پھُپھی فاطماں اور بٹوارے کا حساب


\"mubashir\"میرے دادا، محمد حنیف بٹ، آج سے 69 سال قبل، ٹھیک اس وقت مجیٹھہ، ضلع امرتسر، میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنے کی تیاریوں میں تھے۔ اپنے تایا مرحوم، محمد اسلم بٹ، کے ساتھ کی گئی ہجرت کے معاملہ پر مجھے کئی نشستیں یاد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میرے ابو، محمد اکرم بٹ، اِس دن کے آس پاس بیمار تھے۔ انہیں بخار تھا، اور انہیں میدانی پنجاب کے رسوم و رواج کے مطابق دیسی مرغی کی یخنی، کالی مرچ میں بھنا سالن اور ساتھ ان چھنے جو کی روٹی دی جاتی تھی۔ اور اس دن بھی میری دادی مرحومہ، جن کا نام عائشہ تھا، نے تازہ سالن بنایا تھا، اور انہی گرمیوں کے آغاز میں اپنے گھر، جو کہ \”بوڑھ والے چوک \”کے بالکل پاس واقع تھا، سفیدی اور چونا بھی کروایا تھا۔

میرے پردادا، محمد عظیم بھٹ (سرحد کے اس پار، بٹ، بھٹ کہلوائے جاتے ہیں)، کی قبر مجیٹھ میں ہی تھی، اور وہ اس چھوٹے سے قصبہ میں مجذوب تھے، اور سائیں عظیم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بٹوارے کے وقت، میرے دادا کے دو بیٹے تھے، اسلم اور اکرم، یعنی میرے تایا اور میرے ابو۔ ان دونوں کے درمیان کئی بچوں کا وقفہ بھی تھا جو پیدائش کے فورا بعد فوت ہو جاتے تھے، تو تایا جی نے مجھے بتایا ہوا تھا کہ \”تیرے پردادے کے اک ہندو مرید، جو کہ خود بھی درویش تھا، نے تیرے دادا اور دادی کو کہا تھا کہ اب جو بیٹا پیدا ہوگا تو اس کے کان تم نے میری طرح چھدوانے ہیں، کیونکہ میں اس بیٹے کی زندگی کی دعا دوں گا۔\” ایسا ہی ہوا۔ میرے ابو، محمد اکرام بٹ کے دونوں کان اس سادھو کے کہنے پر چھدوائے گئے، اور ابو کے کانوں پر وہ نشان آج بھی موجود ہیں۔

مجیٹھہ سے امرتسر تک کا رستہ پیدل طے ہوا۔ اور میرے دادا کو ان کے اک دوست، جن کا نام اقبال سنگھ تھا، نے امرتسر کے نواح تک اپنی، اپنے بیٹوں اور خاندان کے دوسرے مردوں کی معیت میں بحفاظت پہنچایا، اور وہاں پہنچ کر دادا سے معذرت کی کہ اس سے آگے ان کے لیے ان کی حفاظت کی ضمانت مشکل تھی۔ وہاں میرے دادا نے اپنے گھر کی کنجیاں اقبال سنگھ کے حوالے کیں، معانقہ کیا، اور بھیگی ہوئی آنکھوں سے طرفین نے اک دوسرے کو کبھی بھی نہ دوبارہ ملنے، کہ جس کا انہیں خود بھی معلوم نہ تھا، کے عذاب سے گزرتے ہوئے ساری عمر اک دوسرے سے دور زندہ رہنے کے لیے خدا حافظ کہہ دیا۔ امرتسر ریلوے سٹیشن کے قریب پہنچے تو اک ہلہ آیا، اور بدحواسی میں میرے ابو، میری دادی کی گود سے گر گئے، اور سب گھر والوں نے دوسروں کے ساتھ، اک تھڑے کے نیچے بہنے والے بڑے سے گندے نالے میں \”پناہ\” لی۔ ہلہ قریب تر آ رہا تھا، تو میری دادی نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنی ممتا کو آگے رکھتے ہوئے اس پناہ گاہ سے میرے دادا کے شدید روکنے کے باوجود گلی میں بھاگی آئیں، اور میرے ابو کو اٹھایا اور واپس بھاگیں۔

اس ہڑبونگ میں (پنجابی میں ہڑبونگ کے لیے بہت عمدہ لفظ ہے: دمدمہ)، اک دوجے خاندان کی ایک بیٹی، جس کا نام فاطمہ تھا، وہ بلوائیوں کے ہاتھ چڑھ گئی جس کو وہ گھسیٹ کر ساتھ لے جارہے تھے، تو فاطمہ کے والد نے اپنے قافلے میں شامل دوسرے مردوں کے ساتھ جوابی ہلہ بولا۔ مگر فاطمہ دور سے دور گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔ کسی طرح، فاطمہ کے ابو، اس گروہ تک پہنچے جس نے فاطمہ کو اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا، اور بےبسی کے عالم میں اپنی بیٹی کو اس لڑائی جھگڑے میں اپنے ہاتھوں سے قتل کر ڈالا۔ واپسی پر، مجھے میرے تایا ابو نے بتایا تھا کہ، فاطمہ کی امی کی چیخیں انہیں بٹوارے کے پچاس سال بعد بھی یاد تھیں۔ وہ تیری پھوپھو سرو (انکا اصل نام سرور ہے) سے بڑی تھیں، اور سمجھ کہ تیری بڑی پھوپھو ہی تھیں، تایا جی نے بتایا۔

اس کے بعد اک لمبی کہانی ہے، جو سرحد کی لکیر کے دونوں جانب موجود ہے۔

میرےابو کو آج بھی اپنی ہجرت کی مجبوری یاد ہے، اور بات کرتے وہ جذباتی بھی ہو جاتے ہیں، مگر میں آج سرحد کے اس پار، ان تمام کو معاف کرتا ہوں کہ جو کسی بھی حوالے سے میرے خاندان کے بڑوں کو کاٹنے کے مجرم رہے۔ نفرت کے بیج سے نفرت ہی اگتی ہے، نفرت صرف آگے ہی بڑھ جانے سے ختم ہوتی ہے۔

میں اب چوالیسویں سال میں ہوں۔ زندگی کا ستر فیصد گزار چکا ہوں۔ میں اپنے گھر کی روایت میں کشمیری النسل، پکا پنجابی پاکستانی بڑا ہوا ہوں۔ سیاست، ریاست اور مملکتوں کے باہمی تعلقات کا مطالعہ میری پیشہ وارانہ زندگی کا حصہ رہا ہے، اور آج بھی ہے۔ مجھے اپنے مشرقی ہمسائے سے لڑائی کا کوئی شوق نہیں، مگر میں اس کا تہی دست بھی بن کر کبھی نہیں جینا چاہوں گا۔ مجھے اپنے مسئلے مسائل کے لیے پاکستان کے اندر ہی حل تلاش کرنے ہیں، اور مجھے کوشش سے حل ملے بھی ہیں۔ یہ میری ریاست ہے۔ اس کا قیام ہو چکا اور اس کے قیام کے کیمیاء پر بات کرنے والے مجھے تماشہ گر مسخرے محسوس ہوتے ہیں۔ اپنی ریاست کی بہتری کے لیے جدوجہد میری ذمہ داری ہے، اور یہ جدوجہد میں کروں گا۔ میں نفرت، تعصب، تشدد، جبر اور استبداد پر خاموش نہیں رہوں گا اور جمہوری روایت میں موجود ممکنات میں مکمل طور پر پُرامن رہتے ہوئے اپنی ریاست و معاشرت میں موجود مسائل، جو نفرت کے عمومی تاجروں کی دین ہیں، کے سامنےآواز بلند کروں گا۔ یہ سفر آسان نہ تھا، نہ ہوگا۔ مگر غریب ماؤں کی جھولیوں میں پیدا ہوجانے والوں کے لیے زندگی آسان کب رہتی ہے؟ سو ریاست و معاشرت میں نفرت اور کمتری کے تاجر اپنا ہنر آزمائیں، میں اور مجھ جیسے اپنا ہنر آزمائیں گے۔

\”پھُپھی فاطماں\” کو بھی تو جواب دینا ہے، جناب۔ ان کے سوال جب ہوں، تب میرے پاس جواب بھی تو ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments