عورت جو کبھی دیوی تھی


\"husnain

دیوی دیوتاؤں کے بہت سے قصے ہم نے بچپن میں سنے، کچھ کہانیاں پڑھیں، کچھ بڑے بوڑھوں نے سنائیں اور سنتے سنتے سو جانا سکھایا۔ بڑے ہونے کے بعد ہم نے ان سب کو بھلا دیا اور اپنے روزمرہ کے دھندوں میں الجھ گئے۔ ایک خاتون ایسی تھیں جنہوں نے ان قصوں کو بھلایا نہیں بلکہ ان کے آدھے حصے پر تحقیق کی۔ صرف دیویوں کو زیر غور لائیں۔ انہوں نے دس گیارہ برس اس تحقیق میں لگائے کہ یورپ اور مشرق وسطی کے پرانے مذاہب میں خواتین کو کتنی اہمیت دی جاتی تھی۔ ان مذاہب سے پہلے کے دور کا کھوج لگایا کہ جب تمام تر نظام خواتین کے گرد گھومتا تھا اور مرد گھروں میں اطمینان سے بیٹھتے تھے یا بچے پالتے تھے اور پھر انہوں نے ایک کتاب لکھی۔ اس میں انہوں نے ان تمام عورتوں کا ذکر کیا جو اپنے وقت کی مقدس ہستیاں تھیں، دیویاں تھیں یا سپہ سالار تھیں اور جنگ جو تھیں، تو وہاں سے ایک موڑ مڑ کر وہ کتاب کا بہاؤ اس رخ لے گئیں کہ اب جدید دور میں عورتوں کے ساتھ ایسا برا سلوک کیوں ہو رہا ہے اور انہیں صنف نازک کے خانے میں کیوں قید کر دیا گیا ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے یہودیوں اور مسیحیوں پر یہ الزام لگایا کہ دوسرے پرانے قبائلی مذاہب کے علاوہ ان لوگوں نے بھی تاریخ کے ہر صفحے سے کھرچ کھرچ کر عورت کا کردار مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ کوئی تصویر ہو، کوئی مجسمہ ہو یا ادب کا کوئی شاہ کار ہو، اگر اس میں عورت برتر تھی تو اسے تباہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ ان کی تحقیق تھی کہ موجودہ دور میں صرف وہ عقائد زندہ رکھے گئے جن میں مردوں کا طاقت ور اور مرکزی کردار تھا اور باقی سب کچھ انہی مردوں نے ختم کر دیا۔ عورت قدیم وقتوں میں وہ مرکز تھی کہ جس کے گرد پورا معاشرہ گھوما کرتا تھا، وہ تاریخ کوشش کر کے مٹائی گئی۔ ہمارے تمام روحانی علم کو جان بوجھ کر ایسا بنا دیا گیا جو صرف مردوں کی برتری قائم رکھتا ہو اور ان میں بھی وہ مرد جو اہم عہدوں پر ہوں یا معاشرے میں اہم مقامات پر ہوں۔

\"merlin-stone\"

ان خاتون کا نام مرلن سٹون تھا۔ مرلن کی چلائی گئی مہم کا لب لباب یہ تھا کہ اس قسم کے معاشرے میں بلکہ پوری دنیا کے موجودہ نظام میں لڑکیوں اور عورتوں کی انا برے طریقے سے مجروح ہوتی ہے، اور اس نظام کے اثرات ان کی شادی تک پر اثرانداز ہوتے ہیں، وہ مالی طور پر مضبوط شوہر کی شکل میں اپنا مستقبل محفوظ کرنا چاہتی ہیں اور شوہر یا تمام مرد چوں کہ یہ بات جانتے ہیں اس لیے وہ خود کو اہم سمجھتے ہیں اور اپنی بیویوں یا تمام عورتوں کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ عورتوں کو برابر کی عزت دی جائے اور بچوں کو اگر کوئی مقدس تعلیمات دی جائیں تو ان میں عورتوں کی بھی برابر اہمیت دکھائی جائے۔

یہ سب باتیں تقریباً چالیس سال پہلے کی ہیں۔ اس کتاب کے بعد مغرب میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے زیادہ تیزی سے کام شروع کر دیا۔ فیمینزم بھی ایک ازم ہوتا ہے۔ اس ازم کی تعریف اتنی جان لیجیے کہ مردوں اور عورتوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دئیے جائیں۔ تو فیمینزم کی ایک تازہ لہر آئی اور خواتین مزید متحرک ہو گئیں۔ ایک اہم نتیجہ یہ نکلا کہ اگر مردوں کی برابری کرنی ہے تو روزی روٹی خود سے کمائی جائے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوا جائے۔ اس زمانے میں خواتین کے لیے زیادہ تر نوکری سیکرٹری، استانی، لائبریرین یا نرس کی ہوا کرتی تھی۔ باقی کاموں میں بھی ان کی جگہ نکالی گئی، کہیں خواتین نے خود حوصلہ کیا اور نوکریاں شروع کیں، یہاں تک کہ 1970 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی ورک فورس یا کام کرنے والے طبقے میں 37 فی صد حصہ خواتین کا تھا۔ معاشرے میں ان کی جگہ بڑھتی رہی، انہوں نے خود کو اس قابل بھی بنایا اور موجودہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین امریکی ورک فورس میں 47 فی صد حصہ رکھتی ہیں۔ وہ اب اکاونٹنٹ بھی ہیں، پولیس افسر بھی ہیں، وکیل بھی ہیں اور جج بھی ہیں۔ لیکن دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں صرف 4.4 فی صد خواتین ہیں جو مرکزی عہدوں پر موجود ہیں یا سیدھا سیدھا کہیے کہ CEO ہیں، باقی چھیانوے فی صد حصے پر اب بھی مرد قابض ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

\"Artemis-greek-goddess\"

ایسا اس وجہ سے ہے کہ پوری دنیا میں ہمارا معاشرہ اب بھی مرد کا معاشرہ ہے۔ جب اعلی عہدوں پر مرد ہوں گے اور وہی مرد ہوں گے کہ جو عورت کو ایک الگ اور کم زور صنف جانیں گے، یا بے وقوف سمجھیں گے یا زیادہ سے زیادہ دل بہلانے کا سامان سمجھ لیں گے، تو وہ کیوں کسی بے وقوف، نادان یا کمزور کو اپنی کمپنی کی باگ ڈور سنبھالنے کا ذمہ دار بنائیں گے؟

آپ دوسروں کی چھوڑیے، ہمارے ذاتی تعصبات جانیے۔ جب سڑک پر کوئی گاڑی غلط لین میں یا بہت آہستہ جا رہی ہو گی تو پہلا خیال یہی آئے گا، \”ابے کوئی آنٹی ہو گی\”، اے ٹی ایم مشین پر کوئی خاتون کھڑی ہوں گی تو اپنی جان نکل جائے گی، چاہے وہ بے چاری جلدی ہی نکل آئیں لیکن تعصب زدہ ذہن یہی سمجھے گا کہ \”استاد، عورت ہے نا، دیر تو لگائے گی\”، باوجود لاکھ کوشش کے، ہمارے تمام تر لطیفے بیویوں کے گرد گھومیں گے، ازدواجی تعلقات میں اپنی برتری اور عورت کو کمتر ثابت کرنے والے لطیفوں پر ہم سب مل کر ہنسیں گے۔ اردو کے مزاحیہ شاعروں کا کم از کم آدھا دیوان اپنی بیگم کی ہجو میں ہو گا، رہے سنجیدہ شاعر تو وہ بھی عورت کو پھول، کلی، تتلی یا چاند کہہ کر عاشق تو ہوں گے، زندگی کی سڑک پر کندھے سے کندھا ملا کر کبھی اس پھول، کلی، تتلی یا چاند کو ساتھ نہیں چلائیں گے، تو عورت ہمارے ہاں بھی یا تو عزت و غیرت کی نشانی ہے یا تفریح کا سامان۔ برابر کی سطح کا سلوک کہیں بھی نہیں ہے۔

برطانیہ میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پچاس فی صد خواتین ملازمت کے دوران جنسی طور پر ہراساں کی جاتی ہیں اور ان میں سے اکثر اعتراف کرتی ہیں کہ اس کے بارے میں انہوں نے کبھی کسی سے شکایت بھی نہیں کی۔ ان میں سے ایک تہائی پر آوازے کسے گئے یا ناپسندیدہ لطائف کا نشانہ بنایا گیا اور تقریبا ان میں سے چوتھائی خواتین کو مرضی کے بغیر ادھر ادھر بہانے بہانے سے چھوا بھی گیا۔ وہ سب یہی کہتی ہیں کہ ہم نے شکایت اس لیے نہیں کی کہ اس سے ہمارے کام کا ماحول خراب ہو گا اور مستقبل میں ہماری ترقی پر بھی برا اثر پڑے گا۔ کم عمر لڑکیوں کو اس سب کا شکار زیادہ ہونا پڑا۔ اور یہ برطانیہ عظمیٰ کے حالات ہیں۔ وہیں کے ادارے نے خبر دی ہے۔ وہاں، جہاں عورت کا بہرحال کوئی مقام ہے، کوئی حقوق ہیں، کوئی عزت ہے اور مردوں میں کوئی شرم، کوئی حیا کوئی خوف ہے۔

ہمارے یہاں کا سوچیے ذرا۔ برابری تو خیر کیا ہو گی، گھر کے حالات سے مجبور ہو کر بھی ایک لڑکی اگر نوکری کرنے نکلتی ہے تو گھر کے دروازے سے لے کر دفتر جانے تک اور وہاں سے واپس گھر آ کر اپنے کمرے میں گھسنے تک اسے کیا کیا نہ سہنا پڑتا ہو گا۔ سوچیے ضرور، اگر ہم لوگ بالکل تھوڑا سا بھی سوچ لیں تو شاید بینکوں میں کام کرتی لڑکیوں، سکولوں میں پڑھاتی استانیوں، تندوروں میں روٹی لگانے والی عورتوں، اسپتال میں ہماری خدمت کرتی ڈاکٹروں، نرسوں، ہمارے گھروں میں کام کرتی ماسیوں، بسوں میں لنچ باکس دیتی ہوسٹسوں اور ہر کام کرنے عورت کو دیکھ کر ہماری نگاہوں میں زہریلی چمک نہ آئے، ہونٹوں پر منحوس مسکراہٹ نہ آئے بلکہ ہم احتراماً نظریں جھکا لیں اور ان سے بات کرنا پڑے تو انہیں عزت دے کر بات کر لیں۔ وہ عورت جو کبھی دیوی ہوا کرتی ہو گی، اس کی موجودہ درگت پر تھوڑا رحم کر لیں، اسے اپنے جیسا نہ سہی، کچھ تو جینے کا حق دے دیں، کہ وہ بھی برابر کی اشرف المخلوقات ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments