ٹھگ کی چٹکی


\"Azeem-Ur-Rehman-Usmani\"

کراچی کے ایک معروف علاقے کا نام ”ایمپریس مارکیٹ صدر“ ہے۔ یہاں سارا وقت لوگوں کا ایسا اژدہام ہوتا ہے کہ کندھے سے کندھا چھلتا ہے۔ انواع و اقسام کے کھانے، کپڑے، زیورات، نایاب پرندے، طرح طرح کے جانور، گھڑیاں، دوائیں، الیکٹرانک آئٹمز، کمپیوٹر پروگرامز، ملکی و غیرملکی موویز، تعلیمی کورسز، عامل، جادوگر ۔۔۔۔ غرض ایسا کیا ہے؟ جو آپ کو اس چھوٹے سے دھول اڑاتے علاقے میں میسر نہ ہو۔ اس سب کے ساتھ یہاں پر چور بازاری، دھوکے بازی اور ہر طرح کی دو نمبری اپنے عروج پر ہے۔ میں نے پاکستان کے نمائندہ شہر جیسے لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور وغیرہ کئی کئی بار گھومے ہیں۔ میں دنیا کے کئی ممالک گھوم چکا ہوں مگر میرا ذاتی احساس ہمیشہ یہی رہا ہے کہ جو دھوکہ ایمپریس مارکیٹ کی ان سڑکوں پر موجود ہے اس کا عشر عشیر بھی کہیں اور نہیں ہے۔ یہاں کہیں آوارہ کتے کو السیشن نسل بنا کر بیچا جارہا ہے، کہیں پہنے ہوئے کپڑوں کو مہنگا برانڈ بنا کر فروخت کیا جارہا ہے، کہیں لمحوں میں رنگ گورا کرنا سکھایا جارہا ہے، کہیں جادو کے کریش کورس کروائے جارہے ہیں، کہیں پان کی پیک تھوکتا ہوا آدمی روانی سے انگریزی بولنے کی تعلیم دے رہا ہے، کہیں باٹا کے جوتے بوٹا کے نام سے مل رہے ہیں، کہیں لاعلاج بیماریوں کا گارنٹی سے علاج ہو رہا ہے، کہیں فحش فوٹو البم کھولے داستان گو نایاب جڑی بوٹی فروخت کر رہے ہیں، کہیں ناگ راج کا منکا رکھا ہوا ہے، کہیں قرعہ اندازی سے انعام نکل رہے ہیں اور کہیں رولیکس گھڑیاں بولی لگا کر خریدی جارہی ہیں۔

گویا ہر ہر کونے میں ایک نئی دنیا برپا ہے جو آپ کی توجہ کا سامان پیدا کر رہی ہے اور ہر دوسرا لمحہ کوئی انسان لٹ رہا ہے یعنی ایک نیا بکرا ذبح ہورہا ہے۔ یہاں سڑکوں اور ٹھیلوں پر کاروبار سجائے مختلف شہروں کے ٹھگ موجود ہیں جو لوٹنے میں طاق ہیں۔ میں اور میرا ایک قریبی ترین دوست کالج کی چھٹیوں میں اکثر ایمپریس مارکیٹ جایا کرتے۔ مقصد خریداری نہیں تھا بلکہ دونوں ہی کو یہاں ہوتے دھوکوں کے مشاہدے کا شوق تھا۔ ہم کبھی لوگوں کی بیوقوفیوں پر افسوس کرتے، کبھی کسی ٹھگ کی چال پر قہقہہ لگاتے اور کبھی اپنے عقلمند ہونے پر مل کر فخریہ مسکراتے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ مسکراہٹ اور فخر جلد مٹی ہونے والے ہیں۔

وہ ایسی ہی ایک دوپہر تھی جب ہم دونوں ان واقعات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک ایک آواز آئی ”لڑکے یہ تمھارے چہرے پر دانے کیسے ہیں؟“ ۔ یہ نوجوانی کے دن تھے اور میرے چہرے پر بڑھتی عمر کے دانے موجود تھے۔ یہ آواز سن کر ہم دونوں دوست چونک کر مڑے تو ایک خان صاحب سنجیدہ چہرے کے ساتھ موجود تھے۔ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا جیسے استہزایہ کہہ رہے ہوں کہ لو جی اب یہ بیوقوف ہمیں دھوکہ دے گا۔ مستی سوجھی کہ ذرا سنیں تو کہ یہ کہتا کیا ہے؟

میں نے کہا خان معلوم نہیں کچھ مہینوں سے جان ہی نہیں چھوڑ رہے۔ اس نے اعتماد سے کہا کہ اگر چاہو تو میں تمھیں ایک ایسا نسخہ بتا سکتا ہوں جو تم کسی بھی دکان سے لے سکتے ہو اور جس کے کھانے سے یہ دانے دس دن میں شرطیہ ختم ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی اس نے ہمدرد کمپنی کا ایک معجون کا نام بتادیا جو سو روپے میں ہر جگہ دستیاب تھا۔ پھر مخاطب ہوا کہ مجھے تم سے کوئی پیسہ نہیں چاہیے لیکن جب دانے صحیح ہو جائیں تو وعدہ کرو میرے لئے آدھا کلو مکئی خرید کے لاؤ گے۔ اتنا کہہ کر وہ ہمیں ہکابکا چھوڑ کر سامنے کی بھیڑ میں چلا گیا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ اسے مجھ سے کوئی لالچ نہیں ہے۔

پھر ہمدرد کمپنی تو حکیم محمد سعید کی معروف کمپنی ہے، اس لئے اس سو روپے کے معجون سے بھی وہ کچھ کما نہیں سکتا۔ میں نے دوست سے مشورہ کیا کہ یار کیا معلوم یہ صحیح ہی کہہ رہا ہو؟ دوست تذبذب میں تھا مگر متفق بھی تھا۔ اب میں اس کے پیچھے پیچھے بھیڑ میں گیا، کچھ دیر بعد وہ ہمیں نظر آیا تو اس کی جانب لپکے۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے نام لکھوا دو تو اس نے جھٹ دوبارہ نام بتادیا۔ میں نے پھر پوچھا کہ یہ کہیں سے بھی لے لوں؟ کہنے لگا کہ ہاں جہاں بھی ہمدرد کے سب معجون ملتے ہوں وہاں سے لے لو اور اگر چاہتے ہو تو سامنے موجود اپنی مرضی کے میڈیکل اسٹور سے میں تمھارے ساتھ چل کر لے دیتا ہوں۔ ایک بہت بڑے اسٹور میں اس کے ساتھ گیا اور لائن میں لگ کر اس سے معجون طلب کیا۔ اس نے وہ معجون سو روپے میں لاکر دے دیا۔ میں نے ممنون لہجے میں خان صاحب کو شکریہ کہا تو انہوں نے یاد دلایا کہ ٹھیک ہونے پر مجھے آدھا کلو مکئی لاکر دینی ہے۔

پھر کہنے لگے بس اب اس معجون میں فلاں فلاں جڑی بوٹی کا سفوف دو دو چٹکی ڈال لینا پھر کمال دیکھو۔ میں نے سٹپٹا کر کہا کہ کیسا سفوف؟ اس کا تو تم نے کوئی ذکر نہ کیا تھا۔ اس نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ شاید بھول گیا تھا لیکن فکر نہ کرو کسی بھی بڑے حکیم خانے سے مل جائے گا۔ میں ناراض ہوا کہ اب کہاں ڈھونڈھوں گا؟ تو اس نے کہا پیچھے حکیم بیٹھتے ہیں، میں تمھیں دکھا دیتا ہوں، وہاں سے لے لو۔ یہ کہہ کر وہ معجون تھامے آگے تیز تیز چلنے لگا۔ ہم دونوں بھی لامحالہ اس کے پیچھے پیچھے گئے۔ وہ پیچیدہ گلیوں سے نکل کر کچھ ہی دیر میں ہمیں ایک ایسے خالص پٹھان علاقے میں لے آیا جہاں سامنے ایک حکیم نما انسان تھلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا۔ خان نے اسے پشتو میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے ہر مرتبان کھول کر دو دو چٹکی سفوف معجون میں ڈالتا گیا۔ اب یہ میری جانب متوجہ ہوئے اور کہا پچاس روپے چٹکی کے حساب سے اب آٹھ سو روپے دے دو۔ میں نے بھنا کر انکار کیا تو چاروں طرف سے اس کے ساتھی ہماری جانب جارحانہ انداز میں آنے لگے۔ ظاہر ہے ہم دونوں دوست جان چکے تھے کہ آج ہاتھ ہوگیا ہے اور پیسہ نہ دیا تو جان جانے کا بھی اندیشہ ہے۔ بھاؤ تاؤ کر کے پانچ سو روپے دیئے اور جان بچا کر اس انجان علاقے سے باہر آگئے۔

اپنے حال پر غصہ بھی آرہا تھا اور ہنسی بھی۔ خود کو تیز و طرار سمجھنے کا بھرم چکنا چور ہوچکا تھا۔ یہ سمجھ آگیا تھا کہ پیشہ ور نوسربازوں سے الجھنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ آج بھی جب پٹھانوں پر بنے لطائف پڑھتا ہوں تو ایک لمحے کو وہ آدھا کلو مکئی کا طلبگار پٹھان یاد آجاتا ہے۔ جس نے مجھے بھرپور طریق سے بیوقوف بنایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments