انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر سوال بھی جرم ٹھہرا!


\"Afshanبلوچستان کی عجب قسمت ہے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بننے کے لیے اپنے جوان لاشے دفنایا کرتا ہے۔ 8 اگست کو ایک سفاک منصوبے نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت وکلا برادری کی پوری ایک نسل ختم کرڈالی اور دو ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین بھی شہید ہوگئے۔
سماجی رابطے کی ویب سئٹ پر ایک وکیل برخوردار خان اچکزئی کے مطابق انہیں 6 سال ہوئے لا لائیسنس لیے۔ گزشتہ ستمبر بلوچستان بار ایسوسی ایشن جوائن کیا۔ نو ماہ کوئٹہ گزارے اور اب ان کے بیچ کے سب لوگ بلوچستان میں ٹاپ پریکٹسنگ وکیل بن گئے ہیں کیونکہ فی الحال وہ زندہ ہیں۔ برسوں کی قانون کی تعلیم، کچھ برس نچلی عدالتوں کے دھکے اور آٹھ دس سال اعلیٰ عدالتوں کا تجربہ۔۔۔ حاصل وصول کیا ہوا؟ قربانی کا بیانیہ اور ہم نہیں بھولیں گے وغیرہ؟ اس سے تو بہتر تھا کہ ان جوانوں کی مائیں ملک کی حفاظت کے لیے انہیں سرحد پر ہی بھیج دیتیں۔ کیا ضرورت آن پڑی تھی دیگر عصری میدانوں میں بچے کھپانے کی۔ تمام سینیئر وکلا اور بیرسٹرز شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ شہدا جو لاپتہ افراد کے مقدمات لڑ رہے تھے، بلوچوں کے لیے برابری کے انسانی حقوق مانگنے میں پیش پیش تھے، مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں سوال اٹھانے کی جسارت کیا کرتے تھے، ان سب کے یکدم چلے جانے سے اب سوچیے کہ سینکڑوں جونیئر وکلاء بے روزگار ہوگئے۔ ان کے گھروں میں بھوک کیسے ناچے گی۔

دو روز سے خود کو یہ سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ ریاست کے بیانیے سے مبنی بر اختلاف سوالات کر کے غدار اور ایجنٹ کہلوانے سے بہتر ہے خاموش رہوں۔ لیکن سوال اور جستجو کی لَت لگ جائے تو کہاں چھوٹتی ہے۔ کہتے ہیں ردِعمل میں مت بہیں، طنز نہ کریں، ریاست کا ساتھ دیں اور یہاں ساتھ سے مراد سیکیورٹی اداروں کو جوابدہ نہ سمجھنا ہے۔ مجھ پر لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے نشاندہی کرنا فرض ہے کہ آپ کے بیانات میں کتنا اور کہاں کہاں جھول ہے۔

فرمایا \”آپریشن ضربِ عضب سے گھبرا کر شدت پسند عناصر بلوچستان میں آگئے ہیں۔ \” مناسب ہوگیا۔ تو کیا اس سے قبل بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کے ماتھے بِنا فکر کے چوما کرتی تھیں؟ چلو مان لیا ایک منٹ کو لیکن پھر مجبور ہوں آپ کو 8 اگست 2013ء یاد کروانے پر۔ پولیس لائنز کوئٹہ میں ایک روز قبل فائرنگ سے شہید ہوجانے والے ایس۔ ایچ۔ او محب اللہ جان  کے نمازِ جنازہ میں شریک لوگوں کو خود کش حملے میں شہید کردیا گیا۔ جن میں ڈی۔ آئی۔ جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت 39 افراد شامل تھے۔ اس سے پہلے 16 جون کو سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ ہوا 14 طالبات شہید ہوئیں جبکہ زخمیوں کو جونہی بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا تو دوسرا دھماکہ ہوا اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، اسسٹنٹ کمشنر اور ایف۔ سی کے جوانوں سمیت مزید شہادتیں ہوئیں۔ یہ محض تین واقعات کی تفصیل اس لیے یاد کروائی ہے کہ کوئٹہ شہر نے 8 اگست 2016ء پہلے بھی بھگتایا ہے جناب۔ وہی انداز، وہی طریقہ واردات اور تاریخ بھی۔

اگلا بیان تھا \”راء نے کروایا ہے۔\” حالیہ کوئٹہ سانحے میں ایران، افغانستان یا بھارت کسی کا بھی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے۔ بالکل بیرونی فنڈنگ ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا ہم یہ بات نظر انداز کر دیں کہ گھر کے اندر سے مدد مِلے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن ہی نہیں؟ حیرت ہے کہ بِنا تفتیش پندرہ منٹ میں نتیجہ کیسے اخذ کرلیا گیا۔ اور پھر ہم عامیوں کو سوال کی اجازت بھی نہیں۔ مانتی ہوں کہ ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں شرپسندوں کو دہائیوں تک اثاثے قرار دے کر دودھ پِلایا گیا اور قوم حالتِ جنگ میں ہے لیکن ایسا شہر جہاں ایف سی اہلکاروں اور چیک پوسٹس کی تعداد گِنواتے سانس پھول جائے وہاں ایک منظم منصوبے کی تشکیل ہفتوں نہیں مہینوں میں مکمل ہوئی ہوگی اور تعمیل جب ہوئی تو ریپڈ رسپانس فورس کہاں تھی؟

\"ASWJ\"آپ یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ ہسپتال میں افراتفری کے دوران کوئی داخل ہوگیا۔ منظم منصوبہ بندی سے تیسری بار اسی طرز کا تکنیکی طور پر فول پروف منصوبہ تھا۔ پہلے صدر بار ایسوسی ایشن کو بطور چارہ نشانہ بنایا جانا اور اگلی قسط پہلے سے تراش کر شعبہ حادثات میں فِٹ کر رکھی تھی۔ یاد رہے اس وقت ہسپتال میں معمول کی آمد و رفت ہوگی۔ کوئی ایمرجنسی یا افرتفری نہیں تھی۔ چھبیس ایجنسیاں، نیکٹا، نمبر وَن انٹیلیجنس کے دعوے اور ایسا طمانچہ؟ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کا سُنا تھا کہ کوئی کمال ہی اقدام ہے۔ تو یہ جو کالعدم جہادی تنظیمیں ملک بھر میں دندناتی پھر رہی ہیں۔ نام بدل کر چندے خیرات کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ عام شہریوں میں نفرتوں کے بیج بوتے اہم عسکری شخصیات کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھائے ریلیاں نکال رہی ہیں۔ اِن اثاثوں بارے کب ایکشن لیا جائے گا؟

پھر بیان آیا کہ اقتصادی راہداری دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ تو صاحب 3 ستمبر 2010ء کو میزان چوک کوئٹہ میں یوم القدس منانے والے 67 شہید، 10 جنوری 2013ء کو علمدار روڈ پر 106 شہداء  کے لواحقین کِس سے پوچھیں اور ان جیسے درجنوں واقعات  کو سانحات بنانے والے کِس راہداری سے حسد کر رہے تھے؟

پھر کہا کہ آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ تو یعنی محفوظ ترین نیول بیسز، زیارت ریزیڈینسی، واہگہ بارڈر سافٹ ٹارگٹ تھے؟ کوئٹہ ہی میں کمشنر آفس کے قریب ڈی آئی جی فرنٹیئر کور برگیڈیئر فرخ شہزاد کی رہائش گاہ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی جاتی ہے جِس میں ان کی اہلیہ، ایف سی کا کرنل اور دیگر اہلکاروں سمیت تیس افراد جان سے گئے۔ شاید آسان ہدف ہونے کے باعث ایسا ممکن ہوا۔ ویسے جی ایچ کیو پر حملے میں کتنے گھنٹوں تک آپریشن جاری رہا؟ چلو مان لیا کہ گلشن پارک لاہور اور چارسدہ یونیورسٹی آسان ہدف ہوں گے تو کیا آرمی پبلک سکول بھی اتنا ہی سافٹ ٹارگٹ تھا؟ وہاں تو زخمی بچوں کو بیرون ملک تفریحی دوروں پر بھیج دیا گیا تو یہ جو وکلا کی ایک نسل قبروں میں جا پڑی ہے ان کے لواحقین کیا اب صرف نوحہ وغیرہ لانچ کر کے بہلائے جائیں گے؟ کیمرہ مین شہزاد اور محمود خان کے یتیم بچے دشمنوں کو پڑھانے سے قبل خود پڑھا پائیں گے؟

ان سوالات کو دبانے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ جو کرے اس کو غدار کہلوایا دیا جائے۔ را ایجنٹ قرار دے کر تذلیل کی جائے۔ پھر چاہے وہ آئینِ پاکستان کے تحفظ کا عہد کر کے رکن قومی اسمبلی ہی کیوں نہ بنا ہوا ہو۔ کیا ہم اپنے محافظوں سے وجہ پوچھنے کا حق اختیار بھی نہیں رکھتے؟ حب الوطنی کا تمغہ جیتنے کو ہر غلطی، سیکیورٹی لیپس اور بے ڈھنگے بیانیے کا دفاع خود پر فرض کر لیں؟

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جشنِ آزادی کی خوشیاں منانے کا عندیہ دے کر سوگواران کی ہمت بندھانے کا نیا راستہ تلاش کیا ہے۔ جِس گھر میں ستر سے زائد لاشیں پڑی ہوں، معاشرے کا باشعور ستون ہِل گیا ہو وہاں قبر کی مٹی سوکھنے والی مثال کا وقت بھی نہیں آیا۔ تدفین سے قبل تالیاں پیٹ پیٹ کر \”مِلی جوش و جذبے\” کے سٹیرائڈز لگائے اور پھانکے جا رہے ہیں۔ آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد یومِ قائد کی تقریبات اور کرسمس سادگی کے آخری دائرے میں چلی گئی تھیں۔ تو کیا میرے بلوچ بھائیوں کی اتنی بھی وقعت نہیں؟

اگلے روز قومی اسمبلی میں کوئٹہ سانحہ پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ جی ہاں وہی مذمتی قرارداد جو سانحے کی شام کورم پورا نہ ہونے کے باعث کھٹائی میں پڑ گئی تھی لیکن معمول کی کارروائی روک کر ہمارے عوامی نمائندوں نے تقاریر کیں اور خوب آنسو بہاتے بلوچستان میں خونِ ناحق پر افسوس کا اظہار کیا۔ اور آج سنا ہے قومی اسمبلی کے اہم ترین اجلاس میں پھر کورم پورا نہیں تھا۔ یہاں کون ہے جو فرائض کی ادائیگی میں ڈنڈیاں نہیں مار رہا؟

قیامتِ صغریٰ کی اصطلاح کب تک ہمارے ہاں بار بار دہرائی جاتی رہے گی؟ یہ کہہ دینا کہ ہزاروں کی تعداد میں سالانہ دھماکے اب سینکڑوں میں آگئے ہیں شاید ریاست کو تو مطمئن کرسکتا ہے لیکن کسی یتیم، بیوہ اور بے سہارا لاغر ماں کو ان اعداد و شمار سے بہلانا ممکن نہیں ہے۔ یہ طویل جنگ ہے، لڑ رہے ہیں اور جانے کب تلک لڑتے رہیں لیکن خدارا فوری ردِعمل دیتے اپنے الفاظ، عہدہ اور بیان کے دور رس نتائج کو سامنے رکھ لیا کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments