دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے۔۔۔(2)


\"asifجلوس نکلا تو اس کی سزا بھی ملی۔

فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور جیل کی سزا سنا دی گئی۔ جس سر پھرے نوجوانوں کو سزا سنائی گئی ان میں معراج محمد خاں کے ساتھ میرے چچا انور احسن صدیقی بھی تھے۔ جیل تو شاید ایک محدود مدّت کے لیے تھی لیکن ’’سزا‘‘ زندگی بھر جھیلتے رہے۔ مشکل حالات اور زمانے بھر کی سختیوں کے باوجود اپنی بات پر قائم رہے۔ یہ ’’گرفتاری‘‘ عمر بھر کی تھی جس میں جیل کی جگہ زندگی نے لے لی تھی۔

فروری 1961ء میں جلوس نکالنے کے جُرم میں بہت سے طالب علموں کو گرفتار کر لیا گیا، ان طالب علموں پر جو گزری، وہ انور احسن صدیقی نے اپنی خودنوشت ’’دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے‘‘ میں اس طرح بیان کی ہے:

’’ہم سب لوگوں کو یہاں سے آرٹلری میدان پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ برنس روڈ کا علاقہ اسی تھانے میں آتا تھا اور ہمارے خلاف کیس اس تھانے میں درج کیا گیا تھا۔

آرٹلری میدان تھانے کا لاک اپ ہمارے ان ساتھیوں سے بھرا ہوا تھا جنہیں گزشتہ رات گرفتار کیا گیا تھا۔ بہت سارے گرفتار شدگان کو بعض دوسرے تھانوں میں بھی رکھا گیا تھا۔ ان میں فتح یاب علی خان اور معراج محمد خان بھی شامل تھے جن کو ایک الگ تھانے میں رکھ کر پولیس والوں نے ان کو زدوکوب کیا تھا۔ اس روز بھی سارا دن مزید لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لانے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ لاک اپ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی، اس ہجوم میں شیرافضل ملک بھی شامل تھے۔

ہم میں سے کسی کو بھی نہ تو اپنی گرفتاری کا کوئی ملال تھا اور نہ آنے والے دنوں میں ملنے والی سزا کا خوف۔ ہم نے جو کچھ کیا تھا اس\"aacchhkk\" کے عوامل وعواقب سے ہم بخوبی واقف تھے۔ ہم جانتے تھے کہ سیاسی نوعیت کا جلسہ کرکے اور ایک جلوس نکال کے جو ’’جرائم‘‘ ہم نے کئے ہیں ان کی مجموعی سزا اکیس سال قید بامشقت ہے۔ لیکن ہم میں کسی کی پیشانی پر کوئی ہلکی سی شکن تک نہیں تھی۔ ہمارے حوصلوں کی بلندی آسمانوں کو چھورہی تھی۔ دراصل ایک تو ہم لوگ اس وقت اپنی عمروں کے اس حصے میں تھے جہاں ہماری ذہنی وجسمانی توانائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور انسان بلاخوف وخطر ہر قسم کے مصائب و آلام سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار رہتا ہے اور ساری دنیا اسے اپنے سامنے ایک ایسے میدان کی طرح نظر آتی ہے جسے اس کو فتح کرنا ہے اور دوسری بے حد اہم بات یہ تھی کہ اس وقت ہماری دنیا میں ترقی پسند قوتیں اپنے اثرورسوخ کے عروج کے دورسے گزررہی تھیں۔ اس فضا میں ہر طرف جدوجہد، فتح وکامرانی کے نعرے گونج رہے تھے اور مایوسی، پسپائی اور ناامیدی کا دور دور تک کوئی گزر نہیں تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسند قوتوں کو اپنی جدوجہد میں بہت سی جگہوں پر ہزیمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ لیکن آنے والے فردا کی روشنی کی برچھیاں ہر جگہ ناامیدی کی تاریکیوں کا سینہ چیرے ڈال رہی تھیں۔ یہی وہ روشنیاں تھیں جن سے ہمارے نوجوان وجود تروتازہ تھے اور ہم دنیا کی کسی بھی بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانے کے لیے تیار تھے۔‘‘

مقدمے کے بارے میں انھوں نے بعض تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔

’’اس مقدمے کی کارروائی کے دوران ایک نہایت دلچسپ اور منفرد نوعیت کا جھوٹ بھی بولا گیا۔ جس دن ہم لوگ ایس ایم کالج کی کینٹین میں بینرز اور پلے کارڈز وغیرہ بنا رہے تھے اسی دن شام کو کالج کے پرنسپل عبدالستار کوہاٹی صاحب ذرا دیر کو کالج آئے تھے اور سیدھے اوپر اپنے آفس میں چلے گئے تھے۔ ان کا ڈرائیور کینٹین میں ہم لوگوں کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا اور ہم سے باتیں کرتا رہا تھا۔ وہ پٹھان تھا اور شیرافضل ملک سے پشتو میں گفتگو کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد کوہاٹی صاحب واپس چلے گئے۔ مقدمے کے دوران استغاثہ نے کوہاٹی صاحب کے ڈرائیور کو بھی گواہ کے طور پر عدالت میں طلب کیا۔ وہ ڈرائیور آیا۔ ممتاز علی شاہ نے ہم لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا ’’ان سب لوگوں کو دیکھو اور بتاؤ کہ تم ان میں سے کس کس کو پہچانتے ہو۔‘‘ ڈرائیور نے ہم سب لوگوں کو باری باری دیکھا۔ وہ بڑے مضحکہ خیز انداز میں ہم لوگوں کو دیکھ رہا تھا کچھ دیر تک وہ ہم لوگوں کو دیکھتا رہا اور پھر اس نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے کسی کو نہیں پہچانتا۔ عدالت نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ میں اور شیرافضل ملک کنارے والی سیٹوں پر ایک دوسرے کے برابر بیٹھے تھے۔ وہ ڈرائیور جاتے جاتے ایک لمحے کے لیے شیرافضل کے پاس ذرا سا رکا اور مسکرا کر پشتو میں آہستہ سے کچھ کہتا ہوا چلا گیا۔ شیرافضل مسکرانے لگے۔

\"anwaar\"

میں نے شیرافصل سے سرگوشی میں پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ شیرافضل نے آہستہ سے جواب دیا ’’وہ کہہ رہا تھا کہ میں سب کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔‘‘ ہم لوگ سمجھ گئے کہ مشفق استاد عبدالستار کوہاٹی نے ہم لوگوں کو بچانے کی کوشش کی ہوگی۔ کوہاٹی صاحب کو خود بھی عدالت میں طلب کیا گیا اور انھوں نے معراج محمد خان کے علاوہ سارے لڑکوں کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ معراج محمد خان کو پہچاننے سے وہ اس لیے نہیں انکار کرسکتے تھے کیونکہ معراج محمد خان ایس ایم کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ جب کہ کوہاٹی صاحب اس کالج کے پرنسپل تھے۔

جس دن میجر شریف نے اپنا فیصلہ سنایا، اس دن کمرۂ عدالت میں کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کو داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اس بات کی سن گن مل گئی تھی کہ آج فیصلہ  سنایا جائے گا۔ چناںچہ لڑکوں اور لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد عمارت کے احاطے میں جمع ہوگئی تھی۔ لیکن کسی بھی شخص کو کمرۂ عدالت میں نہیں جانے دیا گیا اور پولیس والوں نے کمرے کے دروازے اندر سے بند کر لیے۔

میجر شریف جب فیصلہ سنانے کے لیے آیا تو اس کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری، پتھر کی طرح سخت ہورہا تھا۔ اس نے پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ بڑے ہی میکانکی انداز میں پڑھنا شروع کردیا ۔ اس فیصلے کے مطابق دس ملزموں میں سے دو ملزموں، ڈاکٹر محبوب اور آغا جعفر کو رہا کردیا تھا اور باقی آٹھ ملزموں کو مجرم قرار دے کر ان کو مختلف المعیاد سی کلاس میں قید بامشقت کی سزا سنا دی تھی۔ شیرافضل ملک، فتح یاب علی خان، معراج محمد خان اور جوہر حسین کو ایک ایک سال قید کی سزا۔ امیرحیدر کاظمی کو نو ماہ کی اور انور احسن صدیقی، اقبال اور علی مختار رضوی کو چھ چھ ماہ کی سزا دی گئی تھی۔ میجر شریف فیصلہ سنانے کے بعد جو محض چند سطروں پر مشتمل تھا ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رکا اور وہاں سے فوراً چلا گیا۔ اس روز کمرۂ عدالت میں روز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی تعداد میں پولیس کی نفری موجود تھی۔ جس نے فوراً ہی ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا۔

سچ یہ ہے کہ یہ سزا ہماری توقع سے بہت کم تھی۔ ہم نے جن ’’جرائم‘‘ کا ارتکاب کیا تھا مارشل لا کے ضابطوں کے تحت ان کی سزا سات سال\"meraj-muhammad-khan\" اور چودہ سال بامشقت تھی۔ گویا مجموعی طور پر اکیس سال اور اگر دونوں سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں تو ہم چودہ سال۔ لمبی سزا کی توقع رکھتے تھے، لیکن ہم میں سے کوئی ذرا بھی فکر مند نہیں تھا۔ بس مستقبل پر بھروسہ تھا ہمیں یقین تھا کہ فوجی حکومت کے یہ اندھیرے زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکیں گے۔

ہم لوگ جیسے پولیس والوں کے نرغے میں کمرے سے باہر نکلے ویسے  ہی وہاں موجود طلباء و طالبات کی بھاری تعداد ہماری طرف لپکی، وہ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ کیا فیصلہ ہوا ہے لیکن پولیس والوں نے انھیں ہمارے قریب نہیں آنے دیا۔ ہم لوگوں نے وہیں سے چلاّ چلاّ کر ان طلباء و طالبات کو اپنی سزاؤں کے بارے میں بتایا۔

فضا ایک دم بدل گئی۔ بپھرے ہوئے طلباء وطالبات جوشِ غضب کے عالم میں نعرے لگانے لگے: ’’ایوب خان، مردہ باد… فوجی حکومت، مردہ باد… مارشل لاء، مردہ باد…‘‘ وہ لوگ نعرے لگاتے رہے لیکن پولیس والوں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور جلدی جلدی ہم لوگوں کو گاڑی میں دھکیل کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ گاڑی کے اندر بیٹھتے ہی ہم میں سے کسی نے اس وقت کا مقبول ومعروف گیت گانا شروع کردیا۔ وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہو… پکارتے ہیں یہ زمین وآسمان شہید ہو۔ یک بارگی آٹھ دس آوازیں ایک ساتھ مل کر اس گیت کو گانے لگیں۔ بند گاڑی کی جالیوں سے ہماری تیز آواز باہر جاری تھی۔ ہمارے دلوں کا عجیب عالم تھا۔ ہم سب پر گویا ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری تھی۔  ہمیں نہ پولیس کا ڈر تھا نہ اس سزا سے کوئی خوف تھا جو ہمیں سنائی گئی تھی۔ ہم لوگ سارے راستے اس طرح چلاّ چلاّ کر گاتے رہے اور پولیس کی گاڑی جیل تک کا طویل راستہ طے کرتی رہی… ایک کے بعد دوسرا گاتا… سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے… دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے… رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا… کس کے روکے رکا ہے سویرا۔

ہم لوگ گاتے بجاتے شور کرتے، نعرے لگاتے، گاڑی میں بیٹھے چلے جارہے تھے۔ ہمارے ساتھ جو پولیس والے بیٹھے تھے وہ خاموش تھے\"meraj-muhammad-khan-4\" اور ان کے چہروں پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ وہ یقینا ہم سے پہلے نہ جانے کتنے مجرموں کو لاتے لے جاتے رہے ہوں گے، لیکن انھوں نے اس طرح کے ’’مجرم‘‘ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں پہلی بار دیکھے ہوں گے اور اس لیے وہ ایک عالم حیرت میں تھے جس کا اظہار ان کے چہروں سے ہورہا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ ہم سے ہمدردی رکھتے ہوں لیکن وہ اس کا اظہار کرنے سے قاصر تھے۔

ہم لوگ جیل پہنچ گئے۔ تمام قیدیوں کو خبر ہوگئی کہ ایوب خان کے خلاف جلوس نکالنے والے لڑکوں کو فوجی عدالت سے سزائیں ہوگئی ہیں۔ قیدیوں کا جمِّ غفیر ہمارے گرد اکٹھا ہو گیا اور ہم سے ہماری سزاؤں کے بارے میں پوچھنے لگا۔

’’فکرنہ کرنا لڑکو‘‘ مجھے آج تک یاد ہے کہ ایک موٹے سے پستہ قد قیدی نے سینہ تان کر کہا۔‘‘ ہم تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے۔ میں سات سال کی سزا کا قیدی ہوں ابھی کئی سال یہاں رہوں گا۔ یہاں سپاہیوں میں اپنے یار دوست بہت ہیں۔

آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ تو نصف صدی پہلے کے وہ سارے واقعات کسی گم گشتہ اور شکستہ خواب کی طرح میرے ذہن کے پردے پر ابھر رہے ہیں۔ کیا تھے ہم لوگ؟ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان طالب علم جن کے پاس اپنے جذبوں کی حرارت اور اپنے جوش جنون کی دولت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ ہمیں کوئی پیسہ نہیں دیتا تھا۔ ہم کسی سے رقم لے کر کام نہیں کرتے تھے۔ ہم تو وہ لوگ تھے جن میں سے اکثر کے پاس کبھی کبھی بس کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم میلوں اور گھنٹوں پیدل چلنے والے لوگ تھے۔ ایرانی کے ہوٹل کی چھ پیسے کی چائے ہمارے لیے ایک نعمت کا درجہ رکھتی تھی۔ ہمارا رزق کسی در سے بندھا ہوا نہیں تھا۔ میں جب آج کے سیاسی کارکنوں کی اکثریت کو دیکھتا ہوں (خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے کیوں نہ ہو) تو وہ مجھے ایک ایسی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں جس کا ہم لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہمیں کہیں سے وظیفہ نہیں ملتا تھا اور ہم اپنے دل، ضمیر اور دماغ کی سچائی کے مطابق کام کرتے تھے۔ وہ وقت گزر گیا اور برسوں بعد جب ہم لوگ عملی زندگی میں داخل ہوئے تو ہم میں سے کچھ وہ نہیں رہے جو کہ اپنے طالب علمی کے عہد زریں میں تھے۔ سرد ہوتے ہوئے جذبوں نے ان کو زندگی کی ایسی شاہراہوں پر ڈھکیل دیا جہاں ان کے وجود اجنبی گردوغبار میں اَٹ کر دھندلا گئے… بس پرچھائیاں ہی باقی رہ گئی تھیں۔

اس رات زیر سماعت قیدیوں کی بیرک میں بڑا ہنگامہ رہا۔ بہت سے قیدی بہت رات تک جاگتے رہے اور ہم سے باتیں کرتے رہے ہم اب زیرسماعت قیدی نہیں رہے تھے بلکہ باقاعدہ سزا یافتہ قیدی بن چکے تھے۔

میری اور بہت سے دوسرے ساتھیوں کی گرفتاری

اس باب کے آخری پیرا کو انور احسن صدیقی نے ان الفاظ پر ختم کیا تھا:

’’اس وقت جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ان آٹھ سزایافتگان میں سے صرف تین طلبا زندہ ہیں۔ میں خود ، معراج محمد خان اور امیر حیدر کاظمی۔ باقی سب لوگ یکے بعد دیگرے اپنی اپنی داستانِ غم اپنے ساتھ لیے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔‘‘

ان سطور کے لکھنے کے تھوڑے دن بعد وہ بھی رُخصت ہوگئے۔ اور اب آخری نام بھی نہ رہا۔ لیکن اس احوال کے ساتھ کیا یہ داستانِ غم بھی ختم ہوگئی؟ پاکستان کی تاریخ کا یہ باب آج بھی یادگار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments