قومی سوگ اور جشن آزادی


\"Rashidانسان کی فطرت ہے کہ وہ غم کی رفاقت کا خواہاں نہیں ہوتا اور وقت کا احسان ہے جو درد کے لمحات کو رفتہ رفتہ نگل جاتا ہے۔ وقت کی یہ صفت دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کو بتانے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔ آج سے 69 سال پہلے جس ملک کو ہم نے حاصل کیا اس کی خوشی تو ماند نہیں پڑی مگر یہ ضرور ہے کہ دل دکھی ہے کہ جو مقصد قیام پاکستان کی بنیاد بنا آج ایک مدت بعد بھی اس سے دور ہیں۔ کیونکہ پاکستان کا وجود امن کے قیام کے لئے تھا۔ اس خطے کے باسیوں کو آزادی سے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے اس ملک کا تحفہ ملنے والا تھا اور یہ احساس بہت تقویت دہ تھا جبھی لوگ دیوانہ وار تحریک پاکستان کا حصہ بنے۔ اب جن لوگوں نے ہجرت کی، اس دوران جو مصائب و آلام پیش آئے وہ سب سہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی نسلیں شاد رہیں گی اور اپنے انداز سے زندگی بسر کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی۔ آزادی کے احساس نے ان کی ہجرت کی تلخیوں کو کم کر دیا تھا۔ فسادات جن کا لوگ نشانہ بن رہے تھے ان جان لیوا ہنگاموں کے بعد لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس عزاب سے چھٹکارا پا لیں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ لوگ مکمل اعتماد کے ساتھ اس تقسیم کو اپنے حق کے لئے یقینی طور پہ خوش آئند مان چکے تھے۔ ان کے خواب اس نو خیز مملکت کے مستقبل سے جڑ گئے۔ ان کی مسکراہٹیں بے شک درد کی آمیزش سے خفیف تھیں مگر آنکھوں کی روشنی سے خوشی کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ \”پاکستان بن گیا\”۔

پاکستان معرض وجود میں آ گیا، بھلا ہو اس کے بانی کا کہ جس نے ان سب عناصر کی نشاندہی بار بار اپنے خطابات میں کی کہ پاکستان کو سنوارنے کے لئے ہم نے کن خطوط پہ چلنا ہے۔ وہ کون سے اقدامات ہیں جنہیں اٹھا کر ہم پاکستان کے آنے والے کل کو روشن کر سکتے ہیں۔ ان تمام خطرات کو اپنی تقریروں میں قائد اعظم نے گنا جو پاکستان کی ترقی میں اور امن کے راستے میں رکاوٹیں بن سکتے ہیں۔ افسوس کہ ہم نے مڑ کے نہیں دیکھا کہ ہم نے جس طرح اس نعمت کو پایا اس سے ہمیں کیا سبق ملنا چاہئے تھا۔ ایک شخص جس نے نہ صرف اس ملک کو بنایا بلکہ اس کو آگے بڑھانے کا پروگرام دے کے رخصت ہوا، اس شخص سے ہم نے روائتی عقیدت تو رکھی مگر ان خطوط سے ہٹ کے چلے جو اس شخص نے تجویز کئے، انہوں نے تعلیم یعنی شعور کو اپنا بہترین دفاع قرار دیا؛ \” علم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے، اسے بڑھاؤ گے تو تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا\”۔ ہم نے ان سالوں میں علم کی افادیت کو گنتی میں رکھا، اس کے متعلق احادیث اکٹھی کی ہیں، قرآنی حوالے جمع کئے، سیاسی و سماجی قائدین نے اپنی تقریروں میں اس کی اہمیت پہ روشنی ڈالی۔ جب کہ عملی صورت حال یہ ہے کہ ہم زیادہ دارومدار دوسرے ممالک کی بنی ہوئی اشیا پہ کرتے ہیں۔ ہمیں تعلیم نے صرف خواندہ بنایا، اردو انگریزی بول چال سکھائی۔ مغرب کی بنی ہوئی مختلف ڈیوایسز سے معذور ہونے کا شرف بخشا۔ انگریزی فلمیں دیکھ کر اپنے اعلیٰ زوق کو اقوال زریں بنا کر پیش کیا۔ یہ حالات ہمیں در پیش ہیں مگر ہم شاید اتنے بہادر نہیں کہ انہیں تسلیم کرتے۔ ہمارا انحصار پرزہ جات سے لے کر بھاری مشینری تک جاپان اور جرمنی پہ ہے کیونکہ ان کی ٹیکنالوجی بہت عمدہ ہے اور اس پہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر زیادہ ادا کرنے کے متحمل نہیں تو پڑوسی ملک چین سے منگوا لیتے ہیں۔ وہ قربت کی وجہ سے ہمارے مزاج شناس ہیں اس لئے ہماری ضرورت کی قدرے سستی اشیا بعوض معیار میں کمزوری کے بنا دیتے ہیں۔ جعلی اور ملاوٹ کی فنکاری میں ہماری حاصلات کی دنیا معترف ہے۔ نجانے اس علم کا فیض ہمیں کیسے ملا؟ زیادہ منافع کی ہوس نے ہمیں اپنے ہی ہم وطنوں کی جان سے کھیلنے پہ آمادہ کر لیا۔ ہم اس اندھیں کنویں میں خود بھی ڈوبتے گئے کیونکہ اس رواج کو اتنا فروغ ملا کہ خود جعل ساز بھی کسی نہ کسی کی جعل سازی کا شکار ہے۔ ادویات اگر باہر کے کسی ملک سے منگوائی گئی ہیں تو زیادہ موثر ہوں گی۔ ان اعمال کے ساتھ اس ملک کی آزادی اور اس کے شہریوں کی جانوں کی قدر کیا صرف ایک دن کے لئے کرنی چاہئے کہ جس دن پاکستان بنا تھا؟

قائد اعظم کے فرامین، دیواروں اور کتابوں کی زینت تو بن گئے ہیں اور ان کے مقبرے پہ بھی خوب رونقیں ہیں۔ مگر یہ طے کرنا باقی ہے کہ اس عظیم قائد کی روح صرف ان اقدامات سے خوش نہیں رہ سکتی۔

ان کے کہنے کے مطابق، بے بسوں، لاچاروں اور بے آسرا لوگوں کی کفالت اور ان کی فلاح و بہبود کے اقدامات قائد اعظم نے ریاستی ذمہ داران کے سپرد کئے ہیں۔ اس پاک وطن کے امن کا راز بھی وہ بتا گئے۔ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ جب ترجیح ملے گی تو ملک کی تعمیر و ترقی اور پر امن شہری زندگی ایک خواب ہی رہے گی۔ ہمیں شاید ان تمام افکار کا ازسر نو جائزہ لینا پڑے گا ہمیں پوری دیانتداری سے اپنے مقام کو پرکھنا پڑے گا کہ ہم سے تقاضا کیا کیا گیا اور موجود کہاں ہیں۔

بلوچستان کے دل میں اب کی بار جو نشتر چبھا ہے، کیا ہم ایسے مزید گھاؤ روک سکتے ہیں؟ ہمیں بہرحال قومی سالمیت کو یقینی بنانے کی طرف پیش رفت کے لئے بنائی گئی پالیسیوں پہ غور کرنا پڑے گا۔ لوگوں کو ان کی آزادی کا احساس دوبارہ دلانے کے لئے ریاست کو وہ سارے کام کرنے پڑیں گے جو ادھورے تھے اور جہاں جہاں غلط فیصلے کسی سبب ہوئے ان سے انکار کی بجائے مستقبل میں عملاََ رد کر کے ہی ہم وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جو مقصود ہے۔ سوگ اور جشن ایک ساتھ منانے کا تجربہ شاید انوکھا ہے مگر اس موقع پہ ہم یہ عہد ضرور کر سکتے ہیں کہ ہماری نسلیں ہر 14 اگست کو صرف جشن منائیں گی جھنڈے لگانے کی رسمیں پھر پورے ملک میں لوٹیں گی جبکہ سوگ منانے سے ہم جلد کنارہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments