دینے کو کچھ نہیں، یہ پرچم تمہارا ہوا….


شہید کیمرامین شہزاد خان کے اہل خانہ سے تعزیت کرنے کے لئے آنے والے کمانڈر سدرن لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض جب ان کے گھر پہنچے\"sidra\" تو شہزاد خان کی ننھی پری کو نہ تو تعزیت کرنے والوں کے آنے کا مقصد سمجھ آیا نہ ہی ان کے منہ سے نکلے روایتی افسوس کے الفاظ۔۔۔ وردی اس کے لئے نئی ہوگی، دھماکہ کے بعد تعزیت کے الفاظ بھی نئے ہوں گے، چہرے نئے، گھر آنے والوں کا رش بھی نیا صرف ایک چیز پرانی دکھائی دی جسے اس نے پہچانا وہ تھا پاکستان کا جھنڈا جو کمانڈر سدرن کے بازو پر لگا دکھائی دیا۔۔۔ شاید اس بچی کو یاد آیا ہوگا کہ وہ اپنے بابا کے ساتھ جشن آزادی کی ایک تقریب میں آتش بازی دیکھ کر آئی تھی جس پر اس کے بابا مسکراتے ہوئے تصویر بنواتے رہے، شاید اسے یاد آیا ہوگا کہ دھماکے سے دو روز قبل اس کے بابا نے پاکستان کا بہت بڑا پرچم بنانے کے تیاری میں حصہ لیا تھا۔ اسے وہ پرچم یاد رہ گیا باقی سب اس کے لئے نیا سا تھا۔ اس پر چم کو غور سے دیکھنے اور چھونے کی کوشش کرنے پر وردی والے کو سمجھ آگیا کہ یہ بچی وطن کو پہچانتی ہے تو اس نے وہ پرچم بازوسے اتار کر بچی کو تھما دیا۔ اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران جان کی بازی ہارنے والے شہید کیمرامین شہزاد خان کی بیٹی کو بہت کم عمری میں اتنی بھاری ذمہ داری دے دی گئی، اپنے جسم سے پرچم اتار کر اسے تھمایا گیا تو میرے ذہن میں آیا۔۔۔ لو بیٹا وطن اب تمہارے حوالے!

یہ لکھتے وقت دل بہت بھاری آنکھیں کچھ نم سی ہیں لیکن مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ بہت کم ہی یہ کیفیت طاری ہوتی ہے کیونکہ میں بھی اس بے حس قبیلے کی ایک فرد ہوں جہاں کوئی مرے تو وقتی افسوس ہوتا ہے ، چار دن کا سوگ ہوتا ہے اور پھر زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑتی ہے، پھر کوئی دھماکہ ہوتا ہے دل زور سے دھڑکتا ہے اور پھر تاریخ بدلتی ہے اور دھیان بٹ جاتا ہے۔ ہماری قوم کی حالت اس مریض کی سی ہوگئی ہے جو جان بلب ہے لیکن پھر بھی جینا چاہتا ہے، وینٹی لیٹر پر پڑی اس قوم کی حرکت قلب کو چیک کر نے کے لئے ایک جھٹکا دیا جاتا ہے تو مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوتی ہے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ اسی حالت میں واپس چلا جاتا ہے اور حکمران اور ہماری حفاظت کی ضمانت دینے والے اس قابل ڈاکٹر جیسا لگتا ہے جو تجربے کا غرور لئے مریض کی دیکھ بھال اسپتال کے انٹرنیز پر چھوڑ دیتا ہے کہ ان کو سیکھنے کو ملے، جب مریض مر جائے تو اس شام سب اس ڈاکٹر کا چہرہ دیکھتے ہیں جو خاندان کے پاس آکر کہتا ہے کہ آئی ایم سوری ہم آپ کے پیارے کو بچا نہ سکے۔۔۔۔ کل بھی تو ایوان میں بڑے ڈاکٹر صاحب یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے افسوس ہے آپ کا مریض بچ نہ سکا آپ نے مجھ پر اعتبار کیا اس کا شکریہ لیکن زندگی موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے جو مرے ہیں ان کے نقصان پر مجھے بھی افسوس ہے لیکن اطمینان رکھئے آئیندہ کم مریض مریں گے اور پھر بڑے ڈاکٹر صاحب بیٹھے تو ان کا معاون اٹھا اور اس نے اپنی بات شروع کی اور بتایا کہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں کیسز خراب ہونے کی تعداد بہت کم ہے اس اسپتال میں جو پہلے معالج تھے وہ تو علاج کی الف ب تک سے واقف نہ تھے ان کے ہاتھوں تو کئی مریض مرے یہاں تک کہ وی آئی پی مریض تک، جن کی سرجری میں 36 گھنٹے گزر گئے۔ جی ہاں کل قومی اسمبلی میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیر اعظم کی سپاٹ تقریر کے بعد رسم پوری کی اور پوری قوم کو جتایا کہ مشرف کے دور حکومت میں روز تین سے چار دھماکے معمول تھے یہاں تک کہ افواج پاکستان کے محفوظ ترین مقامات و تنصیبات بھی دہشت گردی کی زد پر رہیں۔

بہت خوب جناب۔۔۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ تسلیم کیا جاتا کہ نیکٹا، نیشنل ایکشن پلان سمیت کئی آپریشن جن کی تعریف روز کی جاتی ہے وہ سب ناکام ہوکر ایک طر ف اور مٹھی بھر ٹوٹی کمر والے دشمن ایک طرف ہوگئے۔ ہونا یہ چائیے تھا کہ اپنے رعونت بھرے لہجے مدھم کر کے قوم سے معافی مانگی جاتی، ہونا یہ چائیے تھا کہ قوم کو بتایا جاتا کہ اب ان کے لئے کیا عملی اقدامات کئیے جائیں گے یا وہ اسی طرح مر مر کر جشن آزادی کا جشن منانے کے لئے خود کو تیار رکھیں، ہونا یہ چائیے تھا حکومت، اپوزیشن ایک پیج پر دکھائی دیتے۔ لیکن کل بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں بار بار ماضی کا حوالہ دے کر یہ بتایا جاتا رہا کہ دیکھو تمہارے وقت میں لاکھ مرے، ہمارے وقت میں ہزار۔ امن تو قائم ہوا ہے ناں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر کسی ایک کی بھی ناحق لاش گرتی ہے تو کیا ریاست کے نزدیک اس ایک کی اہمیت نہیں یا ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والے یہ طے کرتے رہیں گے کہ فلاں سڑک پر آج سے پانچ سال قبل دس لاشیں گری تھیں آج ایک گری تو امن کا فرق واضح ہے۔ میں آج تک اس نمبر گیم کی امن اسٹریٹجی کو نہ سمجھ سکی۔ جب انتخابات قریب ہوں تو یہ یہی حکمران ووٹ کم نہ پڑ جائیں اس کے لئے ہر زور آزمائی کر ڈالتے ہیں کیونکہ اس وقت ان کے لئے ایک انگوٹھے کا نشان بھی اہمیت رکھتا ہے لیکن جب دھماکہ ہوجائے تو لاشوں کی گنتی کر کے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ نقصان کم ہوا ہے، دھماکہ بڑی نوعیت کا نہیں تھا محض پانچ یا دس لوگوں کا مرنا ایسے ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ پشاور سانحے میں جب 150 زندگیوں کے چراغ بجھیں تو ایک آواز سنائی دی گئی کہ دشمن اب کمزور پڑ گیا ہے تو سوفٹ ٹارگٹ اس کا شکار ہیں یہاں پھر وہی سوال ہے کہ عوام کو اگر سوفٹ ٹارگٹ سمجھ کر بھوکے بھیڑیوں اور کتوں کے سامنے چھوڑ دیا گیا ہے تو جنگل کا بادشاہ شیر آجکل کہاں ہوتا ہے؟ یہ شیر انتخابات میں ہی جنگل کی سیر کو نکلتا ہے یا پھر دوسرے جنگلوں کا دورہ کرنے؟ چلیں جناب ان کو چھوڑیں اس شیر نے ملک کی حفاظت کی کمان جن کو دے رکھی ہے ان کا جنگل میں کیا کام ہے؟ جنگل میں باہر سے کوئی آکر حملہ نہ کردے تو خاردار باڑ لگانے کا کام مکمل کرلیا گیا۔ کوئی ہتھیار سے وار نہ کردے تو ہم نے بھی ہتھیار بنا کر دشمن کو بتا دیا کہ اے دشمن سن ہمارے پاس بھی جدید ہتھیار ہیں ہم سے پنگا نہ لینا۔ لیکن خاردار باڑ لگانے والے اندر جنگل کی تلاشی لینا بھول گئے۔

تلاشی سے یاد آیا کوئٹہ سانحے کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کومبنگ آپریشن کا حکم دیدیا۔ چلیں کوئی بات نہیں جہاں اتنے آپریشن ہوئے ایک اور سہی اب وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کو موت سے بچانے کے لئے ایک دوا اور سہی ایک نیا ڈاکٹر آزمانے میں حرج ہی کیا؟ لیکن یاد رہے قاتل اسپتال میں ہی کہیں گھوم رہا ہے آپ دوا ڈھونڈنے نکلیں گے اور وہ زہر کا ٹیکہ لگا کر اپنا کام کر جائے گا۔ ویسے ٹوٹی کمر والا یہ دشمن کمر سے نہیں دماغ سے کام کرتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ دماغ سے کام کرنے والوں کے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں، سانحہ پشاور ہو، یا واہگہ بارڈر دھماکہ، سانحہ لاہور ہو یا سانحہ کوئٹہ دشمن نے ٹوٹی کمر کے ساتھ کامیاب سرجری کی اور ہمارے معالجین نے آکر صرف یہی کہا کہ آئی ایم سوری ہم آپ کو نہیں بچا سکے۔ کل کا اجلاس، بلند و بانگ دعوی، ستائش، مذمت، ڈھکوسلے، قرادادیں، تقاریر کے بعد تمام ہوا، فوج اور ایجنسیوں کی جانب سے کومبنگ آٓپریشن کا آغاز ہوا اور ایک بار پھر کسی لنگڑے لولے نے کوئٹہ کی زرغون روڈ پر دھماکہ کر کے بتادیا کہ ٹوٹی ہوئی کمر کے لوگ اکڑی ہوئی گردنوں سے زیادہ بہتر ہیں۔ یہ دشمن آخر ہے کون اور اس کے حواری آپ کے جدید ہتھیار، کاری ضرب لگانے کے دعوی اور بے پناءخفیہ ایجنسیوں کے باوجود کہاں سے چھلاوہ بن کر آتے ہیں اور دھماکہ کر کے آپ کو چونکا جاتے ہیں ؟ تو صاحب دشمن منصوبہ بندی آپ کی لگائی ہوئی باڑ کے باہر کرتا ہے اور پھر آپ کے دھتکارے ہوئے نظر انداز کئیے ہوئے، ناانصافی کی چکی میں پسے ہوئے دلبرداشتہ ذہنوں کو خریدتا ہے وہی ذہن اور جسم خریدتا ہے جو جنگل کے اندر موجود ہیں دشمن ان کو جنت کا راستہ دکھا کر سوفٹ ٹارگٹس کو جہنم وصل کروا جاتا ہے اور آپ کہتے رہ جاتے ہیں کہ یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسبان اس کے۔ ڈھونڈنا ہے تو ان کو ڈھونڈیں جو ان لوگوں کے ہاتھوں بک رہے ہیں وہ غیر نہیں آپ کے اپنے ہیں۔ انکے چارہ گر بنیں انکے ٹوٹے دلوں کی رفو گری کریں اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ آپ نے کس کا حق چھینا کس کے ساتھ ناانصافی کی؟ کس کو زیادہ نوازا کس کا حق چھین کر اپنے منہ میں نوالہ ڈالا صرف ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کا حوصلہ کیجئے جوابات ملنا شروع ہوجائیں گے، لوگ ملنا شروع ہوجائیں گے۔

ڈھونڈیے اس شخص کو جو اپنے وطن سے پیار کرتا ہوگا اس پر جان نثار کرنے کا متمنی بھی ہوگا اچھا ذہن بھی رکھتا ہوگا کچھ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہوگا کہیں اس کو وطن سے محبت کرنے پر ناحق تو نہیں بھینٹ چڑھا دیا گیا؟ کہیں اس کا حق کسی نااہل کو تو نہیں دیدیا گیا اگر ایسا ہوا ہے تو یاد رکھئیے گھر کو آگ لگتی ہے گھر کے چراغ سے۔۔۔ چراغ آپ کا تیل دشمن کا ہے یہ تیل اس چراغ کو اگر آپ وقت پر دے دیتے تو یہ آپ کے گھر کو روشن کرتا نہ کہ اپنے ہی آشیانے کو شعلہ بنادیتا۔ شہزاد خان ہو یا اس جیسے ہزاروں سپوت جنھوں نے آگ کو لگتے دیکھا اس میں خود کو جلتا پایا جب انکی جانیں نکل رہی ہوں گی تو زندگی کے کون کون سے لمحات، اپنے پیاروں کے چہرے ان کی نظروں کے سامنے آئے ہوں گے؟ کئی لمحات تو وہ ہوں گے جو ان کی زندگی کے سب سے خوبصورت لمحے ہوں گے اس نے اپنی بیٹی کو یاد کیا ہوگا ایک خیال گھر اور اس کا خیال رکھنے والی بیوی کا بھی آیا ہوگا یا پھر یہ سوچا ہوگا کہ اگر جانے کا وقت آگیا ہے تو میرے اپنے میرے بعد خود کو کیسے سنبھالیں گے میں نے تو ان کی عادتیں ہی بگاڑ ڈالیں، شاید وہی ایک لمحہ ایسا تھا جب شہزاد کی بیٹی نے بابا کی وطن سے محبت کو پہلی بار اپنے بننے والے شعور میں محفوظ کیا ہوگا تب ہی اس کا ہاتھ بلوچستان کی حفاظت پر مامور سالار کی وردی پر لگے پرچم کی جانب اپنائیت سے بڑھا تھا۔ اس بچی کو ہم نے پرچم کی امانت سونپ دی ہے۔ اب اسے وہ تحفظ بھی دینا چاہیے کہ وہ کسی آئندہ صدمے سے گزرے بغیر اس پرچم کی حفاظت کے تقاضے پورے کر سکے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments