کشمیر کمیٹی اور سید مودودی


\"waqas-khan\"(وقاص خان)

ابلاغ کا تقاضا تھا کہ سانحہ کوئٹہ اور سائبر کرائم بل جیسے ”ان ٹاپکس“ چھوڑ کر مسئلہ کشمیر جیسے پٹے ہوئے موضوع کو اس وقت گھسیٹا کاری کے لئے نہ چنتا لیکن قدرت نے مملکت خداداد پاکستان کی قسمت میں ”شارٹ ٹرم میموری لاس“ کا مرض کچھ اس قدر فراوانی سے لکھا کہ کسی اور قومی مرض کی حاجت باقی نہ رہی۔

قومی مرض سے یاد آیا کہ ہمارے ہاں کرپشن، نا انصافی، نت نئی قانون سازی اور شدت پسندی کا مرض بھی عام ہے ضرور کوئی نہ کوئی کہے گا کہ ان امراض کی ”ریٹنگ“ بھی اتنی ”ہائی“ تو ضرور ہے کہ قومی مرض کہلائے جا سکیں لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے۔

وجہ اس اختلاف کی یہ ہے کہ کرپشن قومی نہیں بین الاقوامی مرض ہے۔ یقین نہ آئے تو شامی صدر بشار الاسد اور روسی صدر ولادی میرپوتن کے ”فیملی ممبرز“ سے تصدیق کرا لیں۔ کیا کہا وہ دونوں تو ہیں ہی بدنام۔ اچھا چلیں نیک نام ترک رہنما رجب طیب اردگان کے ہم نشینوں سے پتہ کروا لیں۔

نا انصافی چونکہ طبقاتی مرض ہے اس لئے اسے قومی بتلا کر خلط مبحث سے گریز ہی بہتر ہے ورنہ ایان علی کو سزا دلوا کر اور ایم کیو ایم کے کسی گمنام کارکن کو ”آئرن مین“ کی گرفت سے زندہ سلامت واپس لا کر تو دکھائیں۔

نت نئی قانون سازی کو آپ قومی مرض کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اب دیکھئے نا کیا آپ جانتے ہیں کہ اکیسویں ترمیم کو آئے کتنا عرصہ ہوا؟ پھر اس کے نتیجے میں ”نیشنل ایکشن پلان“ جو بنا تو کب بنا؟ پوری قوم کو متحرک کرنے والا یہ منصوبہ کہاں نافذ ہوا؟ اس کے نفاذ کے لئے الگ الگ صوبوں کی الگ الگ کمیٹی بنانی تھی تو اسے ”نیشنل“ کی بجائے ”پراونشل“ کیوں نہ کہا گیا کہ اسم با مسمی ہو جاتا؟ پھر یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہو گا کہ منصوبہ قومی تو الگ الگ صوبے میں اس کی شکل کیوں الگ ہے؟ اچھا چلیں چھوڑیں اس ”خوفناک منصوبے“ کو، یہ بتائیں کہ ”ویمن پروٹیکشن ایکٹ“ بنا تھا، کہاں گیا؟ اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے اسلامائز کر کے ”تحفظ حقوق نسواں“ کا نام دیا اس کے باوجود نتیجہ کیا نکلا؟

ابھی تازہ تازہ سرگرمی ”سائبر کرائم بل“ کی صورت سامنے آئی، سو آئی۔ کیا ہو جانا ہے؟ کچھ نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ قانون سازی خاص طور پر نت نئی قانون سازی کا قوم سے واسطہ ہی کوئی نہیں ہوتا۔ قانون بنانے والے قوم کے حالات، روایات، ثقافت اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہی نہیں تو کس بنیاد پر آپ اسے ”قومی مرض“ کہہ سکتے ہیں؟ بتائیے نا ذرا ! سیدھی سی بات ہے کہ قانون سازی قومی کے بجائے ادارتی مرض ہے۔ ادارے بچانے اور مراعات بڑھانے کی خاطر چند لوگ قانون ”انونٹ“ کرتے ہیں اور قوم تالیاں بجا کر کام دھندے میں لگ جاتی ہے۔

رہ گئی شدت پسندی تو وہ بھی عوامی و قومی مرض نہیں بلکہ ”انٹیلکچولز“ کا مسئلہ ہے۔ دانشوروں کا مرض اس لئے کہ اوریا مقبول جان صاحب سے لے کر حسن نثار صاحب تک کون ہے جو اپنے آپ کو اس قوم کا فرد ماننے کو تیار ہو؟ لیکن وہ دانشور ہیں اور اپنی فکر کے ”شدت پسند پرچارک“ بھی۔ مثال کیا دوں آپ جانتے تو ہوں گے ہی۔ نہیں جانتے؟ ارے ہاں ”شارٹ ٹرم میموری لاس“ کے قومی مریض جو ٹھہرے۔ چلیں وہ بچی کا ”کرکٹ سٹنٹ“ اور چاند پر نہ پہنچنے کا ”مذہبی مجرم“ ہی یاد کر لیں۔ فورا ہی اندازہ ہو جائے گا کہ دونوں اور ان کے پیچھے کھڑے دیگر دانشور بھی اپنے اپنے دائرے میں ”وڈے آلے (بڑے والے) شدت پسند“ ہیں۔ نہیں آ رہا یقین۔

چلیں کچھ اور چیزیں یاد کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھائے، پچاسوں جان سے گئے اور سینکڑوں آنکھ سے۔ پاکستان میں بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ حکومتی مشینری نے اپنے تئیں جو مناسب لگا کیا۔ لیکن سید مودودیؒ کے پیروکار اتنے پر راضی نہ تھے۔ انہوں نے حکومت اور کشمیر کمیٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ چیئرمین کی کرسی پر قبضہ کریں اور ”الجہاد الجہاد“ کے نعروں سے بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر سے نکال باہر پھینکیں۔ حیران کر دینے والی بات تو یہ تھی کہ سید مودودیؒ کے پیروکاروں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ان کی رائے کو بھی پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا ہوا ہے کبھی یہ نہیں سوچا کہ سید مودودیؒ کیوں جہاد کشمیر کے مخالف تھے۔ ماضی قریب میں سید مودودیؒ کے پیروکار ان کی فیصلہ کن رائے کو پیروں تلے روند کر کشمیر میں ایسی بے ہنگم دخل اندازی کے مرتکب ہوتے رہے کہ خود کشمیری بھی جس سے ”نک جان“ آ گئے تھے لیکن اس سے سبق سیکھنے کی بجائے مولانا فضل الرحمن اور کشمیر کمیٹی سے مطالبہ کرتے رہے کہ ”بھیا سب چھوڑ چھاڑ کر ابھی کے ابھی کشمیر کو پاکستان بناؤ“۔

حالانکہ ہم نے بحیثیت ریاست اقوام متحدہ کے فورم میں یہ طے کر رکھا ہے کہ کشمیر نے پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا ہے، یہ فیصلہ خود کشمیریوں نے کرنا ہے۔ اسی کو تو حق خودارادیت کہتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے ہی فیصلے بھول جاتے ہیں۔ سچ بتائیں اپنا یہ فیصلہ یاد تھا آپ کو؟ نہیں نا۔ تو پھر ہمارا قومی مرض کون سا ہوا؟

شارٹ ٹرم میموری لاس۔

اب بتائیں کہ اس میں سید مودودیؒ یا کشمیر کمیٹی کیا دوش؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments