سائبر کرائم بل۔ ہم اپنوں سے پیار نہیں کرتے


\"wisi

ہم لوگ اکثر بتیاں دیکھنے پشاور سے اسلام آباد آیا کرتے تھے۔ ہمیں اسلام آباد میں رہنے والے اپنے دوست بتایا کرتے۔ وہاں کی لڑکیاں ہم جیسوں کو دکانوں کے باہر ونڈو شاپنگ کرتے دیکھ کر پہچان لیتی تھیں۔ یہ لڑکیاں آپس میں کہا کرتی تھیں کہ یہ پشاور سے آیا ہے لائٹیں دیکھے گا، کون کھائے گا شام کو واپس پشاور چلا جائے گا۔

ہم دوست کم از کم یہی کرتے تھے۔ مارکیٹوں میں پیدل پھرتے دکانوں کے اندر کم جاتے تھے۔ ہمارے پاس اپنی باڑہ مارکیٹ تھی تو کسی دکان میں کیا دلچسپی ہوتی۔ کون خرید کر کھاتے شام تک واپس روانہ ہو جاتے۔ یہ سب کر کے یاد آجاتا کہ پھر وہی کام کیا ہے جو اسلام آبادی دوست کہتے ہیں۔ آپس میں وعدہ کرتے کہ ایسے دوستوں کو کمبل کٹ لگائیں گے۔

ہمارے ساتھ پشاور سے اسلام آباد آتے ہوئے بہت بری ہوا کرتی تھی۔ کوئی نہ کوئی دوست اپنے گھر سے نئی گاڑی کا بندوبست کرتا۔ ہم اپنی طرف سے جتنا کر سکتے تھے معزز قسم کا تیار ہوتے۔ اٹک پل سے پولیس ہماری آؤ بھگت کرنا شروع کرتی۔ ہر ناکے پر ہم لوگوں کو روکا جاتا۔ تلاشی دینا پڑتی۔ ہمارے گاڑی کے کاغذات پر ہمیشہ اعتراض ہوتا۔ ہم ہمیشہ پولیس والوں کی خدمت کرتے بار بار کرتے۔

ایک بار پشاور سے یہ طے کر کے چلے کہ مجھے پنجابی میں پنجاب پولیس سے بات کرنی ہے۔ کوئی لحاظ تو وہ اپنے ہم زبان کا کریں گے ہی۔ ہوا یہ کہ پولیس والوں نے پنجابی پشتو دونوں زبان میں بولتے دیکھ کر شناختی کارڈ دیکھا۔ ہم سب پکڑے گئے اور پھر زیادہ خدمت زیادہ نذرانہ دے کر رہا ہوئے۔ یہ ایک روٹین تھی جو پشاور والوں کے ساتھ ہوا کرتی تھی جو بس میں آتے یا اپنی گاڑی میں۔ ایک سا حسن سلوک ہوتا۔

یہ سب تب ختم ہوا نہ ہونے کے برابر رہ گیا جب موٹر وے بنا موٹر وے پولیس آئی۔ موٹر وے پولیس کو ایک تھینک یو کہنا بنتا ہے جنہوں نے ہمیں بار بار جرمانے کئے۔ جو ہم نے بہت شوق سے بھرے کئی بار موٹر وے پولیس ہماری مدد کو آئی گاڑی خراب ہونے پر یا کسی ضرورت پر۔ اس پولیس نے کبھی حد سے تجاوز نہیں کیا قانون کی جتنی خلاف ورزی کی اتنا جرمانہ کیا۔ ناجائز تو چھوڑیں جائز بھی تنگ نہیں کیا لائسنس اگر کبھی نہ ہوا تو جرمانہ کبھی کر دیا کبھی چھوڑ دیا۔

موٹر وے پولیس نے لوگوں کو اپنا سمجھا ان سے ایک پیار کا تعلق بنایا۔

سائبر ورلڈ میں پھرتے اب پندرہ اٹھارہ سال ہو گئے۔ آئے ادھر بھی ہم بتیاں دیکھنے ہی تھے۔ پھر تعلق بنے۔ دوستیاں ہوئیں ۔ خیالی پلاؤ پکائے ، وہ وقت بھی جلد آ گیا کہ اپنے خیالی پلاؤ پھر کھائے بھی۔ یہ نئی دنیا تھی ، اس جگہ ہم نے سیکھا کہ خاتون سے بات کیسے کرنی ہے۔ ہم سب نے یہ سیکھا ۔ یاد رہے کہ ہماری اکثریت کو گھروں میں بھی اپنی ماؤں بہنوں سے بیٹھ کر بات کرنے کی سہولت حاصل تھی نہ توفیق ہوتی تھی۔

یہاں ہمیں ان استادوں سے فیض پانا نصیب ہوا۔ جو ہمارے شہروں سے دور بلکہ اکثر تو دوسرے ملکوں میں رہتے تھے۔

یہی سوشل میڈیا ہے جو لوگوں کی آواز بنا ہے۔ ہم سب جو کبھی صحرا کی بے آواز صدا تھے۔ آج ہماری سب کی مشترکہ طاقت سے سرکار بے بس ہے۔ لوگوں کو ایک طاقت ملی ہے۔ یہ طاقت ایسی ہے کہ ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اب سب سے زیادہ سوشل میڈیا کو فوکس کرتی ہیں۔ سرکار طریقے ڈھونڈتی پھرتی ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا پر ایک حد سے زیادہ بزت نہ ہو۔ کوئی ایشو یہاں اہم ہو جائے اور اس کا نوٹس نہ لیا جائے یہ ممکن ہی نہیں۔

سوشل میڈیا نے طاقت پکڑی ہے تو یہاں کے امکانات بہت سی برائیوں کو گھسیٹ لائے ہیں۔

یہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس پر روک ہونی چاہیے۔ خواتین اب نشانہ بنتی ہیں۔ مختلف طریقوں سے انہیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ نوجوان جب کہیں کمند ڈالنے میں ناکام رہتے تو اپنا غصہ یوں بھی اتارتے ہیں کہ فوٹو شاپ استعمال کر کے لڑکیوں تنگ کرنے لگتے۔ یہی فوٹو شاپ اپنے مخالفین کے خلاف بھی بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ ہماری سوسائٹی ایسی ہے کہ بات غلط رخ چلی جاتی اور بگڑ جاتی ہے۔

افواہیں ہیں جو یہاں خبر کی صورت پھیلتی ہی ہیں۔ جعلی خبریں الزام تراشی منصوبہ بنا کر بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے لیڈروں پر جھوٹے الزامات لگتے ہیں۔ اہم لوگوں کی دو نمبر آئی ڈی بنائی جاتی ہیں۔ ان کی جعلی آئی ڈی سے غلط خبریں جھوٹے بیانات جاری ہو جاتے ہیں۔

دہشت گردوں نے بھی شدت پسندوں نے بھی سوشل میڈیا کو ایک موثر ٹول کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا ہی کو فرقہ واریت اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو نفرت کا نشانہ بنانے کے لئے ان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔

سائبر کرائم بل بہت بروقت بھی ہے۔ اس کی ضرورت بھی تھی ۔ اس میں جرائم کی نشاندہی بھی درست کی گئی ہے۔ اعتراض ان جرائم کی سزاؤں پر ہے۔ ان جرائم کی سزائیں بہت زیادہ ہیں۔ جرم کی تشریح کرتے ہوئے بہت ابہام باقی رکھے گئے ہیں۔ ان ابہامات کی وجہ سے ایک ہی جرم پر پر مختلف دفعات لگنے کا امکان ہے۔ یہ امکان پولیس کو چائے پانی کے نئے ذرائع فراہم کرے گا۔

ہم جب نیا قانون بنا رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس پر عملدرآمد کے لئے ایک اتھارٹی بھی نئی بنا لیں۔ سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانا ہے تو نظام انصاف بھی پر آن لائن ہی فراہم کریں۔ نئے لوگوں سے قوانیں پر عمل کرائیں۔

ہم نے یہ نئے قوانین پرانی پولیس کے ذریعے استعمال کیے تو ہم اپنے لوگوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ اس قانون کا نشانہ بننے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوں گے۔ ہماری آبادی کی بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ تبدیلی چاہتے ہیں ان کی انرجی انہیں ٹک کربیٹھنے نہیں دیتی۔ یہ اپنے سیاستدانوں سے تنگ ہیں۔ یہ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں۔

ان کو جو سمجھ آتی ہے یہ اس کے مطابق اپنی بات کہتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر تجاوز کرتے ہیں۔ غلط اطلاعات کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ خود غلط منصوبے بناتے بھی ہیں۔ ہلکی پھلکی سازشیں بھی کر لیتے ہیں۔ ان سب کو پیار سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پولیس کے حوالے کرنا جس کا مزاج ہی ملزم اور مجرموں کے ساتھ گالیوں تشدد کی تاریخ رکھتا ہے بہت زیادتی ہو گی۔

اگر کوئی اتھارٹی بنے جہاں آن لائین شکایات درج ہو سکیں۔ منٹوں میں فیصلے ہو سکیں کہ سب کچھ تو سامنے ہوتا ہے۔ جرمانے یوٹیلیٹی بلوں میں انٹرنیٹ کنکشن اور موبائل ری چارج میں وصول کیے جاتے۔ سزا میں یہ یوٹیلیٹیز ہی کچھ وقت کے لئے بند یا معطل کی جاتیں تو بہت کافی ہوتا۔

بہت بڑی اکثریت جو چھوٹے موٹی غلطیاں حماقتیں کرتی ہے۔ ان جرمانوں سے ہی سدھر جاتی۔ مائیں جب بچوں کو پہلی یا دوسری بار جرمانہ ہوتے دیکھتیں تو چارہ کرتیں۔ ماں باپ دیسی طریقے سے بچوں کو ایسے سمجھاتے۔ قوم ایک چھلانگ مار کر قانون پسند ملکوں کے نزدیک پہنچ جاتی۔ ہم بھی قانون پسند ہو جاتے ۔ جیسے ہمیں موٹر وے پولیس نے روڈ پر کر دیا ہے۔

یہ چھوٹے چھوٹے جرمانے باقی تو چھوڑیں شدت پسند فکر کے حامی لوگوں کو بھی سیدھا کر دیتے۔ یہ جو سوکھے دریا نالوں میں تیرتے پھر رہے ہیں کہ انہیں دنیا فتح کرنی ہے۔ پانچ سو ہزار کے جرمانوں سے ہی ان کی اکثریت گھوڑوں سے اتر آتی۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے موثر قوانین کی ضرورت ہے۔ ان کی کوئی درجہ بندی بھی تو ہونی چاہئے۔ حکومتوں کو اپنے مخالفین کو تب بھی برداشت کرنا چاہئیے جب وہ تھوڑا تجاوز کر رہے ہوں۔ سب کا ملک ہے مل جل کر رہنا ہے۔ سائبر ورلڈ سوشل میڈیا کو امکانات کی علم کی دنیا بنانا ہے۔ اس میں ان لوگوں کو سہولت دیں جو ابھی بتیاں دیکھتے ہی پھر رہے ہیں۔ وہ کچھ خواب دیکھیں گے بہت کچھ سیکھیں گے۔ پھر تجربوں کے بعد کارآمد شہری بن ہی جائیں گے۔

ہم قانون بنا کیوں رہے ہیں۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم قوانین کا غلط استعمال کر کے شدت پسندوں کو دہشت گردی کی جانب دھکیلانا چاہتے ہیں یا اس کے نرم استعمال سے شدت پسندوں کو معتدل کر کے دہشت گردوں سے توڑنا مقصد ہے۔

سائبر کرائم بل دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز اپنے لوگوں سے پیار نہیں کرتے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments