کیا افغان مہاجرین ہماری معیشت تباہ کر رہے ہیں؟


\"zeeshan

کچھ دن قبل کی خبر ہے کہ صوبہ خیبر پختون خاہ کے شہر ہری پور میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کا سلوگن تھا ”گو افغانی گو“۔ مظاہرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک سارے افغان یہاں سے چلے نہیں جائیں گے ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔

افغانیوں کو یہاں سے کیوں چلے جانا چاہئے ؟ اس پر مظاہرہ کے شرکاء نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ”افغانی پاکستان کے تقریبا ہر کاروبار پر چھا گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی جگہ انہوں نے لے لی ہے ، ان کے لئے روزگار نہیں اس لئے ہمارے نوجوان مجبور ہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک یا شہر روزگار کے لئے چلے جائیں۔ بہت ہو گیا ، اب ہم انہیں مزید برداشت نہیں کر سکتے“۔ (قاضی عتیق )

افغانی اس ملک اور اس کے شہریوں پر بوجھ ہیں۔ (صاحبزادہ عطا الرحمان)

یہ صرف ہری پور کا واقعہ نہیں بلکہ چوبیس مئی 2016 کو بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز خان بگٹی کہہ چکے ہیں ”افغان مہاجرین خود عزت و احترام کے ساتھ یہ ملک چھوڑ دیں ورنہ بلوچستان کے عوام انہیں بے عزت کر کے ملک سے باہر نکال پھینکیں گے“۔ ستائیس جون 2016 کو وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ اعلان کر چکے ہیں ”پاکستان جلد ہی افغان مہاجرین کے لئے سخت پالیسی بنائے گا“ صوبہ خیبر پختون خاہ کے ترجمان مشتاق غنی افغان مہاجرین کو خبردار کر چکے ہیں کہ ”یکم جولائی سے تمام افغان مہاجرین اپنے کیمپوں میں رہیں گے ، انہیں اس صوبہ میں آزادانہ نقل و حمل کی قطعا اجازت نہیں ہو گی“۔

پاکستان میں اس وقت پچیس لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں جن میں سے پندرہ لاکھ گورنمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور ”پروف آف ریزیڈنسی کارڈ“ رکھتے ہیں جبکہ دس لاکھ بغیر دستاویزات کے یہاں رہائش پزیر ہیں۔ اسی طرح تیس لاکھ افغان مہاجرین ایران میں رہتے ہیں جہاں انہیں پاکستان سے بھی کمتر درجہ کے حقوق حاصل ہیں۔ دو ہزار دو سے کل 58 لاکھ افغان واپس اپنے گھروں کو لوٹے ہیں۔ دو ہزار پندرہ میں 178,000 افغانیوں نے یورپ کی شہریت کے لئے درخواستیں جمع کروائیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کسی دوسرے ملک سے آنے والے مہاجرین اس ملک کے مقامی لوگوں کا روزگار یا کاروبار چھین لیتے ہیں؟ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی گلف کے ممالک میں کام کرتے ہیں کیا انہوں نے وہاں کے مقامی لوگوں سے معاشی مواقع چھین لئے ہیں ؟ یورپ جو امیگرنٹس کے لئے ایک سہانا خواب ہے کیا یہ امیگرنٹس یورپ کے معاشی مسائل کی وجہ ہیں؟ کیا کراچی میں پنجابی سرائیکی بلوچ اور پختون وہاں کی معیشت پر بوجھ ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر پہلے غور کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد کسی پر انگلی اٹھانے کا فیصلہ کیا جائے۔

میں معیشت کا طالب علم ہوں۔ سمجھتا ہوں کہ معیشت علم طب کی طرح ہے۔ جو اس پر دسترس رکھتا ہے وہ اسے سمجھتا بھی ہے اور اس کو عمل میں لانے میں محتاط بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح جس کے پاس اس کا علم نہیں یا محدود علم ہے وہ نیم حکیم کی طرح ہے جو غلط فہمیوں اور مضر صحت نسخوں کو پھیلاتا ہے۔

معیشت میں سب سے بڑی غلط فہمی ”حجم متعین کا مغالطہ“ (Fixed Pie Fallacy ) ہے۔ اس کی رو سے ”ایک ملک کی معیشت ایک روٹی کے متعین ٹکڑے کی طرح ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ ان ٹکڑوں کی تقسیم ہے۔ جس کے پاس زیادہ بڑا ٹکڑا ہے اس نے یقینا دوسرے سے وہ ٹکڑا چھینا ہو گا یا زیادہ ہتھیا لیا ہو گا۔ آبادی بڑھنے سے یا مہاجرین کی آمد سے وہ روٹی زیادہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس لئے زیادہ آبادی ، مہاجرین کی آمد ، اور جن کے پاس روٹی کا بڑا ٹکڑا ہے ، ان سب کی وجہ سے بھوک کے مسائل ہیں“۔ یہ نظریہ نیا نہیں بہت پرانا ہے۔ اس کی بنیاد پر رابرٹ مالتھس نے پیش گوئی کی تھی کہ ”وسائل محدود ہیں جبکہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، جتنی زیادہ آبادی ہو گی اتنا ہی افراد کے حصے میں کم وسائل آئیں گے۔ آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ایک وقت آئے گا کہ وسائل سب میں تقسیم نہیں ہو سکیں گے یوں جو باقی بچ جائیں گے وہ قحط سے مر جائیں گے، صرف اس طرح آبادی اور وسائل میں توازن آ جائے گا“۔

مالتھس کی یہ پیش گوئی زرعی عہد کے لئے کسی حد تک (مکمل طور پر نہیں ) درست تھی جب پیداوار مکمل طور پر قدرتی وسائل پر انحصار کرتی تھی۔ مگر صنعتی انقلاب کے بعد یہ نظریہ ناکام ٹھہرا جب ہم نے وسائل ، تخلیقی ذہانت ، مشینوں اور مصنوعی طریقوں سے پیداواری عمل کا آغاز کیا۔ ہم نے دولت پیدا کرنا شروع کر دی۔ معیشت کا حجم اب کل آبادی پر نہیں بلکہ کل پیداوار پر انحصار کرنے لگا ، یوں ابن خلدون کی بات بھی پوری ہوئی کہ دولت حجم متعین نہیں بلکہ ہم اپنی پیداواری سرگرمیوں سے اس میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں اور یہ کہ دولت سونا چاندی نہیں بلکہ پیداوار ہے۔ یہی بات ایڈم سمتھ نے اپنی کتاب ویلتھ آف نیشن میں دہرائی۔

ایک مثال سے مدد لیتے ہیں۔ Hartwell اپنی کتاب ”انڈسٹریل ریوولوشن اینڈ اکنامک گروتھ“ میں صنعتی انقلاب کے بعد لوگوں کی یومیہ خوراک کے اعداد و شمار دیتا ہے۔ اس کے مطابق لوگوں کی غذا میں صنعتی انقلاب کے بعد گوشت ، چینی ، چائے ، بیئر ، اور انڈوں کا بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ میکس روزر کی شماریاتی تحقیق کے مطابق 1750 میں انگلینڈ میں ایک فرد اپنی غذا میں تقریبا 2,237 کیلوریز کھاتا تھا جو بڑھ کر 2009 میں اوسط 3,432 ریکارڈ کی گئیں ۔ باوجود اس کے کہ بقول McCloskey جو اپنی کتاب ”دی انڈسٹریل ریوولوشن 1780-1860“ میں اعداد و شمار دیتا ہے کہ صرف سترہ سو اسی سے اٹھارہ سو ساٹھ کے دوران شرح اموات میں کمی کے سبب آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا اور آبادی میں اضافہ ہنوز جاری ہے۔ فی کس کیلوریز کا انجذاب صرف یورپ میں نہیں بڑھا بلکہ یہ تمام دنیا میں بڑھا ہے اسی طرح شرح اموات میں کمی اور آبادی میں اضافہ کا رجحان بھی ساری دنیا میں ہے۔ آبادی میں اضافہ کی شرح اس وقت سب سے زیادہ افریقہ میں ہے۔

یہی سبب ہے کہ Hartwell لکھتا ہے ”صنعتی انقلاب نے ہمارے رویے بدل دیئے کہ اب جو بھی سماجی مسائل پیدا ہوں گے ہم ان کی شناخت کر سکیں گے ، ان کا مشاہدہ ، تجزیہ ، اس کی اشاعت ، اور اس کا علاج ہم رضاکارانہ تعاون یا قانون سازی سے کر سکیں گے۔ وہ تمام سابقہ برائیاں جنہیں ہم نے ناگزیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا اب ہم نے ان سے چھٹکارے کی تدبیر کرنا شروع کی“۔ (کتاب : انڈسٹریل ریوولوشن اینڈ اکنامک گروتھ )

اسی سبب سے مارکس بھی لکھتا ہے کہ ”سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ انسانی اپنی ذہنی صلاحیتوں سے پیداوار کو منظم کرتا ہے ، یہی اس کی وہ خوبی ہے جو اسے باقی تمام جانداروں سے ممتاز کرتی ہے“ (کتاب : دی جرمن آئیڈیالوجی ، مصنف : لارینس & Wishart ) جان سٹارٹ مل کو ایف اے ہائیک اپنی کتاب ”کیپیٹلزم اینڈ ہسٹورین“ میں نقل کرتے ہیں ”اول مسئلہ پیداوار کا ہے ، پیداواری عمل کو نسل انسانی کی بقا کے لئے فوقیت حاصل ہے۔ جب پیداوار ہو گی تب ہی ہم تقسیم کے سوالات زیر بحث لا سکیں گے“

حقیقت یہ ہے کہ افغانی مہاجرین نے آ کر یہاں بھیک نہیں مانگی اور نہ ہی ریاستی امداد پر اپنی زندگی بسر کی ہے۔ انہوں نے بطور مزدور یا کاروباری فرد کے محنت کی ہے اور اس کا صلہ پایا ہے۔ وہ یہاں کی پیداواری سرگرمیوں کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے معیشت کے حجم میں اضافہ کیا ہے نہ کہ کسی سے کوئی ٹکڑا چھین کر کھایا ہے۔ انہوں نے اس ملک کی معیشت کی ویلیو میں اضافہ کیا ہے۔ اگر وہ کاروبار میں ہیں تو روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ جو لوگ ان سے مقابلہ میں پیچھے رہ گئے ہیں وہ انہیں الزام دینے کے بجائے خود پر غور کریں کہ وہ ان مہاجرین سے پیچھے کیوں رہ گئے جب کہ وہ یہاں کے باسی بھی ہیں ، وسائل تک ان کی رسائی افغانوں سے زیادہ ہے اور تعلیم و صحت کے مواقع بھی افغانوں سے زیادہ انہیں حاصل ہیں۔ چھین کر کھانے کی نفسیات نے معاشروں کو بھوک اور افلاس دی ہے۔ تخلیقی محنت کی قدر پر قائم معاشرے آگے بڑھے ہیں اور وہ ترقی و خوشحالی سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ ہمیں افغان مہاجرین کو اپنے سماج میں باعزت مقام دینا چاہئے ویسا مقام جیسا ہم اپنے لئے یورپ و امریکہ میں چاہتے ہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments