عورت ہونے کا شعری اعلامیہ


عارفہ شہزاد سے میرا تعارف اس کی کتاب \”جدید اردو شاعری میں کرداری نظمیں\” سے ہوا۔ یہ کتاب دراصل عارفہ کے ایم اے اردو کے \"naseerتھیسس کا کتابی روپ ہے جو 1998ء میں لکھا گیا اور 2007ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ مجھے یہ اس لیے بھی یاد ہے کہ اس کتاب کے آغاز میں میری ایک نظم کا اقتباس درج تھا۔ بقول عارفہ یہ نظم اس کے تنقیدی نقطہ ء نظر کی شارح ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ عارفہ کی میری نظموں سے رُو بہ رُوئی اُس وقت ہوئی جب وہ ایم اے اردو کی طالبہ تھی۔ شاعری کی طرف عارفہ کب آئی یہ میں نے کبھی نہیں پوچھا۔ کیونکہ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر شاعر و شاعرہ کا کم و بیش ایک جیسا ہوتا ہے، میں نے چھٹی/ ساتویں/ آٹھویں/ نویں جماعت سے لکھنا شروع کیا۔ بعض ستم ظریف یا ستم ایجاد تو نظم لکھتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی نظم لکھنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر مجھے اکثر پرتگیزی ادیب حوز سارا میگے یاد آ جاتا ہے جو کہتا ہے کہ \”ادب اپنی پیدائش سے پہلے موجود تھا\”۔ ادب کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن ہمارے ہاں تو بعض شاعر اور ادیب بھی بنفس نفیس پیدائش سے پہلے موجود ہوتے ہیں۔ خیر عجیب بات ہے کہ عارفہ نے شاعرہ ہونے کا اعلان تو کبھی نہیں کیا لیکن عورت ہونے کا اعلان پیدائش سے بیالیس سال بعد شعری مجموعہ\”عورت ہوں نا\” لا کر کیا ہے۔ شکر ہے اب اُس نے خود کو عورت تسلیم کر لیا ہے۔ شاید پہلے اسے یقین نہیں تھا کہ عورت ہونا تخلیقی عظمت کی دلیل ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے عارفہ نے ایم اے کے دوران سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔ پہلی نظم \”اوراق\” میں شائع ہوئی غالباً 1998ء میں، پھر چند نظمیں \”نیرنگِ خیال\” میں، غالباً 2000/2001ء کے دوران، اشاعت پزیر ہوئیں ۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور طویل خاموشی۔ وجہ وہی جو ہر عورت کے ساتھ ہوتا ہے یعنی شادی خانہ آبادی۔ پھر 2010ء کے بعد عارفہ فیس بک پر بکثرت نظر آنے لگی۔ نہ صرف نظر آنے لگی بلکہ اپنے جوہر بھی دکھانے لگی۔ اور 2012ء میں پہلی بار میں نے \”تسطیر\” میں عارفہ کی کئی نظمیں ایک ساتھ شائع کیں اور بقول عارفہ شاعری میں بریک تھرو اسے \”تسطیر\” ہی سے ملا۔ لیکن آجکل کی دیگر شاعرات کی طرح عارفہ بھی ادبی رسائل میں کم اور سوشل میڈیا پر زیادہ شائع ہوتی اور \”ٹیگتی\” رہی اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

عارفہ کا یک جھلکی دیدار کافی بعد 2013ء میں ہوا جب وہ اسلامک یونیورسٹی کی ایک تقریب کے دوران احمد جاوید کے ساتھ عجب شانِ \"arifa\"بے نیازی سے ہال میں داخل ہوئی اور سب سے اگلی قطار میں تشریف فرما ہو گئی۔ تصاویر بنوائیں اور چند منٹوں کی جلوہ آرائی کے بعد اسی شان سے ہال سے باہر چلی گئی۔ اِدھر اُدھر اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کہیں حاضرین پتھرا نہ جائیں۔ مڑ کر دیکھ لیتی تو پچھلی قطار میں عین اس کے پیچھے راقم بیٹھا ہوا تھا۔ بالآخر عارفہ نے شرفِ ملاقات اگست 2015ء میں غریب خانے پر تشریف لا کر بخشا۔ وجہ آمد ناچیز سے ملاقات نہیں بلکہ ایک تھیسس تھا جو اس کی ایک طالبہ اتفاق سے اس حقیر پر ہی لکھ رہی تھی۔ طالبہ تو بالکل اللہ میاں کی گائے تھی ایک لفظ بھی نہ بولی البتہ عارفہ نے چہک چہک کر پورا گھر چڑیوں سے بھر دیا۔ سارا وقت میرے بارے میں کچھ منفی ڈھونڈتی رہی۔ سب گھر والوں سے، ملنے والوں سے یہی پوچھا کہ کچھ ان کے خلاف، کچھ ان کے بارے میں منفی بتائیں۔ وائے ناکامی کہ اسے کامیابی نہ ہوئی۔ امید ہے کہ اب اس کالم کے بعد میرے متعلق وہ سراسر منفی ہو جائے گی۔ خیر تھیسس پہ جو باتیں ہوئیں جو آرا لی گئیں، حیرت ہے کہ وہ سب تھیسس میں کہیں درج نہیں۔ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اصل متن سے باہر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔ بالخصوص راقم کے مطالعہ کے حوالے سے جو جملے درج ہیں وہ کسی ادبی لطیفے سے کم نہیں۔ ممکن ہے یہ آجکل کی نصابی اور مشقیہ مقالہ نگاری کا نیا تنقیدی انداز ہو۔ سچ کہوں تو مجھے یوں لگا کہ عارفہ تھیسس میں طالبہ کی رہنمائی کے لیے نہیں بلکہ کچھ لوگوں سے ملنے ملانے، تعلقات بنانے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے آئی تھی۔ اتفاق سے عزیز دوست فرخ یار بھی معہ عیال و اطفال اُس روز عین موقع پر موجود تھے۔ سو گواہی پکی ہے۔ عارفہ کی نگرانی میں لکھے گئے اس تھیسس نے مجھے اتنا ڈرا دیا ہے کہ اب جب کوئی مجھ پہ تھیسس کی بات کرتا ہے تو منہ پھیر لیتا ہوں۔ پتا نہیں بعض شاعر، ادیب خود پر شاہکار قسم کے تھیسس کیسے لکھوا بلکہ لکھ لیتے ہیں۔ شاید عارفہ نے شاعروں میں اس فروتر و فروتن کو ٹیسٹ کیس بنایا۔ دیکھ لیجیے گا اب جو تھیسس آئیں گے وہ شرطیہ ماسٹر ہیس ہوں گے۔ شنید ہے کہ محبی ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے منع بھی کیا تھا کہ موضوع ضائع نہ کریں لیکن عارفہ باز نہ آئی اور شریف آدمی کو تختہ ء مشق بنا کر ہی چھوڑا۔

لمبی کالمانہ تمہید اور شخصی نوک جھوک کے بعد اب کچھ خامہ فرسائی کتاب کے بارے میں بھی ہو جائے ورنہ عارفہ ایک اور تھیسس کی\"arifa سزا سنا دے گی۔ کتاب کا نام \”عورت ہوں نا!\” بظاہر تانث اور روایتی عورت پنا لیے ہوئے ہیں بلکہ شاعری کو نسوانی بنانے کی شعوری کوشش اور \”کشش\” لگتا ہے۔ لیکن دراصل اس میں لہجے کے مختلف شیڈز ہیں جن میں تفاخر ،طنز اور احتجاج ہے۔ ہر قاری اس کی توضیح اپنے نقطہ نظر سے تو کرتا ہی ہے مگر کتاب کی نطموں میں یہ سارے شیڈز عکس پزیر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عورت جو مرد کے وجود کی نفی نہیں کرتی مگر اس وقت نفی کرنے پر بھی تل جاتی ہے جب اسے من چاہی محبت نہیں ملتی۔ مرد اس کا ہو کر بھی اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کا ہونا نہیں چاہتا۔ اس لحاظ سے یہ اس رویے پر پیراڈاکسیکل طنز بھی ہے جو عورت کی شاعری کو عورت کی اور مرد کی شاعری کو انسان کی شاعری قرار دیتا ہے۔

یہ اس رجولی ذہنیت کی ضد ہے جس کے لیے نظریہ ء وجودیت اور دیگر لامتناہی فلسفیانہ نظریات اور فرد کی کلیتاً آزادی کے مباحث تو قابل قبول ہیں مگر فیمنزم کی کوئی بھی شکل ایک گالی اور ادبی درجہ بندی یا مقید ڈبہ ہے، خواہ عورت اپنے بھیتر کے ساتھ ساتھ مرد کی نفسیات کے عمق پر بھی حاوی کیوں نہ ہو۔ میرے خیال میں یہاں \”فیمینزم\” کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جس میں ہمارے ہاں کے بعض پڑھے لکھے افراد بھی مبتلا ہیں۔ تحریکِ نسواں  صرف طبقہء اناث سے مخصوص نہیں، مرد بھی اس کا حصہ ہیں۔

عارفہ کے شعری مجموعے میں مردوں کی نفسیات کا ٹیڑھا پن بھی ملتا ہے۔ بلکہ کئی نظموں میں تو مرد کا پرسونا اوڑھ کر بات کی گئی ہے مثلا \”میل اسکارٹ\” یا  \”ہوا کا پیامبر\”۔ مرد صیغہ تانیث میں نظم کا پیرایہ تصوف کی روایت کے زیر اثر اختیار کرتے رہے ہیں مگر اس نوع کی نظمیں خالصتاً غیر شخصی تلازمہ کی ذیل میں آتی ہیں اور ہم احساسی کی ذیل میں بھی، جہاں مبینہ کردار کی نفسیات کی عکاسی مقصود ہوتی ہے اس کی اچھائی یا برائی کا بیان ثنویت اختیار کر جاتا ہے۔ چپٹی بازی اور سیکسٹنگ کے پیچھے کون سے نفسیاتی محرکات ہوتے ہیں انہیں نظم \”پریت کی راس\” اور \”سیکسٹنگ\” میں صیغہ واحد متکلم کی تکنیک میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اردو شاعری میں ان  حساس موضوعات پر کم کم نظمیں نظر سے گزرتی ہیں۔ نظم \”سیلفی\” بھی اسی نوع کی نفسیاتی درک کا اظہاریہ ہے۔ سیلفی کی علت بھی باقاعدہ ایک نفسیاتی توجیہہ رکھتی ہے۔ ہم خود کو جس طرح دکھانا چاہتے ہیں کوئی اور دکھا نہیں سکتا۔ لوگوں کے کھینچے ہوئے عکس ہمیں مطمئن نہیں کر پاتے۔ اب تو سیلفی کا شوق یعنی نرگسیت کا جدید روپ اتنا عام ہو گیا ہے کہ ہر سال درجنوں لوگ سیلفی بناتے بناتے حادثات کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔  امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن نے اس مرکب روگ یا سنڈروم کے لیے \”سیلفیٹز\” کی باقاعدہ اصطلاح وضع کی ہے۔ فیس بک ڈیپریشن اور سوشل میڈیا سے متعلق دیگر نفسیاتی عوارض پر تحقیقات اب ماس کمیونیکیشن کے نصاب کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہماری شاعرہ بھی چونکہ اسی فومو (فیئر آف مِسنگ آؤٹ) کی ہم عہد ہے، لہٰذا کتاب میں ان موضوعات پر نظموں کا ہونا قدرتی امر ہے۔

دیکھنے میں نسوانیت کا گرد پوش اوڑھے ہوئے عارفہ کی یہ کتاب درحقیقت متنوع موضوعات کی حامل ہے۔ اس میں رومانی نظمیں بھی ہیں اور عصری آشوب سے بھرپور نظمیں بھی، جذباتی بھی وارداتی بھی۔ چند سینئر شاعروں ادیبوں کے لیے خراجِ تحسین بھی اور کچھ رفتگان کے نوحے بھی۔ کچھ کسی لیبل کے بغیر خالص نظمیں ہیں۔ ان سب پر لکھنا اور نظموں کے عنوان گنوانا ایک کالم میں ممکن نہیں نہ کالم کا یہ مقصود ہے۔ یہ نقادوں کا کام ہے۔ اسلوبیاتی سطح پر عارفہ کی یہ کتاب اردو میں مستعمل نسائی شعری روایت سے جڑنے کی بجائے انحراف اور اپنا انفراد قائم کرتی ہے۔ ممکن ہے ایسی شاعری کے لیے نقادوں کو \”نیو فیمینزم\” کی اصطلاح وضع کرنی پڑے۔ مرحوم احسن سلیم عارفہ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ شاعرات میں اگلا دور آپ کا ہے۔ میں یہ تو نہیں جانتا لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ممکن ہے شاعرات میں اگلا دور اسی نوع کی شاعری کا ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments