ماسکو سے مکہ ۔۔۔ ایک رپورتاژ (قسط چہارم)


\"mujahidطبیعت ویسے ہی خراب تھی۔ برقعہ پوش مسلمان محنت کش خواتین کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کے اہلکاروں کے اس غیر انسانی رویے کو دیکھ کر کسلمندی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ہوٹل میں آ کر بستر پہ دراز ہو گیا تھا، آنکھوں پہ اپنی پسندیدہ سیاہ پٹی باندھ لی تھی۔ سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی تھی۔ انکل داؤد نے بیدار کیا تھا کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے۔ وضو کیا تھا اور سوئے مسجد چل پڑے تھے۔ حدت کم ہوتی ہوئی دھوپ میں بے چینی کی بجائے سکون مل رہا تھا خاص طور پہ مسجد نبوی کے طویل احاطے کو عبور کرتے ہوئے دل کر رہا تھا کہ دھوپ میں ہی کھڑا رہوں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بخار بھی ہو رہا تھا۔ میں نے اور جمشید صافی نے طے کیا تھا کہ عصر کے بعد جنت البقیع جائیں گے۔ جنت البقیع نام کا یہ قبرستان مسجد نبوی کے اس پار تھا۔ نماز ظہر کے بعد واپسی سے پہلے میں اس کے کنارے تک گیا تھا لیکن معلوم ہوا تھا کہ اسے لوگوں کے لیے عصر کے بعد کھولا جاتا ہے۔ جنت البقیع کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مجھے وہاں اس لیے بھی جانا تھا کہ میرے ایک بھتیجے کی اہلیہ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ وہاں جا کر حضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا سلام پہنچا دوں۔ یوں میں اور جمشید طے کردہ مقام پر ملے تھے اور جا کر جنت البقیع میں داخل ہو گئے تھے۔ یہ ایک وسیع و عریض میدان تھا جس کے بیچ میں سیمنٹ سے گذرگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ زمین کے مختلف سپاٹ قطعات میں بے نام پتھر دھرے تھے جو قبروں کی نشاندہی کرتے تھے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ صحابہ کرام یا تابعین عظام کی قبریں کہاں تھیں۔ کچھ قبریں پرانی تھیں، ان کے پاس سعودی دینی مدرسے کے طلبا یہ کہنے کے لیے کھڑے تھے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ قبر کس کی ہے لیکن چونکہ پرانی قبر ہے اس لیے بہت پہلے کے کسی شخص کی ہوگی۔ میں نے ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر سب کے لیے بشمول صحابہ کرام و اہلبیت کے لیے فاتحہ پڑھ دی تھی اور تھوڑی سی بلند آواز میں بی بی فاطمہ کو شبنم کا سلام بھی پہنچا دیا تھا۔ سعودی حکام نے یہ خوب کیا ہوا ہے ورنہ لاکھوں عقیدت مند مسلمان نہ جانے کہاں کہاں دھجیاں نہ باندھ دیتے، نامے نہ آڑس دیتے، دانے نہ بکھیر دیتے اور بس چلتا تو دھمال ڈالنے سے بھی باز نہ آتے۔ ان حرکتوں کا ایک نمونہ مجھے اگلے روز فجر کی نماز سے پہلے دکھائی دیا تھا۔ جنت البقیع کو چند سالوں کے بعد تازہ کر دیا جاتا ہے اور اس میں نئے لوگ دفن ہوتے رہتے ہیں۔

کھانا کھانے وہیں گئے تھے۔ میں نے تو پاکستانی کھانا کھا لیا تھا لیکن جمشید مزید \”مرچیں\” کھانے سے انکاری تھا۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ \”کے ایف سی\” (کینٹکی فرائیڈ چکن) کا جوائینٹ کہاں ہے۔ مجھے ایک نوجوان پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ خاصا دور ہے۔ البتہ جب وہاں سے واپس جا رہے تھے تو مجھے کے ایف سی ٹائپ ایک دکان دکھائی دے گئی تھی اور وہاں جمشید کو بھی پیٹ بھرنے کا موقع مل گیا تھا۔ بھاگم بھاگ مغرب کی نماز پڑھنے پہنچے تھے۔ عبادت کی حرص میں مبتلا جمشید لمبے لمبے ڈگ بھرتے مسجد کے اندرونی حصے میں جا داخل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے اندر ایک ہزار نمازوں کے برابر ثواب ملے گا۔ وہ احاطے کو مسجد تسلیم نہیں کرتے تھے کیونکہ وہاں ہم جوتے پہن کر چل سکتے تھے۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ بھائی وہ مسجد جو حضور صلعم کے زمانے میں تھی وہ تو بہت چھوٹی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب جو مسجد ہے وہیں ثواب زیادہ ہے۔ میں نے کم ثواب پہ تکیہ کرکے بھاپ کی مانند پانی کی پھوار پھینکتے ہوئے پنکھوں کی ہوا میں بیٹھ کر احاطے میں ہی نماز پڑھ لی تھی۔ مسجد نبوی کے احاطے میں دن کو کھلنے اور سورج ڈھلنے کے بعد بند ہونے والے آٹومیٹک چھتر اور یہ منفرد پنکھے \”کفار جرمنی\” کی دین تھے۔

جمشید ثواب کے لالچ میں پھر غائب ہو چکے تھے۔ کہیں بیٹھ کر قرآن یا نفلیں پڑھ رہے ہوں گے کیونکہ ان کا بھی عام ملاؤں کی طرح یہی خیال تھا کہ کراماً کاتبین نے کیلکولیٹر پکڑے ہوئے ہیں اور وہ مسجد نبوی میں کی گئی عبادات کو ضربیں دیتے ہوئے درج کرتے جا رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی باتیں عبادت کی جانب رغبت دلانے کی خاطر کی گئی ہوں گی۔ چونکہ عرب ہمیشہ سے ہی منفعت پر زیادہ توجہ دیا کرتے تھے چنانچہ انہیں سمجھانے کی خاطر مخصوص مقامات پر عبادت کی عظمت، اہمیت اور اجر کو اجاگر کرنے کے لیے ہزار، لاکھ بولا گیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ ہزاروں یا لاکھوں کہنا بہت زیادہ کو ظاہر کرتا ہے۔ عبادت کے اجر کا انحصار آپ کی نیت اور خلوص پر ہوتا ہے۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ میں تو حضرت رابعہ بصری کی اس بات کو کہیں زیادہ اہم سمجھتا ہوں جب وہ ایک ہاتھ میں پکڑی آگ سے بہشت کو جلانے جا رہی تھیں اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پانی سے جہنم کو بجھانے جا رہی تھیں۔

آج رات عشاء کی نماز کے بعد سکت نہ رہی تھی کہ مزید عبادت کے لیے مسجد نبوی میں ٹھہرا جا سکتا۔ میں واپس ہوٹل چلا گیا تھا اور جاتے ہی ڈوکسی سائیکلین کے دو کیپسول اور پیراسیٹامول کی دو گولیاں معدے میں انڈیل لی تھیں۔ یہ احتیاطی تدبیر تھی کہ کہیں طبیعت کی خرابی سے حج ہی خراب نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالٰی نے بخوبی حج کروانا تھا اس لیے راستے بھی دکھا رہا تھا۔ میں سو گیا تھا۔ کہیں تین بجے انکل داؤد نے باتھ روم جانے کی خاطر اپنی چھوٹی سی ٹارچ جلائی تھی تو اس کی روشنی سیدھی میری آنکھوں کو لگی تھی۔ آنکھ کھل گئی تھی۔ جمشید کا بستر اسی طرح بنا ہوا تھا جیسا دن میں دیکھا تھا۔ کیا وہ مسجد سے واپس ہی نہیں آیا تھا؟ انکل تو واپس آ کر لیٹے اور سو گئے تھے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آدھے پونے گھنٹے بعد میں اٹھا تھا۔ وضو کیا تھا اور مسجد نبوی کی جانب چل پڑا تھا۔ گلیاں بالکل ویران تھیں لیکن سارا علاقہ روشن تھا۔ میں مسجد کے گیٹ نمر ایک سے داخل ہو کر امام کی دائیں جانب دوسری قطار میں جا کر نفلیں پڑھنے لگا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جمشید میرے آگے ہی پہلی صف میں ایک چادر لپیٹے ہوئے قرآن کریم پڑھنے میں مگن تھے۔ جب میں نفلیں پڑھ چکا تو ذکر کرنے بیٹھ گیا تھا۔ میرے ساتھ ہی میرے بائیں جانب ایک پنجابی نوجوان بیٹھا تھا جس کے ہاتھ میں پاکستان کا طبع شدہ کوئی دعا نامہ تھا۔ اس کے بائیں جانب ڈوری سے کچھ حصہ محدود کیا ہوا تھا، جہاں نائب آئمہ اور دینی طالب علم سروں پہ مخصوص سعودی رومال اوڑھے بیٹھے تھے۔ ڈور کے اس طرف بیٹھا ایک نوجوان طالبعلم کوشش کر رہا تھا کہ پنجابی نوجوان کے گھٹنوں پر دھرے دعا نامے کو پڑھ کر کچھ اخذ کر سکے لیکن وہ بھلا کیسے کر سکتا تھا یہ دعا نامہ دراصل پنجابی زبان میں تھا۔ میں نے جو دیکھا تو اس پر پتہ نہیں کن کن گمنام پیروں، خلیفوں اور بڑے مر یدوں کے نام لکھ لکھ کر ان کے ساتھ عربی دعائیں جوڑی ہوئی تھیں۔ مطلب یہ کہ خالصتاً بدعتی کتاب تھی۔ اگر ایسے لوگوں کو موقع دے دیا جائے تو وہ جنت البقیع میں صحابہ کرام کے مرقدوں کے ساتھ کیا کیا سلوک نہیں کریں گے۔ یہ تھا وہ نمونہ جس کا میں نے اس سے پیشتر ذکر کیا تھا۔ اس عجیب وغریب دعا نامے کو وہ نوجوان مسجد نبوی میں بیٹھا پوری عقیدت سے پڑھ رہا تھا۔

نماز پڑھانے کی خاطر جب مخصوص دروازے سے امام صاحب داخل ہوئے تھے تو ان کے ساتھ آٹھ وردی پوش پولیس والے بھی داخل ہوگئے تھے۔ نماز کے دوران چھ تو نمازیوں کی جانب منہ کرکے اور دو امام صاحب کی پشت کی جانب منہ کیے مختلف پوزیشنوں میں کھڑے ان کی حفاظت کرتے رہے تھے۔ ایسا کیا جانا بہت عجیب لگا تھا۔ نماز ختم ہونے کے بعد میں نے جمشید کو سلام کیا تھا۔ وہ مجھ سے کچھ کھنچے کھنچے سے لگتے تھے۔ میں نے ناشتہ کھانے چلنے کو کہا تو انکار کر دیا۔ مسجد نبوی سے نکلتے ہی ایک نوجوان چائے بیچ رہا تھا۔ ہم دونوں نے چائے لی تھی، انہوں نے کچھ مفن وغیرہ کھا کر پیٹ بھر لیا تھا۔ میں نے پراٹھوں والی دکان کی راہ لی تھی۔ جب ہوٹل لوٹا تو جمشید نہیں تھے۔ میں نقاہت محسوس کر رہا تھا۔ نیند آ گئی تھی۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو کمرے میں کھڑے ہوئے جمشید نے مجھ پر روسی زبان میں تابڑ توڑ حملہ کر دیا تھا کہ خود سو جاتے ہو۔ کھانستے ہو، خراٹے بھرتے ہو۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ میں رات ایک بجے ہی تنگ آ کر مسجد چلا گیا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ کہہ دوں \”بھائی اس طرح تو تمہیں مزید ثواب کمانے کا موقع میسّر آ جاتا ہے\” لیکن میں نے معذرت کی تھی اور اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ میں بیمار ہوں۔ نزلے کے ساتھ نیند میں میں خراٹوں پہ بھلا کیسے قابو پا سکتا ہوں لیکن وہ رنجیدہ ہوئے ہی چلے جا رہے تھے۔ میں نے اکتا کر کہہ دیا تھا کہ ایک ہی حل ہے آئندہ میرے ہمراہ کمرہ نہ لیجیے گا۔ اب جمشید صاحب دراز ہو کر انٹا غفیل ہو گئے تھے۔ ظہر کے وقت انہیں جگایا تھا اور اکٹھے مسجد گئے تھے۔

ظہر کی نماز کے بعد جب مسجد کے ایک اندرونی گیٹ سے میں نکلا تو ایک اور منظر دیکھنے کو ملا تھا۔ مسجد کے احاطے میں چلتی ہوئی ایک الیکٹرک موبائل پہ کوئی سرکاری شخصیت سوار تھی جس کے ساتھ اور پیچھے تین پولیس والے بیٹھے تھے۔ موبائل کے ساتھ ساتھ دونوں جانب تین تین سپاہی بھاگ رہے تھے۔ اس موبائل کے آگے پولیس والوں کی دو ایسی ہی موبائل تھیں اور پیچھے پولیس اور عمال سے بھری آٹھ دس مزید ایسی الیکٹرک کاریں تھیں۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا یہ نمونہ تھا کہ حاکم شہر اس کے احاطے میں پیدل نہیں چل سکتا تھا۔ حکام کے اپنے ہی انداز ہوتے ہیں چاہے وہ کہیں کے ہی کیوں نہ ہوں۔

ہمیں اگلے روز مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ سوچا کہ آج سرور کونین کو الوداعی سلام بھی کر لیا جائے۔ عشاء کی نماز کے بعد عاشقان رسول پاک و صحابہ کرام کی سرکتی ہوئی لائن میں کھڑے ہو کر \”حجّی! آگے!! چلو!!!\” سنتے ہوئے اس خواہش کے ساتھ کہ اللہ پھر اس مقام پر لائے نبی آخرالزمان، خلیفہ اول و دوئم کو الوداعی سلام کیے تھے۔ باہر نکلنے کی بجائے آج دل میں ٹھان لی تھی کہ ریاض الجنہ میں نفل ادا کرنے ہیں۔ ایک گروہ کو پولیس والے نکال رہے تھے۔ دوسری جانب سے قنات کھلنے کا انتظار تھا۔ میں دوسری لائن میں کھڑا ہو گیا تھا۔ جب علاقہ خالی ہو گیا اور صفائی ہونے لگی تو قنات کے دوسری طرف ایک شیخ نے کھڑے ہو کر صبر اور نظم کی تلقین کی تھی۔ عربی، اردو، فارسی، ترکی سبھی زبانوں میں کہا تھا کہ آرام سے داخل ہوں۔ مجھے عین ریاض الجنہ میں جگہ مل گئی تھی۔ میں دو نفل ہی پڑھتا لیکن لوگ نفل پڑھنے میں مصروف تھے۔ نکلنے کی جگہ نہیں تھی، اس لیے میں نےمزید دو نفل پڑھ لیے تھے۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنتاً و فی الآخرہ حسنتاً سے مجمل بھلا کوئی دعا ہوگی، جو پڑھتا رہا اور نکل گیا۔ آج رات صافی صاحب بھی آرام سے آ کر سو گئے تھے۔ صبح اکٹھے نماز پڑھنے گئے تھے۔ واپس نکلنے لگے تو میری چپل غائب تھی۔ میں چپل ڈھونڈتا رہا اور جمشید صاحب ایک بار پھر غائب ہو گئے۔ کوئی آدھا گھنٹہ چپل تلاش کیے تھے۔ اندازہ یہی لگایا تھا کہ میرے چپلوں سے ملتے جلتے ایک چپل بہت دیر سے اسی ریک میں پڑے تھے، جہاں میرے چپل تھے چنانچہ ہو نہ ہو کوئی صاحب غلط فہمی سے میرے چپل لے گئے ہیں لیکن اگر میں یہ چپل لے کر چلتا بنوں تو ممکن ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو اور کوئی دوسرا میری طرح تنگ ہو چنانچہ ننگے پیر ہی مسجد کے احاطے میں اور احاطے سے باہر گلی میں چلا تھا۔ صبح صبح بھلا چپل کہاں ملتے لیکن سڑک پر پہنچ کر برقعہ پوش ریڑھی بان سے پندرہ ریال کے جیسے بھی چپل ملے خرید لیے تھے جنہیں پہن کر ہوٹل پہنچا تھا۔ کچھ دیر بعد صافی صاحب بھی مل گئے تھے۔ پراٹھوں کا ناشتہ کرنے گئے تھے لیکن صافی صاحب سالن نہیں لے رہے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں پیٹ خراب نہ ہو جائے۔ واپسی پر اتفاقاً معلوم ہوا تھا کہ ایک بس آئی ہوئی ہے جو قابل دید مقامات دکھانے لے جائے گی۔ یہ تھا ہمارے مولوی رشید یعنی رشیت حضرت کا انتظام کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟

جب سب بس میں بیٹھ چکے تو ژوب (لمبا عربی کرتہ) زیب تن کیے اور شکوک کو ابھارنے والی اپنی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے رشیت حضرت بھی بس میں سوار ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ \”ہمارا\” مدینہ میں طالب علم عثمان اس سفر میں آپ کا گائیڈ ہوگا۔ عثمان دھان پان سا چھدری ہلکی داڑھی والا تاتار لڑکا تھا جس کے کان سامنے کی جانب اور بڑے بڑے تھے لیکن جب اس نے سفر بارے تذکرے کی ابتدا کی تو فوراً اس کی ذہانت اور علمیت آشکار ہونے لگی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ ہماری پہلی منزل مسجد قبا ہو گی۔ محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تو یقیناً یہ مسجد چھوٹی سی ہی ہوگی لیکن اب یہ مسجد خاصی وسیع و عریض اور دیدہ زیب ہے۔ اس کی بناوٹ بڑی سادہ سی ہے یعنی وہی ایک گنبد اور چار بلند مینار لیکن پھر بھی یہ پرشکوہ لگتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے مسجد یا اس سے وابستہ حقائق سے کسی قسم کی کسی عقیدت کا اظہار مراد نہیں ہے بلکہ مسجد فی الواقعی باہر سے اور اندر داخل ہو کر دیکھنے, دونوں ہی طرح سے متاثّر کرتی ہے۔ چونکہ جلدی میں نکلے تھے چنانچہ با وضو نہیں تھے۔ اس لیے مسجد سے نیچے (مسجد زمین سے اچھی خاصی اونچی ہے) وضوگاہ میں جا کر وضو کیا تھا۔ وضوگاہ سے مسجد میں داخل ہونے کے دروازے تک پہنچنے کی خاطر سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے راستے میں بچے ساتھ لیے یا بچہ سنبھالتے ہوئے کئی برقع پوش بھکاری عورتیں دیکھنے میں آئی تھیں۔ باثروت ملکوں میں بے مایہ لوگوں کو دیکھ کر زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ بہر حال سیڑھیاں چڑھ کر دروازے میں داخل ہوا تھا۔ چونکہ صبح چپل گم کر چکا تھا چنانچہ اب چپل سے متعلق محتاط تھا اور اسے واضح طور پر دکھائی دینے والی جگہ پہ رکھا تھا۔ اندر سے مسجد کی تصویر بنانا چاہتا تھا لیکن موبائل فون کا کیمرہ جم گیا تھا۔ فون بند کرکے دوبارہ چالو کیا اس میں بھی دو تین منٹ لگے تھے لیکن عارضی نقص موجود رہا۔ چونکہ عثمان نے ہمیں مسجد دیکھنے اور دو نفل پڑھنے کی خاطر پندرہ منٹ دیے تھے اس لیے بہتر جانا تھا کہ نفل پڑھ لی جائیں۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح میں مسجد کی تصاویر لینے میں کامیاب رہا تھا۔ تصویریں یادگار کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے بناتا تھا کہ انہیں فیس بک پہ جاری کر سکوں تاکہ لوگ میرے ساتھ حج میں شریک رہیں۔ گھٹیا ہوٹل کی لابی میں البتہ وائی فائی کی سہولت موجود تھی جہاں سے موبائل پہ ہی انٹرنیٹ آن کرکے میں لوگوں کو بصری طور پر ہی سہی اپنے ساتھ شامل کر لیتا تھا اور مختصراً تبصرہ یا روداد بھی لکھ دیتا تھا۔ لوگوں کے انگریزی یا رومن اردو میں لکھے تبصرے تو پڑھے جاتے تھے لیکن موبائل میں اردو پڑھنے کی سہولت نہیں تھی۔

مسجد قباء سے نکلے تو ہمارا اگلا ہدف \”مسجد قبلتین\” تھا۔ اس مسجد کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہیں نماز پڑھاتے ہوئے رکوع کے عالم میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ مبارک بیت المقدس سے موڑ کر کعبے کی جانب کیا تھا۔ مقتدیان کرام بھی اسی طرح مڑ گئے تھے۔ چونکہ اس میں نماز بیک وقت دو قبلہ جات کی جانب منہ کرکے پڑھی گئی تھی اس لیے اسے مسجد قبلتین کہتے ہیں لیکن ہمارے مولانا رشیت کا کہنا یہ تھا کہ اس مسجد میں حضور کے نماز پڑھنے کی کوئی روایت نہیں ہے اس لیے ضروری نہیں کہ یہاں نوافل پڑھے جائیں، ہاں کسی بھی مسجد میں داخل ہونے کی نماز تہیۃ المسجد پڑھ لی جائے تو اچھا ہے۔ میں نے بحث کرنا مناسب نہیں جانا تھا۔ نوافل پڑھے تھے ایک دو تصویریں بنائی تھیں اور بس کی جانب چل دیا تھا۔ مسجد کی جانب آتے ہوئے ہمیں بس میں بیٹھے بیٹھے \”مسجد جمعہ\” بھی دکھائی گئی تھی لیکن اس تک لے جایا نہیں گیا تھا۔ شاید وہ راستے سے کچھ ہٹ کر تھی یا وقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ مسجد قبلتین سے ہم کھجوروں کے ایک باغ میں لے جائے گئے تھے۔ جہاں کھجوروں کی ایک شاندار دکان تھی۔ ایک چھوٹا سا ریستوران تھا جس کے پہلو میں ایک چبوترے کے اوپر قالین بچھا کر اس کی چاردیواری کے ساتھ بیٹھنے کے لیے گدیاں رکھ دی گئی تھیں اور ٹیک لگانے کی خاطر غلاف چڑھے اسفنجی گاؤ تکیے دھرے ہوئے تھے۔ بیشتر لوگ کھجوریں خریدنے اور کھجوروں کے درخت دیکھنے میں لگ گئے تھے کیونکہ روس میں رہنے والوں کے لیے کھجور کا درخت Exotic ہوتا ہے جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔ میرے لیے کھجوروں کے یہ درخت بہت کوتاہ تھے کیونکہ میری جنم بھومی علی پور ضلع مظفر گڑھ میں ان سے چار گنا بلند کھجوریں ہوتی ہیں جن کی کھجوریں مدینے کی کھجوروں سے کہیں زیادہ لذیذ اور Original ہوتی ہیں۔ مدینے کی تمام کی تمام کھجوریں ماسوائے عجوٰی کے قلمی ہیں لیکن \”ہماری\” کھجوریں وہی ہیں جو عرب فوجوں کے سپاہیوں کے دہنوں سے گری کھجوروں کی گٹھلیوں سے اگی تھیں، اگرچہ وہ اب تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ چانچہ میں اسی چبوترے پہ \”شیخ\” بن کر بیٹھا رہا تھا۔

باغ عدن سے نکل کر پھر اکیسویں صدی کی غیر مسنون سواری یعنی بس میں بیٹھ گئے تھے اور اب لوہے کے اس اونٹ کا رخ کوہ احد کی جانب تھا۔ راستے میں البتہ جنگ احزاب کے علاقے میں واقع خندق کے ایک تھوڑے سے حصے والی جگہ پہ بس روکی گئی تھی۔ بس سے نکلنے نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی ہم نے خندق کا باقی ماندہ حصہ دیکھا تھا۔ بس ایک مسجد دکھائی دی تھی جس پر عثمان کی گفتگو کا اوور لیپ ہو رہا تھا۔ جب مسجد قبا کی جانب روانہ ہوئے تھے تو راستے میں ایک پہاڑی سے جھر جھر بہتے جھرنوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی، پہاڑی پہ پھولوں کی بھی بہتات تھی۔ سوچا تھا کہ عثمان سے پوچھوں گا کہ کیا یہ جھرنے قدرتی ہیں؟ ممکن ہے اوپر کوئی چشمہ ہو۔ یہ جھرنے ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے تھے۔ عثمان نے خود ہی بتا دیا تھا کہ یہ مصنوعی ہیں۔ بہر حال تپتے ہوئے مدینے میں یہ منی منی آبشاریں آنکھوں کو بے حد بھلی لگی تھیں

اب ہم کوہ احد کی جانب جا رہے تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کوہ احد ایک جانب ہے جس کی تلہٹی میں دکانیں تھیں۔ سڑک کے اس پار خاصی دور اور بھی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ لوگ آنکھوں پہ ہاتھ دھرے کسی جانب دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک ٹیلہ تھا جس پہ لوگ چڑھے ہوئے تھی۔ گرمی بہت زیادہ تھی۔ ایک دیوار پر جنگ احد کی نقشہ کشی ہوئی ہوئی تھی۔ عثمان نے کسی ماہر حرب کی طرح جنگ احد کا نقشہ کھینچنا شروع کر دیا تھا۔ میں دھوپ کی حدت سے بچنے کی خاطر اسی دیوار کے سائے میں کچھ خواتین کے ہمراہ کھڑا ہوگیا تھا لیکن عثمان کے انداز و بیان نے مجبور کیا تھا کہ میں بھی اس جنگ کا منظر سمجھوں، میں سامنے کی جانب آ گیا تھا۔ جو ٹیلہ دکھائی دے رہا تھا، اصل میں وہی جگہ تھی جہاں حضور اکرم کے دانت شہید ہوئے تھے اور زخم آئے تھے، جس پر کفار مکہ نے مشہور کر دیا تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور صحابہ کے پاؤں لڑکھڑا گئے تھے۔ رہی سہی کسر منافقین نے میدان چھوڑ کر پوری کر دی تھی۔ یہ سوچنا کہ کفار مکہ کہاں سے سفر کرکے کہاں لڑنے آئے تھے اسلام کے ایک اہم باب کو آشکار کر رہا تھا کہ کس طرح لوگ ایک تحریک کے فروغ پانے اور حق کی آواز کے مقبول ہونے سے خائف تھے کہ اس کو تمام کرنا چاہتے تھے۔ اس امر سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کس طرح ایسے حالات میں جانباز صحابہ کرام کوہ احد کی کگروں پر چل کر زخموں سے چور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر دشمنوں سے چھپے ہوں گے۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ اس جنگ میں بہت زیادہ صحابہ شہید ہو گئے تھے، جن میں حضور اکرم کے چچا اور دوست حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے جن کا جگر ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے چبایا تھا۔ جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد معاف فرما دیا تھا۔ جنگ احد کے شہداء کا قبرستان ہمارے سامنے تھا لیکن اس کی دیواریں اونچی تھیں۔ ہم میلے کی مانند لگی دکانوں کو عبور کرتے ہوئے قبرستان کی دیوار کے سائے میں اس ٹیلے تک پہنچے تھے۔ عثمان نے ٹیلے پر چڑھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پتھر عام پتھر ہیں انہیں متبرک پتھرسمجھ کر اٹھانے اور ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر دو ایک افراد نے اس کا کہا ان سنا کر دیا تھا اور پتھر اٹھانے لگے تھے۔ یہ بات تو سمجھ آتی تھی لیکن عثمان نے یہ بھی کہا تھا کہ جس کسی نے بھی تصویریں اتاری ہیں یا ویڈیو بنائی ہے وہ ازراہ خدا تلف کر دے کیونکہ میں قیامت کے روز اللہ کو جوابدہی نہیں کر سکوں گا۔ اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی تھی تاہم میں نے نہ تو وہاں کوئی تصویر کھینچی اور نہ ہی اس سے وضاحت طلب کی۔ البتہ اسے اس کے انداز گفتگو اور علم پر داد ضرور دی تھی۔ میں لوگوں کو ٹیلے پہ ہی چھوڑ کر قبرستان کے سامنے پہنچ گیا تھا۔ ایک بغلی دروازے سے قبرستان کی جالی تک پہنچنا ممکن تھا وہاں پہنچ کر میں نے فاتحہ پڑھی تھی اور حضرت حمزہ کو اپنا سلام پیش کیا تھا۔ پھر قبرستان کی دیوار کے سائے کی پناہ لیتا ہوا وہاں پہنچا تھا جہاں بس کھڑی تھی۔ بس میں کوئی نہیں تھا۔ میں ایک ہسپتال کے دروازے کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کر لوگوں کے آنے کا انتظار کرنے لگا تھا۔ ہسپتال میں پانی کا کولر لگا ہوا تھا اور دروازہ کھلا تھا، وہاں سے جا کر ٹھنڈا پانی پیا تھا۔ لوگ آنے لگے تھے، ان کو بھی پانی پینے کی راہ دکھا دی تھی لیکن جب زیادہ لوگ اندر جانے لگے تو اہلکار نے آ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ ہم ہوٹل لوٹ آئے تھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments