اسے ایک طرف رکھ دو، میرا سر ہے یہ
یہ خون دیکھو جو بہہ رہا ہے
یہ جن رگوں سے نکل رہا ہے
وہ ایک بیٹے یا باپ کی ہیں
یا ایک بیٹی جو مرگئی ہے
یا ایک ماں ہے
جو ٹکڑے ٹکڑے بکھر گئی ہے
جو ایک بازو وہاں پڑا ہے
کسی جواں کی تمام قوت
اس ایک بازو میں کٹ گئی ہے
کسی ہنر کی تمام رفعت
اس ایک بازو سے گھٹ گئی ہے
وہ ایک بازو نجانے کتنے مہیں پرندوں کے آشیاں کا
حصار ہو گا
کسی کی آہوں کا سسکیوں کا
کسی کے غم کا قرار ہو گا
وہ سر پڑا ہے
نجانے کس بدنصیب کا ہے
مگر شناسا سا لگ رہا ہے
کوئی بتاﺅ
کیا میرے کندھوں پہ سر بچا ہے
یوں لگ رہا ہے وہ سر مرا ہے
لہو میں لتھڑا ، سیاہ ہوتا
وہ سر مرا ہے
یہ میرا ماتھا
جو میری ماں کے شفیق بوسوں سے
چاند سا تھا
سیاہ پڑا ہے
یہ میری آنکھیں ہیں
ادھ کھلی سی اندھیر آنکھیں
یہ دیکھتی تھیں جو خواب منظر
وہ خواب سارے لہو کی صورت
فنا کی صورت
ٹھہر گئے ہیں
یا مر گئے ہیں
عجیب شکوہ ہے آسماں سے
جو میرے ہونٹوں پہ جم گیا ہے
کہ مرتے لمحے مری زباں نے
لہو بھی چکھا تو اپنا چکھا
جو دور سب سے الگ پڑا ہے
وہ سر مرا ہے
جو ایک بم سے مٹا گیا ہے
زیاں کا کتبہ سجا گیا ہے
مرا جنازہ ہے نہ کفن ہے
نہ میرا لاشہ کہیں دفن ہے
جو ایک بم سے مٹا گیا ہے
زیاں کا کتبہ سجا گیا ہے
- اسے ایک طرف رکھ دو، میرا سر ہے یہ - 10/08/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).