ثقافت کے نام پر جہالت


\"Afshan\”رہے گا تو میراثی کی اولاد ہی۔ کنجر ہی کہلوائیں گے۔ \”
یہ جواب تھا ایک گروپ ایڈمن کی جانب سے جب میں نے فقط اتنا کہا کہ لوک گلوکار شوکت علی کا بیٹا ایچی سن کا ہونہار طالبعلم رہا ہے اور اپنے والد کے فن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ خوشی مجھے یہ تھی کہ ہمارا لوک ورثہ اگلی نسل کو منتقل ہو رہا ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کامیاب ہے لہٰذا فن کو نئی جلا بخشیں گے۔ ردِعمل مایوس کُن تھا، حیران کُن نہیں۔ وجہ آگے چل کر بیان کرتی ہوں پہلے یہ بتاتی چلوں کہ یہ ایڈمن صاحب موسیقی کی ہر محفل اور کانسرٹس کے پاسز حاصل کرنے کو دنیا جہان کی سفارشیں لگوا لیتے ہیں۔ پلٹ کر سوال کرنے کی ہمت نہ تھی کہ بھیا میراثیوں کو سننے والے کیا کہلوائیں گے؟ کیونکہ جواب آتا \”فن کے قدردان۔۔۔ \”
یہ صرف فنِ موسیقی سے منسلک افراد کا دُکھ نہیں، حیرانی مجھے اس لیے نہیں ہوتی کہ ایسا سلسلہ کافی عرصے سے چل نکلا ہے، بلکہ متوسط طبقے کو منظم طریقے سے احساس دِلوایا جاتا ہے کہ وہ کِس قدر غلیظ بلکہ نالی کے کیڑے ہیں۔ کلرک، لوہار، موچی، کمہار، جولاہا، چپڑاسی، لائن مین، ترکھان اور ایسے کتنے ہی پیشے ہیں جو اب بطور طعنہ اور گالی استعمال ہونے لگے ہیں۔ ہنرمندی کو شرمندگی کا باعث بنا دیا گیا ہے۔ فیشن چل نکلا ہے کہ اجداد کی مہارت اور فن سے منسلک رہنے والے کتنی ہی ترقی کر جائیں انہیں \”اوقات\” یاد کرواتے رہنا چاہیے۔ نیوز چینلز کے پرائم ٹائم میں عوام کی نباضی کے دعویدار کِس حقارت آمیز لہجے میں کسی کو \”کباب لگانے والا، دہی بھلے بیچنے والا، منشی\” اور ایسے ہی القابات سے یوں نوازتے ہیں کہ مانو ان پیشوں سے رزق روزی کمانے والے بردہ فروشی میں ملوث ہیں۔ جمعدار اور لفظ چُوڑا کو جِس طرح سے نتھی کرنے کا رواج ڈال دیا گیا ہے وہ ایک محنتی طبقے کے ذہنی و سماجی استحصال کا موجب بن رہا ہے اس کا نتیجہ مثبت تو نکلنے والا ہے نہیں۔ لیکن فکر مندی کی بات نہیں کیونکہ نام نہاد شرفا کو اسی طبقے کے پرمٹ سے \”فیضیاب\” ہونے کی راہ ہمیشہ کھلی ملتی ہے۔

ایک شے ہوا کرتی ہے پیشے کا ایمان۔ کبھی بچپن میں سنی تھی یہ اصطلاح لیکن اب ان باتوں کو سکھلانے والے بھی نہیں ہیں اور ماننے والوں کا بھی قحط پڑا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی خوشیوں کو چار چاند لگانے اور مسکراہٹیں بانٹنے واسطے جِن فنکاروں کو بلوایا جاتا ہے، آپسی رنجش میں اسی پیشے کو بطور گالی \”فلاں تو شکل عقل سے ہے ہی بھانڈ\” استعمال کر لیا جاتا ہے۔ زیادہ بحث کی صورت میں تاویل جو آتی ہے وہ خاصی مضحکہ خیز ہے۔۔۔ یہ ہماری ثقافت نہیں۔

ثقافت کی بھی خوب کہی۔ جس برصغیر پر گورے کی حکمرانی کے مظالم گنواتے منہ نہیں سوکھتا وہاں کی ثقافت کیسے صدیوں میں بنی اور پروان چڑھی اس بارے یہ تمام ناصح بالکل خاموش ہیں۔ انہوں نے مذہب اور علاقائی معاشرتی و ماحولیاتی ضروریات کے مطابق بود و باش کو مترادف یا متضاد کر کے کوئی خدمت تو سر انجام نہیں دی ہاں آپ کارنامہ گردانتے رہیں تو اور بات ہے۔ کسی بھی مذہب کی تاریخ اور ایک خطے میں زمانوں تک مل جُل کر رہنے والوں کی تاریخ۔۔۔ فرق ہے، جِس کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ Identity Crisis یعنی شناختی بحران دماغوں اور انفرادی و اجتماعی شخصیت پر حاوی ہو گیا ہے۔ اپنی معاشرتی برائیوں کو پلکوں سے چُن کر سینے سے لگا رکھا ہے جبکہ اچھی باتوں کو مذہب سے جوڑ کر پتلی گلی سے نکل لیے۔ تہواروں، رسومات اور میلے ٹھیلوں کو فرزندانِ دین مشرف بہ اسلام کرنے میں سُستی دکھا گئے لہٰذا ایک ایک کر کے معاشرے میں مسکراہٹوں کے تبادلوں والے تمام مواقع خلیج گہری کرنے کے لیے بدستور سسک کر مرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
عام فہم میں زبان، لباس، ادب، موسیقی، غذا اور تہوار سے مِل کر معاشرتی و سماجی معاملات کا جو رنگ نکلتا ہے اسے ثقافت کہتے ہیں۔ زندہ اقوام اپنی تہذیب و تمدن کو سینے سے لگائے فخر کیا کرتی ہیں لیکن ہمارے حصے وہ ضیائی مولوی نسل آئی ہے جِس کے مطابق عربوں کی روایات اور معاشرتی بود وباش شُدھ اسلامی ہے جب کہ برصغیر کی اپنی ثقافت گئی بھاڑ میں۔ علاقائی اور اسلامی معاملات کو کوٹ پیس کر جانے کون سا چورن بنا چھوڑا ہے۔ یہ محنت مزدوری قابلِ کراہت، وہ کاروبار باعزت، فلاں ذات اعلیٰ و ارفع اور باقی سب ارزاں مخلوق۔ ذہنی ارتقا کے نام پر نادیدہ لوہے کے کڑے چڑھا دیے گئے ہیں افراد کی سوچ پر جہاں بہن کو قتل کردینا غیرت کا معیار بن گیا ہے اور بیٹی یا بیوی کا معاشی مضبوطی کے لیے کام کاج کرنا بے غیرت ہونے کی علامت بن گیا ہے۔

متوسط طبقے کو ہر لحاظ سے تنہا کر دینے کا رجحان اگلی نسلوں میں احساسِ کمتری کے علاوہ متذلل خود اعتمادی کی وجہ بن رہا ہے لیکن جناب یاد رہے \”یہ ہماری ثقافت ہے۔ \”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments