جیت بچے کا کردار تشکیل نہیں کرتی ہے!
ہم میں سے کتنے ہیں جو بچوں کو جماعت میں پہلی پوزیشن لینے پر ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتے ہوں۔ اور ایسے کتنے ہیں جو بچوں کے پہلا نمبر لینے پر خوش نہ ہوتے ہوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو بڑھ بڑھ کر نہ بتاتے ہوں کہ ان کے بیٹے یا بیٹی نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
آپ نے تو بچوں کی خود اعتمادی اور بد اعتمادی کو جیت اور ہار سے نتھی کر دیا ہے۔
ایک بچہ جب گھر آ کر چیختے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے تو آپ اور آپ کے بچے کی خوشی، ہم دلی میں کمی کا اشتہار دکھائی دیتی ہے۔
یہ بھی ایک دلچسپ بحث ہے کہ آیا، تعلیمی اداروں کو کھلے عام امتحان کا نتیجہ مشتہر کرنا چاہیے۔ کیا نتیجہ سے متعلقہ تفصیلی معلومات، ایک ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ ایسے ذاتی معاملات کو یوں سر بازار اچھالنا کہ جس سے نقصان کا اندیشہ ہو، کیا اداروں کو زیب دیتا ہے؟
زرعی سے صنعتی دور میں داخل ہونے کا دور بہت سی غیر اخلاقی اور نامناسب پیچیدگیاں لیے ہوئے ہے۔ یہ پیچیدگیاں صنعتی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی موجود ہیں لیکن کم از کم انہوں نے ایک ایسا تربیت یافتہ تہذیبی لباس پہن رکھا ہے کہ کم بری معلوم ہوتی ہیں۔ اس سے اگلے دور میں یہ غیر اخلاقی پیچیدگیاں کم ہوتی چلی جائیں گی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک فلسفیانہ حوالے سے پہلی تہذیبی تبدیلی سے نبرد آزما ہیں۔
فرض کیجئے ایک کمرے میں خاندان کے افراد بچوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ کمرے میں کوئی کرسی یا بیٹھنے کی جگہ خالی نہیں ہے۔ ایک بچہ باہر سے آتا ہے اور کرسی پر بیٹھے ایک بچے کو کہتا ہے جلدی آؤ باہر۔ ۔ وہ دیکھو وہ دیکھو۔
اس کی بات پر یقین کرتے ہوئے بچہ تجسس کے مارے اٹھتا ہے اور کمرے سے باہر نکلتا ہے۔ اسی اثنا ء میں سرعت سے پہلا بچہ کرسی پر قبضہ جما لیتا ہے۔
یہ بہت اہم کیس ہے۔ آپ پاکستان کے معاشرے کے تناظر میں اس کیس کا کیا نتیجہ دیکھتے ہیں ؟
کیا کمرہ قہقہوں سے گونج نہیں اٹھے گا؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ دھوکہ دہی کے مرتکب بچے کو سب داد و تحسین کی نظروں سے دیکھیں گے؟
کیا دھوکہ دہی کے مرتکب بچے کے والد کا سینہ پھول نہیں جائے گا اور کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ میرا بچہ زندگی میں مار نہیں کھائے گا۔
کیا دھوکہ کھانے والا بچہ شرمندہ اور پریشان نہیں ہو گا؟ کیا اس بچے کا والد جھینپ نہیں جائے گا؟
کیا اس بچے کا والد یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہو گا کہ اس سست الوجود گدھے نے بڑا ہو کر کیا بننا ہے۔
اس کیس کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کیا ہمارے معاشرے میں گھر سے اسکول تک تمام تربیتی مراحل میں دھوکہ دہی، دوسروں کو کسی بھی طور پچھاڑ کر آگے گزرنے اور ہارنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی روایت مسلمہ ہے یا نہیں؟
عام گھر تو عام، میں نے بڑے بڑے مہذب تعلیم یافتہ اور ہر وقت ملک میں میرٹ کا رونا رونے والوں کو دیکھا کہ اپنی اولاد کی سفارش کے لیے رشوت سمیت کسی بھی حد تک چلے گئے۔ کسی بھی مریخ سے آنے والے باشندے یا غیر جانبدار شخص کے لیے یہ پیچیدہ گتھی سلجھانا مشکل ہو جائے گاکہ یہ سب انسان اس قدر دو رخی کے ساتھ زندہ کیسے ہیں؟
اس کے کچھ ڈانڈے ہمیں نفسیات سے مل جاتے ہیں۔ اگر مقابلہ بازی کو آپ غربت اور زندگی کی بقا اور تسلسل سے جوڑ دیں تو فرد کی تخلیقی توجہ منتشر ہو جاتی ہے۔ زندگی کی بقا کے حوالے سے ہمارے دماغ میں ارتقائی میکنیزم بہت بے رحم ہے بلکہ تمام انواع میں بے رحم ہے۔ زندگی کے تسلسل اور بقا کے آگے اخلاقیات کچھ نہیں بیچتیں۔
زرعی دور سے صنعتی دور کی جانب شفٹ، فرد کے لیے بے اعتباری کا دور کہلاتا ہے۔ اس بے اعتباری کے دور میں زندگی کا تسلسل اخلاقی قدروں پر بازی لے گیا بلکہ کچھ وفاداری اور دیانت داری جیسی اصطلاحات دیہات یا دیہاتیوں کے ساتھ مخصوص کر دی گئیں جبکہ مکاری اور تیز طراری شہروں کے ساتھ نتھی ہو گئی۔
مقابلہ بازی کا ایک دوسرا تصور یہ ہے کہ مقابلے میں ہار یا جیت آپ کی زندگی کے معاملات کو متاثر نہ کرے، نہ ہی غربت کا اندیشہ ہو۔ ہار کی صورت میں بھی ایک وقتی سے افسوس کے بعد کورٹ کے باہر خوبصورت زندگی آپ کی منتظر ہو تو ایسا مقابلہ نقصان دہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے مقابلے میں اخلاقیات حاوی رہتی ہیں۔ جیت کی صورت میں خوشی کے ساتھ اپنے مد مقابل کے غم کا بھی احساس رہتا ہے جو آپ کی خود اعتمادی میں نقصان دہ حد تک بڑھوتری میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اور دنیا ٹینس کورٹ میں ایسے مناظر دیکھتی ہے جس میں جیتنے والا جیت کی شاٹ کے ساتھ ہی چھلانگ لگا کر دوسری جانب جا پہنچتا ہے اور ہارنے والے کو گلے لگا لیتا ہے۔
مقابلہ بازی میں تخلیقی صلاحیت کس قدر متاثر ہوتی ہے اس پر کافی تجربات ہو چکے ہیں۔ بچوں کے دو مختلف گروہ لیے گئے جن کو یہ کام دیا گیا کہ بہت سی تصویروں میں سے خوبصورت تصاویر کا انتخاب کر کے ایک کینوس پر یوں سجانا تھا کہ وہ بہت خوبصورت لگے۔ ایک گروہ کو مقابلے کا تصور دیا گیا اور دوسرے گروہ کو ہار جیت کی بندش سے آزاد چھوڑا گیا۔ دوسرے گروہ نے جو کام کیا وہ کمال خوبصورت کام تھا جبکہ مقابلہ بازی کا گروہ کہیں پیچھے تھا۔ پھر انہی بچوں کو ادل بدل کیا گیا لیکن نتیجہ وہی رہا۔
مقابلہ بازی کے بجائے کسی کام کو کرنے میں تعاون کا نظریہ کہیں زیادہ سود مند اور نتیجہ خیز ہے۔
اس بات کو سمجھنا چنداں پیچیدہ نہیں ہے۔ جہاں انسان کی بقا کا تصور آ جائے گا تمام کمینگیاں بھی اس کے کردار میں در آئیں گی۔ جہاں غربت کے اندیشے کے پیش نظر مقابلہ کیا جائے گا وہاں ہم دلی کا فقدان اور دھوکہ دہی کو جائز تصور کیا جائے گا (بیانیہ دیانت کا ہی رہے گا، فرد دیانت پر خطبے بھی دے گا لیکن عمل میں دھوکہ لے آئے گا اور دھوکے کولاشعوری طور پر زندگی کی بقا کے لیے، اٹھایا جانے والا ناگزیر قدم جانے گا جس سے دوئی کی صورت میں پیدا ہونے والا انتشار کم ہو جائے گا اور فرد پر سکون ہو کر اس کو جائز سمجھے گا)۔
گذارش ہے کہ جہاں زندگی کے بقا میں تسلسل کا خطرہ نہ ہو وہاں کے چوراہوں میں کبوتر کے چونچوں سے پانی رواں رہتا ہے اور دانشوروں کے ہاتھ میں کتاب لیے مجسمے چوراہوں پر مسلسل کھڑا ہونے سے تھکتے نہیں ہیں۔ جہاں زندگی کی بے اعتباری کا درس ہر جانب نظر آئے وہاں کے چوکوں میں ٹینک اور توپیں کھڑی ہوتی ہیں۔ وہاں کے والدین تہواروں پر اپنے بچوں کو توپ کی نال کے ساتھ کھڑا کر کے تصویریں بناتے ہیں اور تحفے میں پلاسٹک کی گنیں دیتے ہیں۔
چھوڑیے بات ہو رہی تھی مقابلہ بازی اور بچوں کا پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر۔ سوچتا ہوں اگر وقاص کبھی پہلی پوزیشن لے بھی گیا (امکانات کم ہیں، اس کے کرنے کو اور بہت سے کام ہوں گے) تو کیا میں خوش ہوں گا۔ اس کی پہلی پوزیشن پہ اگر کسی اور بچے کا ایک آنسو بھی گرا تو میں نے اس کی اس پہلی پوزیشن کا کیا کرنا !
- میری تمام تعارفی شناختیں، پکارتے مظلوم کے پاؤں کی مٹی برابر ہیں - 08/07/2023
- موسم گرما سے محبت کے لیے البرٹ کامیو کے تین مشورے - 25/06/2023
- شاہ کو خبر ہو، تنی رسی پر چلتا کسان گر گیا ہے - 29/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).