ادبی آستانے اور سرپرستیاں


\"ghaffer
لاہور کا ادبی منظر نامہ گذشتہ پینتیس برسوں سے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور تاریخی تناظر میں بھی یہ صورت حال ہمارے پیش نظر رہی ہے۔جس طرح ہندستانی معاشرے میں صوفیا کے آستانے غریبوں اور مساکین کے سر پر دست شفقت رکھتے رہے ہیں، ایسے ہی ادب میں بھی کچھ سرپرست ہر دور میں موجود رہے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دینے والے مضافات سے آئے نئے لکھنے والے ہوتے ہیں جولاہور جیسے بڑے شہروں کو فتح کرنے آتے ہیں۔ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان ادبی سرپرستوں کے آستانوں پر حاضری دیں۔ ورنہ شہر میں ان کا قیام اور پذیرائی ممنوع قرار پاتی ہے اور ان کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں ملتی۔ مگر ان آنے والوں میں کچھ ایسے سرکش اور باغی بھی ہوتے ہیں، جو کسی کی تلمیذیت قبول کرنے کے بجائے اپنی الگ ریاست کا اعلان کرتے ہیں، اپنی الگ پہچان بناتے ہیں، اور اگر ان کی طاقت ایسی بن جائے کہ وہ ادبی سرپرستوں سے’ کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصولوں کے تحت سودے بازی کی پوزیشن میں آ جائیں تو ان کے الگ جزیروں کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے پر یہ ادبی سرپرست مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے باغی اور سرکش لوگ عام طور پر منفی سرگرمیوں سے آغاز کرتے ہیں، کسی ادبی وڈیرے کی کردار کشی کے لیے مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں، ان میں ادبی اخبار ، ہفت روزے، ماہنامے ، خلاف لکھے گئے مضامین کی فوٹو کاپیاں، ادبی وڈیرے کے مخالف گروپ میں پناہ لینا اور جملہ فوائد حاصل کرنا ، آج کل فیس بک پر کردار کشی کی مہم وغیرہ شامل ہے۔ یہ کھیل چند ماہ کا ہوتا ہے، اور ادبی وڈیرے کو کسی نہ کسی سطح پر ایسے سرکش لوگوں کو قبول کر کے اپنی طاقت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچانا ہوتا ہے۔

یہ معاملات نثر نگاروں کے مقابلے میں زیادہ تر شعرا کے ہاں پائے جاتے ہیں کہ جن کی فوج ظفر موج شہر میں موجود رہتی ہے اور ادبی سرپرستوں کو دوسرے شہروں میں اپنے حواریوں کے ساتھ جانا ہوتا ہے تا کہ ہر علاقے میں ان کی سرپرستی قائم ہو جائے۔ اس کام کے لیے مشاعرے کا میدان ہمیشہ ایک میدانِ کار زار ہوتا ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے کہ جس میں شرکت کے لیے شعرا اپنی خدمات خود پیش کرتے ہیں، اور اگر انہیں ایک دو بار نظر انداز کر دیا جائے تو وہ ادبی سرپرست کے خلاف ہی قلم بغاوت اٹھا لیتے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے تک تو مشاعروں میں شرکت اور شاگردوں کی تعداد پر ہی اپنی اپنی طاقت کا اظہار بنیاد رکھتا تھا مگر پاکستان بننے کے فوراً بعد ادبی رسائل کا ہتھیار بھی اس ادبی معرکے میں نہایت کارگر ثابت ہوا۔ اب یہ صورتِ حال تھی کہ ہر اہم ادبی سرپرست نے اپنا رسالہ شائع کرناشروع کر دیا اور کئی دوسرے ان کے حواری بن گئے۔یہ ادبی رسالے کئی دہائیوں تک بلاشرکتِ غیرے اپنے ادبی سرپرستوں یعنی اپنے مدیران کے لیے ایک موثر ہتھیار کے طورپر کامیابی سے استعمال ہوتے رہے۔

ان ادبی رسائل میں چھپنے والے خود کو مدیر کے بلا مشروط عقیدت مند ظاہر کرتے تھے۔ ان ادبی رسائل کی توسیع کے طور پر کچھ ادیبوں اور شاعروں نے کہ جو اخبارات کے ساتھ وابستہ تھے، ادبی صفحات کو بھی اس ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اپنا الگ وجود بنا لیا کہ جس سے انہیں بیرون ملک دورے اور اندرون ملک مشاعروں میں شرکت کے مواقع ملنے شروع ہو گئے۔کئی برس تک یہ ادبی صفحات نہایت اہم اور فوری اثرانداز ہونے والے ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔ ان صفحات کے انچارج صاحبان کے جو اسسٹنٹ تھے، یہاں تک کہ وہ بھی نہ صرف خود شاعر بن گئے بل کہ انہوں نے بھی منفعت کے راستے تلاش کرتے ہوئے اپنے کئی عقیدت مند پیدا کر لیے، کئی غیر ملکی دورے کیے یہاں تک کہ حج اور عمرہ کی سعادت بھی اپنے معتقدین کی مالی امداد سے حاصل کی۔ آج ان میں سے کئی ایک خود علمی وا دبی دنیا میں ایک ادبی سرپرست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بیرون ملک جا کر غریب بچیوں کی اجتماعی شادیوں کے اخراجات کے نام پر لاکھوں نہیں، کروڑوں کمائے۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بے گھری کا رونا رویا۔ اس غربت کے عالم میں کبھی ان کو پلاٹ خریدنے، کبھی اس کی رجسٹری کروانے اور کبھی مکان تعمیر کرنے کے نام پر چندہ دیا جاتا رہا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے الفاظ کی صورت میں، ’’چندہ برائے مسجد، مسجد برائے چندہ‘‘ کے نام پر اپنے اکاؤنٹ بھرتے رہے۔تحائف کی مد میں تو بہت کچھ لیا جاتا رہا۔

ادبی سرپرستوں کی دیکھا دیکھی آنے والی نئی نسل نے بھی اپنے ارد گرد کئی ذرائع ایسے پیدا کر لیے کہ جس کے سبب ان کی اپنے اپنے اداروں میں ایک ادبی سرپرست کی حیثیت تشکیل پانا شروع ہو گئی۔ ان لوگوں میں کچھ تو پبلشر صاحبان ہیں جو نہ صرف کتابیں چھاپ کر پیسے کماتے ہیں بل کہ جن لوگوں کی کتابیں شائع کر کے بیچتے ہیں، انہی سے پیسے لے کر پانچ ستارہ ہوٹلوں میں تقریباتِ رونمائی برپا کرتے ہیں، خود ہی اس تقریب کے صدر بن جاتے ہیں اور یوں اُن کی حیثیت ایک ادبی سرپرست کے طور پر مستحکم ہوتی چلی جاتی ہے، یعنی آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام، پیسے بھی کماؤ اور نام بھی بناؤ۔ دوسری جانب تعلیمی اداروں کے اساتذہ اکرام اور چیئر مین یا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں، جو اپنے کالج یا یونیورسٹی کا میگزین یا کتابیں جن پبلشرز سے چھپواتے ہیں، ان سے اپنی اور اپنی بیویوں کے شعری و افسانوی مجموعے مفت میں چھپوا لیتے ہیں۔ لاہور میں ان تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی ایک طاقتور ادبی سرپرست کے طور پر گذشتہ دو دہائیوں میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ کسی چھوٹے بڑے شاعر نے اگر اس تعلیمی ادارے کا سالانہ مشاعرہ پڑھنا ہے، تو اس ادبی سرپرست کے سامنے دو زانو ہونا ضروری ہے۔

ورنہ یوں سمجھیں آپ شعرا کے قبیلے سے خارج۔ اس لیے کہ ان اساتذہ اکرام کے پاس طالب علموں کی ایک فوج ہوتی ہے جو ملک بھر میں پھیلی ہوتی ہے۔ان شاگردوں کے کان میں جب یہ کہہ دیا جائے کہ وہ صاحب تو شاعر ہیں ہی نہیں، سمجھیں آپ کی ادبی موت واقع ہو گئی۔ یہ نہایت خوف ناک مافیا کی شکل اختیار کیے ہوئے ادبی سرپرست ہیں۔ ان اساتذہ کے ہاتھ میں ایک اور ایٹمی ہتھیار ہوتا ہے وہ یہ کہ جس شخصیت پر یہ چاہیں ایم اے یا ایم فل کا تھیسز کروا دیں۔ اگر یہ نہ چاہیں تو بے شک وہ کلاسیکی شاعر ادیب ہو، ادب میں بہت بڑا نام ہو، اس پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہو سکتا۔ یہ جن پبلشرز سے ہتھ جوڑی کرتے ہیں، ان پبلشرز کی شائع کردہ کتابوں والی شخصیات پر ایک اضافی سہولت کے طور پر تھیسز بھی کرواتے ہیں، اور یہ تھیسز پھر کتابی صورت میں شائع بھی کیے جاتے ہیں۔ اپنے شاگردوں کو ایسے موضوعات دیتے ہیں کہ وہ خود، ان کے دوست اور خاص طور پر اگر ان کی بیویاں بھی لکھنے لکھانے کا شوق رکھتی ہیں، تو ان کی ادبی خدمات کا تذکرہ ان موضوعات میں کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

ہر طرح کے ادبی سرپرستوں نے شیر شاہ سوری کی طرح ایک جاسوسی نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ ان ادبی سرپرستوں کے با اعتبار لوگ شہر میں شاعروں ادیبوں سے ملتے رہتے ہیں اور ہر شام کو اپنی رپورٹیں ان ادبی سرپرستوں کو پہنچاتے ہیں۔ کہاں ان کے خلاف کوئی سازش پنپ رہی ہے، کہاں ان کے خلاف محاذ آرائی ہو رہی ہے، کہاں کوئی ان کی غیبت کر رہا ہے؟ یہ ساری باتیں اس جاسوسی نظام کے تحت ان ادبی سرپرستوں تک پہنچتی رہتی ہیں اور وہ اپنی نوازشات وعنایات کے لیے غیر محسوس طریقے سے معلوم کرتے رہتے ہیں کہ کون اندر سے ان کے ساتھ ہیں؟ اور کون ان کے مخالف ہیں؟اس طریقہ کار نے ادیبوں شاعروں کو ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ جب بھی کوئی بات کرتے ہیں، ادھر ادھر خوف زدہ ہو کر دیکھتے ہیں اور سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں۔

ایک قسم اُن ادبی سرپرستوں کی بھی ہے کہ جو حکومت کے ایوانوں میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کا مشاعرہ ہو، ایوان صدر کا، وزیر اعظم ہاؤس کا یا بہاریہ مشاعرہ ہو، ان کی سرپرستی اور شفقت کے بغیر کوئی شاعر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، شمولیت ناممکنات میں سے ہے۔ ان کے دروازوں پر ایسے ایسے قد کاٹھ والے شعرا بھی کورنش بجا لاتے دکھائی دیتے ہیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ یہ جسے چاہیں، شاعر بنا کر ان مشاعروں میں پیش کردیں اور جسے چاہیں اس کے لیے ان اداروں میں داخلہ ممنوع قرار دیں۔ کسی ادبی سرپرست کے دست شفقت کے بغیر کوئی ادیب شاعر اپنی شدید بیماری کی حالت میں کسی مالی معاونت کا سزاوار نہیں ٹھہرتا۔ اگر یہ مہربان ہیں تو آپ کا ان سرکاری ادبی اداروں سے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کروا دیں گے، آپ بے شک اس وظیفے کی رقم سے اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوائیں یا کتاب چھپوائیں، یہ آپ کی مرضی ہے۔

اگر آپ کا کسی اخبار ، کسی ادارے، کسی ادبی سرپرست کے ساتھ تعلق نہیں ہے تو بحیثیت لکھاری ،آپ کا مستقبل تاریک ہے۔ اگر آپ کسی ایسے ادارے میں کام کرتے ہیں کہ جہاں مشاعرے کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں ہے، آپ کو شاید ہی کوئی کسی مشاعرے میں بلائے، کوئی آپ کی تخلیق اپنے رسالے یا اخبار میں شائع کرے۔اگر ایسا کچھ بھی آپ کے پاس نہیں ہے تو پھر ایک اور راستہ ہے اور وہ یہ کہ آپ کی جیب میں پیسے ہونے چاہیے۔ آپ ایک ادبی تنظیم بنائیں، اس کے مشاعرے شروع کر دیں، لوگوں کو ہر سال اپنے باپ، دادا، یا کسی مرحوم قریبی رشتہ دار کے نام کسی ایوارڈ کا اجرا کردیں۔باہر سے آنے والے متشاعر قسم کے لوگوں کے اعزاز میں مشاعرے کروائیں اور کھانے کی دعوتیں دیں، ان ادبی سرپرستوں کو بلائیں، یہ کچے دھاگے میں بندھے چلے آئیں گے، آپ کا کھانا کھائیں گے، آپ کے گن گائیں گے، آپ کے لیے اپنے دل کے گوشے میں آپ کے خرچ کرنے کی استطاعت کے مطابق جگہ بنائیں گے اور آپ کو اپنے گروہ میں ، اپنے دربار میں ایک کرسی عطا فرمائیں گے۔ جس کو یہ سند دیں گے، وہی قابل تکریم ٹھہرے گا، جس کو یہ رد کر دیں گے، وہ ادب کے افق پر کہیں دکھائی نہیں دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments