تایا بھتیجا اور بھتیجے کے نئے رشتہ دار


\"Asmara-Murtaza\"(اسمارہ مرتضیٰ)

نوٹ: تایا جی سے مراد ڈاکٹر طاہر القادری، بھتیجے سے مراد عمران خان اور بھتیجے کے نئے رشتہ داروں سے مراد بلاول زرداری ہے۔

کینیڈا والے تایا جی اور عمران خان کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے بلاول بھٹو زرداری کی بات کرتے ہیں جو دائيں بغل میں راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ اور بائیں بغل میں یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک جیسے کرپٹ ترین مشہور کر دیے جانے والے بندوں کو بٹھا کر کرپشن کے خلاف پریس کانفرنس کریں تو یہ کانفرنس اپنے اندر ہی ایک بہت بڑا لطیفہ لگتی ہے۔ ویسے بھی ہماری رائے میں پیپلز پارٹی یا زرداری کے فرزندِ ارجمند کا کرپشن کے خلاف تحریک چلانا ایسے ہی ہے جیسے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی آرمی کشمیریوں کی آزادی کے لیے تحریک چلا دے۔

دراصل ہم ٹھہرے بھولے بادشاہ، سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف تحریکیں اور قصے بھی اکثر اوقات سیاست ہی کا شاخسانہ ہوتے ہیں جن میں مرتے ناچتے تو کارکن ہیں لیکن مفادات سیاسی ٹولے کے اپنے ہی ہوتے ہیں جس کا پارٹی منشور یا ملکی مفادات سے دور دور تک بھی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے میگا اسکینڈلز کی خبریں ہمیشہ گرما گرم ہوتی ہیں اور احتساب ہمیشہ ٹھنڈا ٹھار۔

\"bilawal

مسئلہ یہ ہے کہ کون کس کا احتساب کرے گا ؟ ہم سب در اصل کسی نہ کسی حد تک کرپٹ ہیں۔ لیکن ہم کبھی نہیں مانتے تو کوئی دوسرا کیونکر مانے گا بھئی۔ معاشرے میں پھیلا گند سیاستدانوں کی بدولت نہیں بلکہ ہم سب بھی اس میں برابر کے حصے دار ہیں اور یہ گند ہمیں انفرادی طور پر خود ہی صاف کرنا ہوگا۔

میرا مقصد کسی بھی جماعت کے گُن گانا بالکل نہیں لیکن وہ وقت بھی تو یاد کریں جب کوئی دن بھی بم دھماکوں اور خودکش دھماکوں سے خالی نہیں جاتا تھا کبھی آٹا بلیک تو کبھی گھی کبھی چینی کا قحط تو کبھی حج اسکینڈل اور ایفیڈرین اسکینڈل سامنے آتا تھا۔ بے چینی، افراتفری، بے سکونی کا یہ عالم تھا کہ مارکیٹ میں آٹے کے پانچ کلو کی خاطر لوگوں الجھتے لڑتے دھینگا مشتی کرتے دیکھا، میں خود گواہ ہوں اس بات کی کہ غریبوں کو چینی کے ایک ایک پاؤ کیلئے لمبی قطاریں بھی لگانا پڑیں۔ اتنی نحوست اور بے چینی تھی جو اب کم از کم اُس طرح تو نہیں ہے۔ خامیاں ضرور ہیں، اس میں شک نہں کرپشن بھی بہت ہے، لیکن اس طرح ہر روز ناکام دھرنوں اور تحریکوں کے باوجود دوبارہ وہی عمل دہرا کے ملک کو مزید افراتفری اور انتشاری کیفیت میں لے جانا بھی کوئی عقل مندی نہیں۔

لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ سب کو کرپشن یا دونمبری کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔ لیکن پیارے کارکنو، جیسے شادی کا ایک ٹائم ہوتا ہے اسی طرح دھرنے اور تحریکوں کا بھی ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔ میں نے اور میرے شوہر نے 2013 کے الیکشن میں فیملی مخالفت کے باوجود تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا لیکن افسوس صد افسوس کہ بھتیجے سے جو توقع تھی اسکا جنازہ خوب نکلا۔

 

لہٰذا تایا جی کی تحریکِ قصاص اور بھتیجے کی کرپشن کے خلاف تحریک میرے نزدیک بے وقت اور بے موقع ہے۔ ان کو اتنی تو عقل ہونی چاہیے کہ جب ان کی تحریک اور دھرنے عروج پر تھے، تب کامیاب نہیں ہو سکے تو اب کونسا انقلاب آنے والا ہے؟ مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بعد ایک ٹائم ایسا تھا کہ ن لیگ شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کا استعفیٰ دینے تک رضامند ہو گئ تھی اور یہ تایا بھتیجا نواز شریف کے استعفیٰ پہ اٹکے ہوئے تھے۔ سیاست میں فیصلے بروقت کرنے ہوتے ورنہ یہ بے رحم سیاست ایک رات میں ہیرو سے زیرو بنا دیتی ہے۔

\"imran\"

اب تو تایا بھتیجا نُون لیگ سے ایک کونسلر کا بھی استعفیٰ مانگیں تو وہ نہیں دیں گے اور چلو فرض ہی کرلو کہ یہ استعفیٰ لینے یا ن لیگ کو ہلانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو کیا اس آخری ڈیڑھ سال میں ان کو سیاسی شہید بنا کر مظلوم بنانا خان کی سیاسی بصیرت ہوگی؟ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس تبدیلی کے لیے لوگوں نے خان کو 67 لاکھ ووٹ دیے تھے، خان نے اپنے غلط رویے اور بے تکی سیاست سے اس مینڈیٹ کا بھڑکس نکال دیا ہے ۔

اس لیے 67 لاکھ والو، تبدیلی نہ آنی تھی نہ آئے گی البتہ خان کی حرکتوں کی وجہ سے 2018 میں نون لیگ کی حکومت دوبارہ ضرور آ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments