آزادی اور مکالمہ


\"zeeshan

جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے ، ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کا یوم آزادی منا رہے ہیں۔ مسرور ہیں اور ہمارے دل شادمان ہیں ۔ پاکستان، مسلم لیگ کی سیاسی تحریک اور قائد اعظم محمّد علی جناح کی سیاسی قیادت سے وجود میں آیا۔ ہم نے اس ملک کو با قاعدہ سیاسی مکالمے سے حاصل کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات پاکستان میں جاری دانشورانہ مباحثہ کے تناظر میں راقم الحروف کی نظر میں نہایت اہم ہیں۔

اول یہ کہ مملکت پاکستان، ہندوستان کے مسلمانوں اور اس خطہ کے باشندوں کے سیاسی حسن انتخاب کا نتیجہ ہے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے اکثریتی ووٹ سے مسلم لیگ کو اپنا سیاسی ترجمان منتخب کیا۔ موجودہ پاکستان جسے چار صوبوں کا وفاقی بندوبست بھی کہتے ہیں ان صوبوں کے عوام کی منظوری سے وجود میں آیا کہ ہم پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

دوئم یہ کہ تقسیم کا یہ فیصلہ رضاکارانہ اور جمہوری بنیادوں پر ہوا۔ ہم نے نہ یہ ملک چھینا اور نہ دوسرے حصے یعنی بھارت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ بعد از تقسیم، برطانیہ کا شاہی خاندان یہاں کے ریاستی بندوبست میں قابل احترام رہا ، ہم نے برطانیہ کے کامن لاء کو اپنے ملک کے قانون میں بطور بنیاد کے تسلیم کیا ، اور برطانوی طرز کی جمہوریت یہاں کا سیاسی نظام قرار پائی ۔ بھارت سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا ،ہم نے وہاں کے باشندوں کے حق خوداریت کو تسلیم کیا۔

مسئلہ تب پیدا ہوا جب دونوں طرف کے کچھ عقابی عناصر نے اس سیاسی مکالمے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے رضاکارانہ معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس پر امن انتخاب پر تلوار برچھے اور بندوق کی گولی سے حملہ کیا گیا ، یوں فساد برپا ہوا ۔ یہ عناصر اس بات کی واضح علامت تھے کہ اس خطے کے لوگوں کو پرامن سیاسی مکالمہ کے مقابلے میں تشدد کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مکالمے کا بندوق سے تصادم ممکن نظر آ رہا تھا ۔ اور ہم تقسیم کے بعد شہریت اور عسکریت کا باہمی تصادم ابھی تک بھگت رہے ہیں ۔

ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں طرف کے لوگوں کو یہ چیلنج در پیش ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھارتی ریاست کا رجحان جمہوریت کی طرف جبکہ پاکستانی ریاست کا رجحان بدقسمتی سے بہت سارے اسباب کی بدولت جلد ہی عسکریت کی طرف مبذول ہو گیا۔ یوں تقسیم کی اصل کہانی جو مکالمے اور رضاکارانہ معاہدے پر تھی، تشدد، قربانی، جنگ، جھگڑے، اور نفرت کا رخ اختیار کر گئی۔ یہ ملک اس وقت ٹوٹا جب شہریت پر عسکریت غالب آگئی۔ یہ ملک جب بھی نازک حالات سے گزرا ہے اول تو ان لوگوں کی وجہ سے گزرا ہے جنہوں نے نازک حالات کی دہائی دی کیونکہ وہ شہریت پر عسکریت کے زور سے قابض ہو گئے تھے یا ایسا کرنا چاہتے تھے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان ایک سیاسی تحریک تھی۔ اختلاف رائے سیاست کا مزاج ہے۔ اس کے بغیر سیاسی ارتقاء ممکن نہیں ۔ یوں جب یہ تحریک برپا تھی تو اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان اس سیاسی مقدمے پر اختلاف موجود تھا کہ علیحدہ ملک کا یہ مطالبہ درست بھی ہے یا غلط ہے ۔ دیکھئے اختلاف رائے بد نیتی کا ثبوت نہیں ہوتا بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بطور شہری آپ ایک منفرد رائے کے مالک ہیں۔ سیاسی مکالمہ نیت کا تعین کرنے میں وقت صرف نہیں کرتا کیونکہ دوسرے کی نیت کا تعین سرے سے ممکن ہی نہیں۔ یہ اسلوب سراسر ناقص ہے کہ قائداعظم اور حسین احمد مدنی ، مہاتما گاندھی اور سبھاش چندربوس میں صحیح النیت کون تھا؟۔

پاکستان اگست 1947 میں وجود میں آ چکا ، اب یہ محض سوال نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ نہ بنتا تب بھی سوال زندہ رہتا کہ اگر بن جاتا تو کیا اس میں خیر تھی یا نہیں؟ بننے کے بعد بھی اگر سماجی علوم کے ماہرین یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ اگر نہ بنتا تو ہندوستان کی عوام کا بھلا ہوتا یا نہیں؟ یہ سوالات بھی اپنے اندر کسی قسم کی بد نیتی نہیں رکھتے۔اس لئے ضروری ہے کہ سوالات اٹھانے کے حق کا احترام کیا جائے اور اختلاف رائے کو بد نیتی یا غداری سمجھنے سے پرہیز کیا جائے ۔

حب الوطنی کا تعین سوالات کی نوعیت سے نہیں ہو سکتا کہ شہری کیسے سوالات اٹھاتا ہے۔ حب الوطنی خاکسار کی نظر میں یہ ہے کہ آپ پر امن سیاسی مکالمے اور سیاسی جدوجہد کے قائل ہیں یا نہیں اور آیا آپ شہریوں کے حق انتخاب کو تسلیم کرتے ہیں یا محض اپنی رائے شہریوں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں ؟ حب الوطنی سے مراد یہ ہے کہ آپ خطے کے لوگوں کو پرامن و خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ پر امن لوگ معصوم ہوتے ہیں۔ سوسائٹی کے دشمن وہ ہوتے ہیں جو پرامن مکالمے و سیاسی جدوجہد کی جگہ جبر اور بندوق کا سہارا لیتے ہیں ۔

چوتھی بات یہ کہ قیام پاکستان کا فیصلہ اس وقت کی مسلمان نسل کا حق انتخاب تھا ۔ کیسا نظام ہو اس کا بھی اظہار انہوں نے ڈھکے چھپے انداز میں کر دیا۔ سیاسی عمل کسی ایک جنریشن کے فیصلے کے بعد رک نہیں جاتا ۔ آج کی نسل بھی آزاد ہے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ وہ کس طرز کے سیاسی سماجی اور معاشی نظم کے تحت پاکستان میں رہنا چاہتی ہے ۔ اسی طرح آنے والی نسلیں بھی اپنے اس حق انتخاب میں آزاد ہوں گی ۔ ہمارے بزرگ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے یہ بحث ہمیں ان کے فہم کو سمجھانے میں مددگار تو ہو سکتی ہے مگر ہمیں تاریخ کے ایک خاص دور اور اس عہد کی نسل کے فیصلے میں منجمد نہیں کر سکتی ۔ ہر زندہ نسل اپنے عہد کی خود وارث ہے۔

آخری بات یہ کہ ملک کی آزادی اور شہری کی آزادی میں فرق نہیں ہونا چاہئے ۔ ملک کی آزادی سے مراد یہ ہے کہ اب اس کے شہری اپنی سیاسی سماجی اور معاشی زندگی میں آزاد ہیں ۔ ان پر قوانین جبر سے نافذ نہیں ہوں گے بلکہ اب وہ اپنے اجتماعی شعور سے بہتر قوانین کا انتخاب کریں گے اور ان کی پابندی کریں گے ۔ شہریت ہی وہ واحد بنیاد ہے جس سے ہم سیاسی آزادی کا مطلب و مفہوم سمجھ سکتے ہیں ۔ اگر شہری اپنی سیاسی سماجی اور معاشی زندگی میں آزاد نہیں تو ان کا معاشرہ (ملک) کیسے آزاد ہو سکتا ہے ؟، اس سے مراد یہ ہو گا کہ وہ ملک ہنوز بالادست (ملکی یا غیر ملکی ) طبقات کے قبضہ میں ہے ۔ یہ ملک سیاسی حق انتخاب کی اساس پر بنا ہے ۔ اس تحریک کے دوران ہماری پرامن سیاسی مکالمے سے غیر مشروط وابستگی رہی ہے ۔ پاکستان کا قیام دراصل جمہوریت کے مقدمے کی مضبوط دلیل ہے ۔ اس ملک کا اجتماعی سیاسی بندوبست جمہوریت کے سوا کوئی اور ممکن نہیں ۔ یہی اس دن کا مقصد اور پیغام ہے جسے ہمیں نہیں بھلانا چاہئے ۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments