ترک صدر کا دورہ روس اور پاکستان


\"Nadeemترکی کی خارجہ پالیسی اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات پر مبنی تھی سب ہمسائے اس کے دوست تھے ہمارا جذبہ ایمان جس ملک کا نام  سنکرحرکت میں آ جاتا ہے ترکی کے اس اسرئیل نامی ملک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے ایران،عراق بالخصوص شام اورروس کے ساتھ تو مثالی تعلقات تھے اسی پر امن بقائے باہمی کے اصول نے ترک معیشت کو نئی پہچان دی اور  ترکی کی تیز رفتار ترقی ایک مثال بن گئی

ایسے میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا ہر نو دولتیا کوئی نہ کوئی بڑی غلطی کرتا ہے ترکی نے دوسرے ملکوں میں مداخلت کا ایک سلسلہ شروع کر دیا شام میں اسد کی حکومت کو گرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا دنیا بھر سے اہل جہاد براستہ ترکی ہی شام پہنچے اسی طرح ترکی اور شام میں نہ صرف تعلقات ختم ہو گئے بلکہ دونوں ایک دوسرے کو دشمن ملک سمجھنے لگے شام سے مہاجرین کی بہت بڑی تعداد بھی ترکی میں پناہ گزیں ہو گئی شام سے تعلقات بگڑنے سے ایک تو ترکی شام کی ایک بڑی مارکیٹ سے محروم ہو گیا دوسرا مہاجرین کا سیلاب آ گیا تیسرا شام میں مداخلت کا عملی ردعمل بھی سامنے آیا

عراق میں داعش کی صورت میں جو انسان دشمن گروہ سامنے آیا اور اس نے پورے عراق میں جس طرح تباہی مچائی اور پھر اس کے نظریاتی وابستگان نے جس طرح پوری دنیا کے امن کو تباہ کیا ہوا ہے یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ ترکی نے بڑی مقدار میں سستا تیل داعش سے خریدا جس سے داعش اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوئی یوں عراق اور ترکی کے تعلقات بھی بگڑ گئے اس حمایت کے نتیجے میں داعش کا اثر رسوخ یقینا بڑھا

روس اور ترکی کے مفادات میں شام میں ایک ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی آغاز میں یہ فقط بیانات کی حد تک تھی جب روس نے شام میں براہ راست مداخلت کی تو ترکی کے بہت سے مفادات کو شدید زک پہنچی اس لیے یہ زبانی کلامی سے عملی دشمنی میں تبدیل ہوئی اور سب سے خطرناک وقت وہ تھا جس میں ترکی نے روس کا طیارہ مار گرایا اور جوابا روس نے ترکی سے تمام تعلقات منقطع کر لیے  یہاں تک کہ اپنے شہریوں کے ترکی جانے پر بھی پابندی لگا دی   اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی تجارتی پابندیاں بھی لگا دیں روس سے دشمنی میں ایک طرف تو معاشی نقصان ہوا دوسرا بہر حال روس  خطے کا ایک طاقت ور کھلاڑی ہے اس سے دشمنی دفاعی لحاظ سے بھی خطرناک تھی اور ایسی صورت میں تو حالات اور بدتر تھے جب روسی افواج شام میں موجود تھیں اور اس واقعہ کے بعد نیٹو فورسز اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ترکی کو مایوس کیا اس ساری صورت حال کا ترکی کو خود مقابلہ کرنا پڑا ۔

اس کے ساتھ ساتھ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی غزہ اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر محدود کر دیا اور ایک طرح کی سرد مہری آ گئی اس کا نقصان معاشی اور دفاعی دونوں اعتبار سے ہوا کیونکہ کہا جاتا ہے ترکی کی افواج اسرائیل سے اسلحہ خریدتی ہیں۔

شام کے مسئلے پر ایران کے ساتھ عدم اعتماد کی فضا کا قائم ہونا اور باہمی مفادات کے ٹکراؤ کی صورت حال کا پیدا ہو جانا جس ترکی کے اس بارڈ پر بھی خطرات کے بادل منڈلانے لگے ۔ مصر میں اخوان کی حکومت کے خاتمے  اور سیسی کی حکومت کے قیام سے ترکی اور مصر میں باہمی اختلافات کا آجانا اور سیسی کو کئی ارب ڈالر دینے کی وجہ سے سعودی عرب  اور ترکی کے تعلقات میں گرم جوشی نہیں رہی ۔

یہ تمام حالات جاری تھے کہ ترکی میں ایک فوجی بغاوت ہوتی ہے جسے ناکام بنا دیا جاتا ہے اور اس بغاوت کے بعد ترکی  میں بغاوت میں ملوث لوگوں کی گرفتاریوں اور آرمی میں چھانٹیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اس پر یورپی یونین اور امریکہ ترکی کے مدمقابل آ جاتے ہیں ۔

اب ان تمام واقعات کو باہم ملا کر دیکھیں شام سے منقطع تعلقات، عملی طور پر جنگی صورت حال کا سامنا، مستقبل میں ایک دشمن ملک سرحد کے ساتھ آ گیا، عراقی عوام اور حکومت کا ترکی کو ایک دشمن ملک کے طور پر دیکھنا اور میڈیا پر کھل کر ترکی کی مخالفت کرنا،داعش کا ترکی کی سرحد پر اور ترکی کے اندر باقاعدہ حملے کرنا، یورپ کا کردوں کو بڑی تعداد میں اسلحہ دینا اور جس سے ان کا طاقتور ہو کر ترکی کو چیلنج کرنا روس  اور ایران سمیت اس کے اتحادیوں کا مدمقابل آ جانا مہاجرین کا ترکی کی معیشت پر ایک بوجھ بن جانا مصر کے مسئلہ پر ترکی اور سعودی تعلقات میں دراڑیں پڑ جانا اور اسی طرح مصر کا ایک قریبی دوست سے ایک مخالف ملک میں تبدیل ہو جاتا کہاں مرسی کا مصر  اور کہاں سیسی کا مصر؟ اسرائیل سے تعلقات کی خرابی کی صورت میں امریکی سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو جانا اور سب سے آخر میں بغاوت کے بعد مغرب اور امریکہ کا منہ پھیر لینا ۔

ترک قیادت کو اس کا احساس ہونا شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت سے کچھ پہلے ہی کچھ ایسے اقدامات کرنے شروع کر دیے جن سے ترکی کی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے ملنے لگے تھے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بحال کر لیا روس سے طیارے کے گرانے پر معافی مانگ لی  اور عراق  کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا شروع کر دیا  اور اب ترکی داعش کے خلاف باقاعدہ عراقی حکومت کی مدد کر کے اپنا اعتماد بحال کر نے کی کوشش کر رہا ہے  اسی طرح ترکی نے شام کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے کہ بشار الاسد کا جانا اتنا آسان کام نہیں ہے  اور ترک صدر کا دورہ روس پالیسی شفٹ ہے یہ بات تو آنے والا وقت بتائے گا مگر لگتا یوں ہے کہ ترکی بشار الاسد کے ساتھ علانیہ نہیں تو کوئی خفیہ معاہدہ ضرور کر لے گا جس کے نتیجہ میں اس کے تعلقات شام سے بہتر ہو جائیں گے  ترکی جس سفارتی تنہائی کا شکار ہو گیا تھا وہ اس سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے  اور اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات اور عدم مداخلت کو دوبارہ  بطور پالیسی اپنا رہا ہے

یہ ساری صورت حال اور ترکی کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے اگر ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آج فیصلہ کر لیں کہ کچھ بھی ہو جائے ہم نے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات بنانے ہیں عدم مداخلت کو بطور پالیسی اختیار کرنا ہے تو ہمارے حالات بھی بہتر ہو سکتے ہیں ایک اٹل حقیقت جس کا انکار نہیں کیا جا  سکتا وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ ہے ہمیں اپنے اداروں کے مفادات کے تحفظ سے نکلنا ہو گا اور ملک کا مفاد دیکھنا ہو گا ۔  ملکوں کے تعلقات کا جذبات پر قائم رکھنے کا خواب دیکھنا چھوڑنا ہو گا کب تک دوسروں کے لئے گاجر مولی طرح کٹتے رہیں گے۔ عقیدتوں سے نکل کر حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا بد اعتمادی سے اعتماد کا سفر خاصا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اگر ترک قیادت تھوڑے عرصے میں یہ سب کر سکتی ہے تو ہم بھی کر سکتے ہیں اور اس وقت جس عالمی تنہائی کا شکار ہیں اس سے نکل سکتے ہیں ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments