دوستو، دیدہ ورو، کچھ ”چورت“ مارو


اس خادم کی جنم بھومی کوئٹہ ایک عدیم النظیر ثقافتی رنگا رنگی سے سجا گلدستہ ہوا کرتا تھا۔ پشتو، بروہی، پنجابی، فارسی، ہندکو، بلوچی، سندھی سرائیکی اور جانے کون کون سی بولی ہر گلی کوچے سے گزرتے ہوۓ کان میں پڑتی تھی۔ وادئ شال کی کٹھالی کی محبت کی آنچ میں یکجان ہو کر ایک انتہائی دل چسپ لسانی تجربہ وجود میں آیا جسے ہم کوئٹہ کی مخصوص “اردو” کہہ سکتے ہیں۔ اس بولی کا ڈھانچہ تو اردو کو توڑ مروڑ کر بنا ہے مگر اس کے مخصوص اسما، افعال اور محاورے ہیں جن میں اس کی تشکیل میں حصہ ڈالنے والی مختلف زبانوں کی چاشنی موجود ہے۔ خادم بوجوہ بہت سالوں سے وطن بدر خاک بسر ہے، چنانچہ اس میٹھی بولی کی مشق نہیں ہو پاتی مگر کوئٹہ کا کوئی پرانا باسی اچانک ٹکرا جاے تو معاملات من و تو کے لئے فوراً ہم اسی بولی میں رواں ہو جاتے ہیں۔ اور آس پاس کھڑے لوگ فصیح اردو، پشتو یا انگریزی سے اس “کھڑی بولی” میں ہماری زقند دیکھ حیران رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں کو چھوڑ کر، خادم کو ایسا تجربہ لندن، مانچسٹر، ساؤ پاؤلو، دبئی، دلی، بھوپال، بشکک اور دوشنبہ میں بھی ہو چکا ہے۔ اس بولی میں پشتو سے مستعار لیا گیا ایک فقرہ ہے، (‘چ’ پر پیش اور ‘ر’ پر جزم کے ساتھ) “چورت مت مارو”، یعنی “فکر مت کرو”۔

احباب نے کسی جرمن پادری سے منسوب، جنگ عظیم دوم کے زمانے کی حکایت بہت بار سن رکھی ہوگی، چنانچہ اسے دہرانا بے سود ہوگا۔ ہاں، لہو رنگ مادر وطن، کوئٹہ پر اس کا انطباق بادی النظر میں عرض ہے۔ پہلے پچھلی صفوں کے بلوچ سیاسی کارکنان کی باری آئی۔ ان کے غائب کیے جانے اور کٹی پھٹی تشدد زدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا تو “باقیوں” نے یہ کہہ کر خود کو تسلی دی کہ “بلوچ آزادی کی باتیں کریں گے تو یہی ہوگا۔ ہم تھوڑی ایسے ہیں۔ سو ‘چورت مت مارو’۔۔”۔ پھر شہر کے قدیمی پنجابی اور ہندوستانی النسل “آباد کار” باشندوں کو گھات لگا کر مارنے کی نیو پڑی تو “باقیوں” نے سوچا، “یہ تو یوں بھی باہر سے آئے ہوۓ ہیں۔ ہم تو سدا سے یہیں رہتے ہیں۔ سو، ‘چورت مت مارو’۔۔” بیچ میں شیعہ، خصوصا ہزارہ برادری کی نسل کشی کا ڈول ڈالا گیا تو “باقیوں” نے اپنی اپنی فقہی اور لسانی شناخت کو ٹٹول کر اس کے اپنی جگہ ہونے کا اطمینان کرتے ہوۓ خود سے سرگوشی کی، “چورت مت مارو”۔۔ وقتا فوقتا، درجہ بدرجہ ایسے ہی معاملات مختلف شناخت رکھنے والوں کے ساتھ الگ الگ پیش آتے رہے اور “باقیوں” نے بالعموم ‘چورت مت مارو’ کا ورد جاری رکھا۔ پرسوں صبح سول اسپتال میں ہونے والے ہولناک سانحے نے البتہ الگ الگ “چورت” نہ مارنے والوں کو ہکا بکا چھوڑ دیا ہے۔ پہلو بچانے کا کوئی موقع ہی نہیں بچا۔ گھر گھر کوچہ کوچہ، بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، سیاست، اس آتش فشاں کی آنچ اور راکھ پہنچی ہے۔ کسی محلے، کسی سڑک کو جون ایلیا کے دل خراش و زہر خند شعر میں بیان کردہ لنگڑے جواز کا سہارا بھی نہیں مل رہا، “اس گلی نے یہ کہہ کے صبر کیا۔۔ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں”۔۔

اس واقعہ جانکاہ میں ہر طبقہ فکر، لسانی شناخت، مذہبی رجحان اور سیاسی میلان سے تعلق رکھنے والے جو نگینہ صفت دوست، عزیز، احباب، شاگرد کھوئے گئے ہیں، ان میں سے بیس سے اوپر سے تو اس خادم کا قریبی گھریلو تعلق تھا۔ باقی سب سے بھی اردو کہاوت کے مصداق، “تین، تیرہ ورنہ ستلی کی گرہ” کا رشتہ ہے۔ کچھ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا، تو کچھ کو گود میں کھلایا تھا۔۔ کس کس کو یاد کیجئے، کس کس کو روئیے۔۔ ان گم گشتگان کی تعداد توں توں بڑھ رہی ہے، جوں جوں زخمی ہونے والے قید حیات، بند غم، فوری درد اور بقیہ عمر کی شدید معذوری کے خدشے سے نجات پاتے جا رہے ہیں۔ جو زندہ رہ کر معذور ہو جائیں گے ان کا درد الگ گمبھیرتا لئے ہوۓ ہے اور جو گزر گئے ہیں، ان کے پسماندگان کی آئندہ زندگی کا ہولناک نقشہ الگ سے بے چین کیے ہوۓ ہے۔ کسی کے پاس “چورت” نہ مارنے کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔

یہ خادم علمی بے بضاعتی اور سیاسی بے بصیرتی کے سبب کوئی گہرا تجزیہ کرنے سے خود کو معذور پاتا ہے، اور اس سانحے سے اتنا نڈھال ہے کہ “بیرونی ہاتھ”، “سی پیک پر حملہ”، “امریکی پالیسیوں کا رد عمل”، “فلاں فلاں کا ایجنٹ” کی قبیل کی چورن فروشی کے پردے میں اپنی شکم پروری، نالائقی اور فتوے بازی کا جواب دینے کی ہمت بھی نہیں۔ مگر ایک مشاہدہ ایسا ہے جس کی کوئی لم سمجھ نہیں آ رہی، سو یہ خادم اس پر “چورت” مارنے پر مجبور ہے اور پڑھنے والوں سے بھی یہی گزارش کرتا ہے۔

مارے (اور غائب کیے) جانے والے چاہے کوئی بھی نسلی یا لسانی شناخت رکھتے ہوں، کسی بھی سیاسی مکتبہ فکر کے خوشہ چین رہے ہوں اکثر و بیشتر میں کچھ باتیں مشترک تھیں۔ ڈاکٹر چشتی مجاہد، پروفیسر فضل باری، حبیب جالب بلوچ، ایوب بلیدی ، جیلانی اچکزئی، عرفان علی خودی، صبا دشتیاری سے لے کر یار طرحدار باز کاکڑ، برخوردار گل زرین، عزیزم قاہر نورزئی، اشرف سلہری، عدنان کاسی وغیرہم سب کے سب، کچھ طبقات کے نزدیک “طے شدہ امور” پر “چورت” مارنے اور سوال اٹھانے کے خوگر تھے۔ “آباد کار” زد میں آے تو صوبے بھر میں استادوں کا کال پڑ گیا۔ بلوچوں میں چن چن کر سیاسی کارکنان کا صفایا ہو گیا۔

پشتونوں میں کسی کی خانہ ساز شریعت پر ایمان نہ لانے والے منقار زیر پر ہو گئے۔ ہزارہ اپنے محلوں میں محصور ہوۓ تو شعر و ادب اور موسیقی کی محفلیں بے رونق ہو گئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں، مسلسل جمہوری طرز پر تنظیم کاری کرنے والے دو ہی طبقے ہیں۔ صحافی اور وکلاء۔۔ اول الذکر کے لئے تو بلوچستان پہلے ہی جہنم بن چکا تھا، وکیل اور طرح منہ بند رکھنے پر آمادہ نہ ہوئے تو ایک جگہ جمع کر کے سب کے منہ مٹی سے بھر دیے گئے۔ اس خادم کو ان انفرادی اور اجتماعی قتلوں کی مبینہ ذمہ واری قبول کرنے والے یا ذمہ واری ڈال دیے جانے کے سزاواروں سے فی الوقت بحث نہیں، کہ اس میں قیاس آرائی کا جوکھم درپیش ہے۔ ہاں، مرنے والوں کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نسلی، سیاسی ، لسانی شناخت سے قطع نظر، ہر وہ شخص نشانہ بنتا ہے جو چراغ بکف ہوتا ہے؟

اے دوستو، دیدہ ورو، کچھ “چورت” مارو کہ میرے شہر میں دانش اور آگہی کا قتل عام اس قدر منظم کس طور ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments