور سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کی ان دہری پالیسیوں پر تنقید کی اور انہی پالیسیوں کو ملکی حالات کا ذمہ دار قرار دیا ان کو ایک مخصوص لابی کے ذریعے غدار کے لقب سے نوازا جاتا رہا ہے اور ان کا میڈیا ٹرائل کروایا جاتا رہا ہے مگر ہمیں سمجھایا جائے کہ: کیا جنرل ریٹائرڈ حمید گل جو اپنی موت تک کھل کر ہزاروں پاکستانی عوام جن میں افواج پاکستان کے سپاہی اور آفیسرز بھی شامل ہیں کے قاتل طالبان راہنماؤں، ملا عمر، حکیم اللہ محسود وغیرہ کی حمایت اور ان کو اپنا ہیرو کہتے رہے وہ غدار ہیں یا محب وطن؟

نام نہاد فرزند پاکستان شیخ رشید احمد جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات کے دوران راولپنڈی میں منعقد ہونے والے ایک عوامی اجتماع میں کھلم کھلا \”ملاعمر\” کو امیرالمومنین کا لقب دیا اور ان سے عمران خان کے استقبال کا حکم جاری کرنے کی اپیل کی کیا وہ غدار ہین یا محب وطن؟

ریاست طالبان کی مخالف ہیں یا حامی۔۔ ؟ اچھے طالبان اگر واقعی میں ہمارے تزویراتی اثاثے ہیں اور کشمیری مجاہدین کی طرح ہماری نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے حقیقی اور گمنام سپاہی ہیں تو پھر ہمیں کھل کر یہ بیانیہ اپنانا چاہئے تاکہ غدار اور محب وطن کی تفریق کرنے میں پاکستانی عوام کو آسانی ہوجائے اور عالمی سطح پر بھی کبھی اسامہ بن لادن کی برآمدگی تو کبھی ملا اختر منصور سمیت دیگر طالبان رہنماؤں کی ہماری سرحدی حدود میں ڈرون حملوں میں ہلاکت سے ہماری بین الاقوامی سطح پر جگ ہسائی نہ ہو سکے اور ہم بین الاقوامی فورمز پر اپنے موقف اور پالیسی کا بھر پور دفاع بھی کر سکیں؟

اگر جواب نفی میں ہے توسول ملٹری ورکنگ ریلیشن شپ کو مضبوط کرنا ہوگا، آئین و قانون سے ماروا کوئی اقدام نہیں آٹھایا جائے، سویلین حکومتوں کو بائی پاس کرکے کوئی قومی فیصلے نہ کئے جائیں، پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کی بالادستی کھلے دل سے قبول کی جائے، خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے نئے خطوط پر استوار کیا جائے، نیشنل ایکشن پلان اور دیگر تمام خصوصی قوانین سیاسی مخالفین اور اپنے جائز حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے محروم و محکوم عوام کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو طالبان اور ان کے حامیان کے بارے میں نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ ان کو اپنا ہیرو اور مختلف طالبان رہنماوں کی ہلاکت پر ملک بھر میں غائبانہ نماز جنازے پڑھے جاتے ہیں۔ وگرنہ جتنے بھی آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان سمیت دیگر قوانین بنا لئے جائیں۔۔ ملکی حالات قطعاً تبدیل نہیں ہوں گے اور نہ ہی بین الاقوامی برادری میں ہم اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments