اسے ایک طرف رکھ دو، میرا سر ہے یہ


\"naveedیہ خون دیکھو جو بہہ رہا ہے
یہ جن رگوں سے نکل رہا ہے
وہ ایک بیٹے یا باپ کی ہیں
یا ایک بیٹی جو مرگئی ہے
یا ایک ماں ہے
جو ٹکڑے ٹکڑے بکھر گئی ہے

جو ایک بازو وہاں پڑا ہے
کسی جواں کی تمام قوت
اس ایک بازو میں کٹ گئی ہے
کسی ہنر کی تمام رفعت
اس ایک بازو سے گھٹ گئی ہے
وہ ایک بازو نجانے کتنے مہیں پرندوں کے آشیاں کا
حصار ہو گا
کسی کی آہوں کا سسکیوں کا
کسی کے غم کا قرار ہو گا

وہ سر پڑا ہے
نجانے کس بدنصیب کا ہے
مگر شناسا سا لگ رہا ہے
کوئی بتاﺅ
کیا میرے کندھوں پہ سر بچا ہے
یوں لگ رہا ہے وہ سر مرا ہے
لہو میں لتھڑا ، سیاہ ہوتا
وہ سر مرا ہے

یہ میرا ماتھا
جو میری ماں کے شفیق بوسوں سے
چاند سا تھا
سیاہ پڑا ہے

یہ میری آنکھیں ہیں
ادھ کھلی سی اندھیر آنکھیں
یہ دیکھتی تھیں جو خواب منظر
وہ خواب سارے لہو کی صورت
فنا کی صورت
ٹھہر گئے ہیں
یا مر گئے ہیں

عجیب شکوہ ہے آسماں سے
جو میرے ہونٹوں پہ جم گیا ہے
کہ مرتے لمحے مری زباں نے
لہو بھی چکھا تو اپنا چکھا

جو دور سب سے الگ پڑا ہے
وہ سر مرا ہے

جو ایک بم سے مٹا گیا ہے
زیاں کا کتبہ سجا گیا ہے
مرا جنازہ ہے نہ کفن ہے
نہ میرا لاشہ کہیں دفن ہے
جو ایک بم سے مٹا گیا ہے
زیاں کا کتبہ سجا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments