پاکستان – میری روح چھلنی چھلنی


\"rabiaمجھ پر خوبصورت موسم اُترتے ہیں، حسین وادیاں مجھ میں بستی ہیں، دلکش نظارے میرے گرویدہ ہیں،خوشحالی کا سبز رنگ مجھ پر فدا ہے، دھنک رنگ مجھ پر چھاتے ہیں، نیلے آسمان اور گہرے سمندر مجھے نکھارتے ہیں، اٹکھیلیاں کرتی ندی نالے، جھرنے، آبشاریں مجھ میں رہتی ہیں، دنیا کی بلندو بالا چوٹیاں اور پہاڑ میرے سینے پر شان سے کھڑے ہیں۔

مجھ میں رہنے والوں نے غلامی اور بے مروتی سے تنگ آکر میرے بارے میں سوچنا شروع کیا اور چاہا کہ میری خوبصورتی، دلکشی پر حکمرانی کرنے والا بھی جامع، معتبر، مدبر اور کامل ہونا چاہیے، دنیا کے بہترین مذہب کے زبردست، بہترین اور منتخب لوگوں کو مجھ پر حکومت کرنی چاہیے، اور سب کے فیصلے ان کی مرضی سے ہونے چاہییں۔

پھر سینوں میں اک آگ بھڑکنے لگی، آزادی کی، محبت کی، جدوجہد کی۔

انہی پیاروں میں سے ایک ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جاگتی آنکھوں سے میرا خواب دیکھا اور بیرسٹر محمد علی جناح نے خواب کو مکمل کرنے کی ٹھان لی۔ ان کی قیادت میں منتشر ہجوم، قوم بن کر اُبھرا، مجھے پاک قرار دے کرمیرے سینے پر لاکھوں مسلمانوں نے سجدہ شکر ادا کیا، کئی غیر مسلموں نے محبت اور امن کی مٹی کو آنکھوں سے لگایا، تاکہ مجھ میں بسنے والے آزادی سے اپنے عقائد پر عمل کر سکیں، اپنے مذہب کی پاسداری کرسکیں۔

اُس دن بھی لاکھوں افراد کو کاٹ ڈالا گیا، خنجر، تلواریں، تیر، جس کے ہاتھ جو آیا بے یار و مددگار لوگوں پر برسا کر انہیں مار دیا گیا، سیکڑوں سسکتے زخمی حالت میں سرحد عبور کر آئے، عزتیں پامال کی گئیں، ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئیں، لوٹے ہوئے قافلے (چھوٹے گروہوں) کی شکل میں لوگوں نے میری طرف آنا شروع کر دیا، کل کے دوست آج کے دشمن بن گئے، پڑوسی نے ہی پڑوسی کا گلہ کاٹا، جنہیں اپنا کہتے تھے برسوں کا یارانہ تھا، انہوں نے ہی عزتوں پر ہاتھ ڈالا۔ ۔ ۔

بمشکل تمام لاکھوں افراد ہجرت کر کے یہاں پہنچے، یہاں بسنے والوں نے انہیں سینے سے لگایا، اپنے گھروں میں بسایا، میں امن کا گہوارا بن گیا، میرے لیے لباس کا انتظام کیاگیا، سبز اور سفید رنگ کے لباس کو بلند کیاگیا، سفید رنگ کو اقلیتوں سے منسوب کیا گیا، 8 اگست کو طے پایا کہ میرے پرچم پر چاند سربلندی اور ستارہ ایمان کی علامت ہوگا،

۔21 اگست 1949 کو احمد غلام علی چھاگلہ کی قومی ترانے کی دھن اختیار کی گئی۔

7 اگست 1954 کو حکومت پاکستان نے قومی ترانے کی منظوری دیدی، قومی ترانہ ابو الاثرحفیظ جالندھری نے احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کے مطابق لکھا۔

اگست 1960 میں اسلام آباد کو پاکستان کا وفاقی دارالحکومت قرار دے دیا گیا، اس سے قبل پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا۔

14 اگست 2004 کو پاکستان کو سب سے بڑا قومی پرچم بنایا گیا، جو 340 بائے 510 فٹ کا تھا۔ ۔ ۔

وقت کے ساتھ عمر بڑھتی گئی۔ میرے وقار میں اضافہ ہوا، لیکن میرے سینے میں دفن میرے سپوت تاحال اپنے لہو کا حساب مانگ رہے ہیں، اہ وبکا میری فضاوں میں گونج رہی ہیں۔

ہر روز ہرسال کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ ہوتا ہےکہ میری خوشی کرب میں ڈھل جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں میری روح پر پھر وار کیاگیا، زخم اپنوں کے تھے یا اپنوں کی لاپرواہی کے، اس کا جواب تو سیاست کی نذر ہوگیا۔

سیکورٹی اداروں، اور حکمرانوں کے پاس مجھ پر لہو بہانے کا کوئی جواب موجود نہیں۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اور بس سوال!!!

وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس میں قومی ایکشن پلان کے نکات پر عملدارآمد تیز کرنے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے پر اتفاق کیا گیا۔

لیکن آج پھر فیڈرل شریعت کورٹ کے جج ظہور شاہ وانی کے قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا جس میں 14 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

8 اگست 2016 کو میرے بدن کے ایک حصے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نامرادوں نے اس جگہ کو نشانہ بنایا جہاں مزہب، رنگ ونسل سے آزاد ہر اک کی مسیحائی کی جاتی ہے، سول اسپتال میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں 75 کے قریب افراد نے جام شہادت نوش کیا 2 سو کے قریب زخمی ہوئے، ان شہدا و زخمیوں میں میرے وہ سپوت شامل ہیں جو پڑھے لکھے، دانشور، مفکر، سمجھے جاتے ہیں، جن کے ہاتھ میں میرا نظام ہے، یہ افراد بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے دو سابق صدور سمیت بلوچستان بار کونسل کے ممبران ہیں۔

کوئٹہ میں گذشتہ 11 سالوں سے بار اور بینچ مسلسل حملہ آوروں کے نشانے پر ہے۔

اس عرصے میں پر تشدد واقعات میں تین ججز اور 41 سے زیادہ وکلا ہلاک ہو چکے ہیں۔

شہر پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھرپور نگاہیں اور انتظامی گرفت روز بروز مضبوط ہونے کے باوجود دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ رک نہیں پایا۔

پولیس کہتی ہےکہ منو جان روڈ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد جب وکلا کی بڑی تعداد اپنے رہنماﺅں سمیت لاش وصول کرنے کے لئے سول اسپتال پہنچنی تو اسی وقت خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ دھماکہ انتہائی شدید تھا جس کے نتیجے میں وہاں موجود افراد کے چھیتڑے اڑ گئے جبکہ ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھی۔ دھماکے کے شہدا میں آج ٹی وی اور ڈان ٹی وی کے کیمرہ مین بھی شہید ہوئے، گزشتہ دس سال کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں اور کیمرہ مینوں کی تعداد 43 ہوگئی ہے۔

دھماکے کے بعد کوئٹہ شہر میں شدید خوف وہراس پھیل گیا اورلوگوں نے اپنی دکانیں بند کرلیں۔ موقع پر موجود افراد نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال کے مختلف شعبوں کو پہنچایا۔

برطانوی اخبار\” ڈیلی میل\”نے دعوی کیاہے کہ داعش نے کوئٹہ میں خود کش دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے \”اے پی \” کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے کالعدم جماعت الاحرار نے کوئٹہ سول اسپتال میں خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

8 اگست 2013 کو کوئٹہ کی پولیس لائن میں نمازِ جنازہ کے دوران خودکش دھماکے میں اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت تیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہو گئے تھے

10 جنوری 2013 کو کوئٹہ میں جمعرات کی شام میزان چوک پر پہلا دھماکا ہوا اور پھر رات میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے علمدار روڈ پر ہوئے۔ جن میں 120 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے

\’اجاڑ راستے، عجیب منظر، ویران گلیاں، بازار بند ہیں

کہاں کی خوشیاں، شہر کی گلیاں لہو لہو ہیں

1947 سے لے کر اب تک اگر میں اپنی حالات زندگی پر نظر ڈالوں تو میرے دشمن وہ لوگ ہیں جو میری آنے والی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہونے دے رہے، ان کا معاشی و نفسیاتی استحصال کیا جارہا ہے، ان کی تربیت سے ہنر و صلاحیتوں کو چھینا جا رہاہے، اور جو کچھ کر پائے ہیں وہ مجھ سے منہ موڑ کر دیار غیر میں آباد ہوگئے ہیں، وہ مجھے سنوارنے کی بجائے اپنے اہل خانہ کو بھی رفتہ رفتہ یہاں سے لے جارہے ہیں، غیر ملکی یہاں سفیر یا سیاحت کی غرض سے نہیں بلکہ جاسوسی کی غرض سے رُخ کر رہے ہیں۔

اے میری قوم پہچانو میری عظمت کو، میرے وقار کو، اپنی خوشی کو، اپنی آزادی کو اپنے جوش و ولولے کو اپنی آزادی کو۔ ۔ وطن سے محبت انسان کے خمیر میں شامل ہے۔ وطن انسان کو شناخت، پہچان اور شان عطا کرتا ہے۔ کوئی کتنا ہی نامور اور شہرت یافتہ کیوں نہ ہو اس کی شان اور پہچان اس کی سر زمین سے ہی قائم ہوتی ہے۔

زمین کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے،

خدا کرے،خداکرے،خدا کرے صدا یہ روشنی رہے،

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments