یہ آنسو کون پونچھے گا ؟


\"edit\"بلوچستان پھر لہولہان ہے۔ ہر پاکستانی کا دل اس سانحہ پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کوئٹہ کے سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے دروازے پر ہونے والے دھماکے کی گونج خیبر سے لے کر بلوچستان کے پہاڑوں تک سنی گئی ہے۔ وہ لاشے جو آج اسپتال کے دالان پر بکھرے پڑے تھے، اس قوم اور اس کے رہنماؤں سے پوچھ رہے تھے کہ انہیں کس بات کی سزا دی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دشمن کی سازش ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مرحوم دوست کو لے کر جب وکیلوں کی بڑی تعداد اعزہ اور صحافیوں کے ہمراہ اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہو رہی تھی تو سکیورٹی پر مامور عملہ کو ہر شخص کی مکمل پڑتال کرنے کا حوصلہ نہ ہوا ہو۔ کون سنگدل ہے جو لاش کو کندھے پر اٹھانے والوں کی تلاشی لے گا اور پوچھے گا کہ وہ انتظار کریں اور قاعدے کی کارروائی پوری ہونے دیں۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ یہ سانحہ سکیورٹی کی غفلت کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس بات کو درست مان کر اگر ملک بھر کے اسپتالوں ، اسکولوں اور دیگر اداروں میں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ سکیورٹی کے نام پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں ، نشاندہی کرنے والے دروازے یا چند محافظ، شریف آدمیوں کے سوا کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ مرنے اور مارنے کا تہیہ کئے ہوئے کسی خودکش حملہ آور کا راستہ روک سکتے ہیں۔

اب قوم کو اس وضاحت سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ سکیورٹی کے نام پر بنائے گئے حصار ، اونچی کی گئیں دیواریں ، خاردار تاریں یا محافظوں کی تعداد کسی دہشتگرد کا راستہ روک سکتی ہیں۔ اگر بلوچستان کے وزیر داخلہ سانحہ کے تھوڑی دیر بعد سکیورٹی کی کمزوری کو نشاندہی کر کے اسپتال میں اس مقصد سے مامور عملہ کےخلاف کارروائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تو اس سے بڑی بزدلی اور غیر ذمہ داری کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس سانحہ کو یقیناً سکیورٹی کی کمزوری مانا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری وزیر داخلہ ، حکومت وقت ، سکیورٹی فورسز ، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان تمام لیڈروں کو قبول کرنا پڑے گی جو ہر سانحہ کے بعد مذمتی بیان جاری کرتے ہیں، ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر آئندہ کسی ایسے ہی سانحہ کی صورت میں انہیں دوبارہ جاری کرنے کےلئے کسی دفتری دراز میں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔

کوئٹہ میں ہونے والا حملہ، جس میں اب تک 70 افراد جان ہار چکے ہیں اور متعدد زخمی ہیں، ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ اس ملک و قوم کے محافظ کمزور ہیں۔ وہ ظالم دہشتگردوں کا راستہ روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس سانحہ کی ذمہ داری انٹیلی جنس ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے جنہیں لوگوں کے مرنے کے بعد نہیں بلکہ ان کے مرنے سے پہلے معلومات اکٹھی کر کے اس حملہ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ دہشتگردی کی جس صورتحال سے اہل پاکستان گزر رہے ہیں، اس میں اکا دکا واقعات کا رونما ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن کوئی دہشتگرد کسی میت کے ساتھ چلنے والے ہجوم میں ان کا دوست اور غم خوار بن کر شامل ہو جائے اور خود کو دھماکے سے اڑا کر درجنوں لوگوں کی جان لے لے ۔۔۔۔۔ اور اس قسم کے ڈھونگی کی قبل از وقت شناخت نہ ہو سکے اور اس کی نشاندہی نہ کی جا سکے۔ یہ اصل ناکامی ہے۔ اس کمزوری کو دور کرنے کےلئے سرفراز بگٹی کو سانحہ کی تحقیقات کرنے اور سکیورٹی کا خیال نہ رکھنے والوں کا سراغ لگانے کی کوشش کرنے کی بجائے ، خود یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے کہ وہ وزارت داخلہ کے سربراہ ہونے کے باوجود لوگوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہے۔

ابھی اس سانحہ کی خبر پورے ملک میں پہنچی بھی نہیں تھی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے اعلان کیا کہ یہ حملہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کروایا ہے۔ اب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس بارے میں شواہد موجود ہیں اور وہ وزیراعظم کو یہ ثبوت فراہم کریں گے۔ ان کی باتوں سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر یقین تھا کہ دشمن ملک کے ایجنٹ صوبے میں کوئی کارروائی کرنے والے ہیں۔ تو وہ یہ معلومات متعلقہ اداروں کو فراہم کرنے، فوری طور پر اس ممکنہ حملہ کو روکنے کےلئے اقدام کرنے اور قبل از وقت وزیراعظم کو اعتماد میں لینے میں کیوں ناکام رہے؟ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے شواہد سامنے آتے رہے ہیں۔ مارچ میں کلبھوشن یادیو یہیں سے گرفتار ہوا تھا اور اس کے بعد جو معلومات سامنے آئی تھیں، ان سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت بلوچستان کو پاکستان کی کمزوری سمجھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں اپنی ہزیمت کا انتقام لینے کےلئے یہاں پر وار کرنے سے نہیں چوکے گا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بھارت اپنے ملک میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے سانحہ کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر کے دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس علاقے میں مسئلہ کی اصل جڑ پاکستان ہے۔ لیکن جس وقت ہمارے اپنوں کی لاشیں اٹھائی جا رہی ہوں، زخمیوں کےلئے علاج اور خون کی ضرورت ہو۔ دکھی دلوں کو ڈھارس اور زخمیوں پر مرہم رکھنے کا وقت ہو ۔۔۔۔۔۔۔ عین اس وقت دشمن سے حساب برابر کرنے کےلئے پروپیگنڈا کا سہارا لینا کسی بھی لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ اگر ایسے شواہد موجود بھی تھے اور ثناء اللہ زہری ان کی بنیاد پر یقین رکھتے تھے کہ اس دہشتگردی میں ’’را‘‘ ملوث ہے تو بھی انہیں اس خبر کا اعلان کر کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کی بجائے ان معلومات کا جائزہ لینے ، متعلقہ اداروں کے تعاون سے ذمہ داروں کا سراغ لگانا چاہئے تھا۔ اور مرنے والوں کو دفنانے سے پہلے اپنے آرام دہ دفتر سے ایسے اعلان کرنے سے گریز کی ضرورت تھی۔ یوں بھی پاکستان میں ہونے والی ہر تخریب کاری کی ذمہ داری بھارت پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہم یہ رویہ اختیار کریں گے تو دنیا میں رہا سہا اعتبار بھی کھو دیں گے۔

بلوچستان ایک اہم صوبہ ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے قدرتی وسائل بے بہا ہیں اور ملک کی تقدیر بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ گوادر منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کےلئے کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی حکومت ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خواہش رکھتی ہے۔ دشمن ان منصوبوں کو خاک میں ملا کر پاکستان کو اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اپنے عزائم کو پورا کرنے اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کےلئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا اہم ہے۔ شبہات اور بداعتمادی کی فضا کو ختم کرنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ غنیمت ہے کہ آج کوئٹہ میں حملہ کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف فوری طور سے اہل بلوچستان کا غم بانٹنے کے لئے کوئٹہ پہنچے ہیں۔ انہوں نے زخمیوں کی عیادت کی ہے۔ سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا ہے اور اس بھیانک کارروائی میں ملوث عناصر کا سراغ لگانے کا عہد کیا ہے۔

یہ سارے کام بھی بہت ضروری ہیں۔ ان کی تحسین کی جانی چاہئے۔ لیکن مرنے پر پرسہ دینا ہی اصل کام نہیں، زندگی کا پیغام عام کرنا بھی اہم ہے۔ بلوچستان کے عوام کو وفاق سے بہت سے گلے شکوے ہیں۔ کچھ لوگ سیاسی بیانات کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ زیادہ ناراض لوگ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دشمن انہیں اکسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس تخریبی وار سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو سینے سے لگایا جائے۔ انہیں مسترد کرنے اور باغی اور غدار قرار دینے کے رویے مسترد کئے جائیں۔ سکیورٹی فورسز کے ان ہتھکنڈوں کو ترک کیا جائے جو کسی عدالت کے کٹہرے میں قانون کی کسوٹی پر پرکھے نہیں جا سکتے۔ مختصراً یہ کہ جھوٹ بولنا بند کیا جائے۔ اپنی بات سنانا بھی ضروری ہے لیکن پہلے ان کی بات تو سن لیں جنہیں گلہ ہے کہ چھ دہائیوں سے کوئی ان کا موقف جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ آواز بلند کی جاتی ہے تو خفیہ ہاتھ اور بے نام چہرے جوان گبھروؤں کو گلی محلوں اور گھروں سے اٹھا لیتے ہیں۔ اس طرح بات سمجھانے کا طریقہ ناکام ہو چکا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری ملک کے مستقبل اور معاشی ترقی کےلئے بے حد ضروری ہے۔ اس سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں آئے گی۔ روزگار دستیاب ہو گا۔ وسائل کی فراوانی ہو گی۔ مواصلت اور تجارت بڑھے گی۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ رابطے اور تعلق میں بہتری آئے گی۔ یہ بات صرف اسلام آباد کے ایوانوں سے حکمرانی کرنے والے ہی نہیں جانتے بلکہ عام لوگ بھی اس کا ادراک رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو بھی اس کا علم اور احساس ہے۔ لیکن ان کا مقدمہ سادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمیں فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان کے وسائل سے بے شک ملک کی تقدیر بدلیں لیکن اس بدنصیب صوبے میں آباد لوگوں کو بھی اس میں ان کا حصہ ملنا چاہئے۔ یہ معاملہ طے کئے بغیر اگر آپ ترقیاتی منصوبے بنا کر انہیں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے اور اعلان ہو گا کہ گوادر اس خطے کا سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر بن جائے گا تو پانی ، بجلی ، روزگار اور سر چھپانے کےلئے چھت سے محروم عام محنت کش کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔ وہ اس پر اعتبار نہیں کرے گا۔ وہ سوچے گا کہ آپ اس کی دھرتی کے سینے میں چھپے وسائل کو ہتھیانے کےلئے یہ نوٹنکی کر رہے ہیں۔

دشمن کا راستہ روکنے، ترقی کا راستہ ہموار کرنے، پاک چین اقتصادی راہداری کا خواب پورا کرنے اور گوادر کو عروس البلاد بنانے سے پہلے لمحہ بھر کو اس دکھ کی داستان تو سن لیں جو بلوچستان کے لوگوں اور باقی ماندہ پاکستان کے درمیان حائل خلیج کی کہانی ہے۔ اب بھی وقت ہے۔ بلوچستان کے دکھوں کا مداوا سیاسی جوڑ توڑ کی بجائے حقیقی سیاسی، معاشی اور انتظامی حقوق دینے ہی سے ہو سکتا ہے۔ تب ہی ان ہاتھوں کو قلم کیا جا سکے گا جو خون بہانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تب ہی اسپتالوں سے لاشیں نہیں اٹھیں گی بلکہ انسان صحتیاب ہو کر گھروں کو جائیں گے۔ آج کا سانحہ ایک تکلیف دہ رشتہ کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا سکتا ہے۔ اس تعلق کو اعتماد ، دوستی اور بھروسے میں بدلنے کے لئے یہ ماننا ہو گا کہ اپنے حق کی بات کرنے والے دراصل سب مظلوموں اور محروموں کے حق کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments