ترکی – شخصی اقتدار کی بجائے ادارے مضبوط بنائیے


\"Shahidتُرکی میں چند سر پھروں کے ایک چھوٹے سے پندرہ سو سے زائد افراد پر مشتمل فوجی گروپ نے ناکام بغاوت کی کوشش کی (یہ الگ بات کہ اب تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے)۔ اس نے ناکامی کے باوجود بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ امت کا المیہ ہے کہ بغاوت صرف مسلم دنیا کا ہی خاصہ بن کر رہ گئی ہے۔ کبھی ہم یہ کیوں نہیں سنتے ک امریکہ میں کسی جنرل یا جلاوطن رہنما نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہو۔ کیوں تاریخ خاموش رہتی ہے کہ برطانیہ جیسے بڑے ملک میں فوجی افسران سیاستدانوں کی غلطیاں بھی چپ چاپ پی جاتے ہیں۔ یا شاید وہاں کے فوجی بزدل ہوں گے جو انہیں کسی غیر جمہوری قدم کی جرات نہیں ہوتی۔ نہیں یا شاید وہاں انصاف کا نظام اتنا مضبوط ہو گا کہ کسی کو ایسے قدم کی جرات نہیں ہوتی جو اداروں کو کمزور کر دے۔ یا پھر وہاں معیار زندگی اتنا بہتر ہو گا کہ عام آدمی آمریت کو خوش آمدید کہنے سے گریزاں رہتا ہے۔

ہر سکول، دفتر، ادارے، لائبریری میں دنیا کا گلوب موجود ہوتا ہے۔اس کو انگلی سے گھمائیں اور نگاہ ڈالیں۔ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں چاہے وہاں حکومت اسلامی ہے یا غیر اسلامی وہ کسی نہ کسی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ کہ ہم نے مقاماتِ مقدسہ تک کو بھی فرقوں میں گھسیٹ لیا ہے۔جس طرح ترکی کی ناکام بغاوت پہ دو طرح کے ہیش ٹیگ نظر آئے کہ ایک میں اس بغاوت کی ناکامی پہ افسوس اور ایک میں خوشی کا اظہار نظر آتا ہے تو ایسا ہیش ٹیگ بنانے میں بھلا کیا رکاوٹ ہے جس میں صرف مسلمانوں کو اتحاد کی طرف لایا جائے۔ کیوں صرف مسلم معاشروں میں ہی ایسے سرپھرے جنم لیتے ہیں جو بغاوت پہ اتر آتے ہیں۔

ترکی میں حالیہ بغاوت کا منبع فتح اللہ گولن ہے یا کوئی اور لیکن حالات کا جائزہ لیجیے۔ محترم رجب طیب 2003 سے 2014 تک ترکی کے وزیر اعظم اور بلا شبہ ان کے دور میں ترکی نے ترقی کی منازل بھی طے کیں۔ اس دور میں تمام اختیارات بھی انہی کے پاس تھے۔ پھر 2014 میں انہوں نے وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدارت کی کرسی سنبھال لی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح پہلے صدور کام کرتے رہے وہ بھی کرتے رہتے۔ لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے ملک میں صدارتی نظام مضبوط کرنے کی ٹھان لی۔ کیوں کہ اب وہ خود صدر تھے۔ فرض کریں کل کو ترکی کی حکومت طیب صاحب کے پاس نہ ہو تو کیا ترکی ترقی نہیں کرئے گا؟ صرف ایک ترکی نہیں بلکہ یہ پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے کہ شخصیات خود کو آئین سے زیادہ طاقتور سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ترک صدر جنگ بشار الاسد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جو 2000 سے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ صرف تین سال کا فرق ہے تو پھر لڑائی کیسی؟ بشار کا بھی دعویٰ یہی ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں تو پھر اسے بھی اس کے حال پہ چھوڑ دیں، بحث کیسی۔

المیہ دیکھیں فتح اللہ گولن 2013 سے پہلے موجودہ ترک صدر کے حامی تھے اور ان کے حلیف تھے۔ پھر 2013 میں ترک صدر کے خاندان کے خلاف کرپشن پہ تحقیقات شروع ہوئیں۔ \”گیس کے بدلے سونا\” سکینڈل ایران کو سونے کے بدلے گیس کے حصول کی صورت میں سامنے آیا۔ جس میں ترک عہدیداروں نے کم و بیش 13 بلین امریکی ڈالر کا سونا براہ راست اور متحدہ عرب امارات کے راستے ایران بھیجا جس کے بدلے ترکی کو ایرانی قدرتی گیس و تیل ملا۔ اس کی تحقیقات میں اس وقت کی حکمران جماعت کے کم و بیش 50 سے زائد افراد آئے اور ملوث بھی پائے گئے۔ اس وقت رجب طیب بطور وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر تھے۔ اس سکینڈل پر تحقیقات کے بعد کارروائی کی بجائے رجب طیب نے الزام لگایا کہ فتح اللہ گولن نے کلیدی عہدوں پر اپنے حامیوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کارروائی شروع کروائی۔ اس کے بعد نہ صرف گولن و رجب طیب کے راستے جدا ہو گئے بلکہ فتح اللہ گولن کی شروع کی گئی گولن تحریک جسے حزمت کے نام سے جانا جاتا ہے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر پابندی لگا دی گئی۔ گولن  کے حامیوں کو چن چن کر نکالا جانے لگا۔ تب سے یہ اختلاف اب تک جاری ہے کہ یہ ناکام بغاوت رونما ہوئی۔

لمحہ فکریہ ہے کہ ترکی ایک ابھرتی ہوئی نہ صرف عالمی طاقت ہے بلکہ عالم اسلام کا بھی اہم ملک ہے۔ حالیہ محاذ آرائی سے بغاوت تو ناکام ہوئی لیکن عالم اسلام کو بھی دھچکا لگا ہے کہ شنید تھی کہ ترکی نہ صرف خطے بلکہ امت مسلمہ کا رہنما بن کر ابھر رہا ہے۔ لیکن باہمی اختلافات کے باعث 1500 سے زائد فوجی افسران بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ اللہ کرئے کے عوامی طاقت سے کچلی جانے والی بغاوت دوبارہ نہ اٹھ پائے۔خدا کرئے کہ ساٹھ ہزار سے زیادہ متاثر ہونے والے خاندان کسی نئے بحران کا پیش خیمہ نہ ہوں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ شام و یا پاکستان، ترکی ہو یا ایران، سعودی عرب ہو یا خلیجی ریاستیں، افریقی مسلمان ممالک ہوں یا ایشائی، اقتدار سے چمٹے رہنا ہی عوامی خدمت کی علامت نہیں۔ اقتدار سے جونک کی طرح چمٹے رہنا ہی بغاوتوں کو جم دیتا ہے۔ ادارے اتنے مضبوط کر دیجئے کہ کسی کہ آنے یا جانے سے ملکی ترقی رکے ہی نہیں۔ بے شک باوردی آمریت جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ لیکن خدارا سول آمریت سے بھی جان چھڑائیے۔ تا کہ یہ ـــ\” چند سرپھروں کے گروپ\” اس طرح محاذ آرائی کے امت کو پارہ پارہ نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments