زمانہ جاہلیت سے زمانہ عقلیت تک


\"Mohsin

(محسن امین ھرل)

پیغمبر اسلام کی آمد سے قبل کے وقت کو زمانہ جاہلیت کا نام دیا جاتا ہے۔ ہم نے آج تک پہلی جما عت سے لے کر بی اے تک کے نصاب اسلامیات میں اُس زمانے کیلئے جاہلیت کا لفظ ہی پڑھا اور سُنا ہے۔ لیکن آج تک غورکرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اُس زما نے کو زمانہ جاہلیت کیو ں کہا جا تا ہے۔ کیا وہ لو گ تعلیم سے نا بلد تھے۔ کیا ان کا اپنا ادبی ورثہ نہیں تھا ؟ آخر کیا وجہ تھی جس وجہ سے اُس زمانے کو زمانہ جاہلیت کہا جا تا ہے۔

اگر ہم تعلیم کی غیر موجودگی کو جاہلیت گردانیں تو یہ بات عیا ں ہو گی کہ عربی لوگ تعلیم میں دوسری اقوا م سے قطعی پیچھے نہ تھے چونکہ اس وقت ساری دنیا میں موجودہ دور کی طرح سائنس کا دور دورہ نہیں تھا اس لیے عرب بھی اپنے زمانے اور کلچر کے مطابق ہی تہذیب یافتہ تھے، بلکہ ان کے ہاں ادب کا ایک وسیع ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ امرا ء القیس انتارہ اور زہیربن سلمی جیسے شعرا ء پر عرب آج بھی فخر کر تے ہیں اورعربوں کو اس وقت بھی اپنی زبان دانی پر فخر تھا۔ بلکہ اُس زما نے میں بھی جو لو گ عربی بولنا نہیں جا نتے تھے اور غیر عرب تھے ان کوحقارت سے عجمی یعنی گونگا کہہ کر مخا طب کیا کر تے تھے۔

حد تو یہ کہ سننے میں تو یہاں تک بھی آتا ہے کہ جس طر ح آج اگر کسی کی نرینہ او لاد نہ ہو تو لو گ اس کو رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اُس زمانے میں اگر کس کا بیٹا شاعری سے نابلد ہوتا تھا اُس کو ایسے ہی قابل رحم گردانا جا تا تھا اور با قا عدہ طعن و تشنیع کا نشا نہ بنا یا جا تا تھا کہ کیسا بیٹا جنا ہے جو شاعری سے نابلد ہے۔ اس کے علا وہ وہ لوگ اپنے شا عرا نہ مجمو عے کعبے کی دیواروں کے ساتھ لٹکایا کرتے تھے تا کہ لوگ اسے پڑھیں اور انکا قبیلہ اس بات پر فخر کر سکے جنہیں معلقات کہا جاتا تھا۔ مزید برآں قبائل کے آپس میں ہو نے والے معاہدے بھی تحریری شکل میں ہوتے تھے جسکی واضح مثا ل مقاطع قریش کی بھی ملتی ہے جو کعبے کی دیوار کے سا تھ لٹکایا گیا تھا اور جسے دیمک چٹ کر گئی تھی اور با لکل جس طرح آجکل ہمارے ہاں مشا عرے اور ادبی محافل کا انعقا د کیا جاتا ہے اس طرز پر عربوں میں بھی با قا عدہ ادبی میلے منعقد ہوا کرتے تھے اور شعرا ء اُس میں اپنا اپنا کلام پیش کر تے تھے۔ اس کے علاوہ جنگوں کے موا قع پر رجزیہ اور رزمیہ کلام بھی پڑھے جا تھے تھے جس میں آبا و اجداد کی بہا دری کے وا قعا ت سنا ئے جا تے تھے۔ الغرض تو اس سا رے ما حو ل کو جاہلیت کا نا م کس وجہ سے دیا گیا تھا۔ میرے خیا ل میں جاہلیت کا نام انکے زندگی کی طرف رویوں کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ مثلا بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا۔ انسا نو ں کی تجا رت۔ کسی کو ناحق قتل کرنا اور معمو لی جھگڑوں کی طو ا لت یہا ں تک بڑھتی کے نسل در نسل خا ندا نی دُشمنیاں چلتی تھیں۔ یہاں تک کے لڑنے وا لے کو لڑا ئی کی اصل وجہ کا بھی پتا نہیں ہو تا تھا۔

اگر جاہلیت کا معیا ر اوپر بیا ن کی گئی وجوہا ت ہیں تو سو چنا ہو گا کہ ہما رے آج کے حالات اُن حالات سے کس قدر مختلف ہیں؟۔ آیا کہ اگر وہ جا ہل تھے تو ہم کیا ہیں؟۔ جاپان، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک جہاں زندگی کی قدر کی جاتی ہے، سستا انصاف مہیا کیا جاتا ہے اگر وہ لوگ عربوں کی جہالت کی بات کریں تو پھر بھی سمجھ آتی ہے مگر کیا بھینس بھی کسی کو کالک کا طعنہ دے سکتی ہے ؟۔

اگر وہ لو گ اپنی بیٹیو ں کو زندہ درگور کرتے تھے تو بہنوں بیٹیوں کے چہروں پر تیزا ب تو ہم لوگ بھی پھینکتے ہیں۔ قندیلیں تو آج بھی گل کی جاتی ہیں۔بہوؤں کو زندہ تو آج بھی جلا یا جا تا ہے اور کُچھ عرصہ پہلے ہی اخبار میں حیدر آباد کے حوا لے سے خبر شا ئع ہو ئی تھی جس میں باپ اپنے بچے فروخت کر نے بازار میں لے کر آیا ہو ا تھا۔ تو ہم اپنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتے ہیں کہ صرف اسلام سے پہلے والا زمانہ ہی زمانہ جاہلیت تھا۔

اور اگر جھگڑوں کی طوالت کا ذکر کریں تو عربوں میں بنی بکر اور بنی تغلب کے مابین ہونے والی بسوس کی لڑائی کا ذِکر ملتا ہے جو کہ اونٹنی کی وجہ سے شروع ہوئی تھی اور کم و بیش چالیس سال پر محیط رہی اور کئی لو گ اس میں لقمہ اجل بنے۔ اور اگر پاکستا نی تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو انڈیا اور پاکستان کی علیحدگی سے جو لڑائی شروع ہو ئی تھی اُس دُشمنی کی شدت کم و بیش آج بھی وہی ہے۔ جو نسل بٹوارے کا شکار ہو ئی وہ کب کی مر کھپ چکی ہے اُس نسل کا شا ید ہی کو ئی فرد سرحد کے دونوں اطراف میں مل سکے۔ تو ہم ایک دوسرے سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں گو کہ وہ بٹوارہ وقت کی ضرورت تھا لیکن اب جبکہ تقسیم ہو چکی اور اس آفت کی زد میں آنے والی نسل بھی ختم ہو چکی لیکن دونوں طرف کے انتہا پسند مسلسل عوام کو جنگ پر اکسا تے اور نفر ت پیدا کر تے رہے ہیں حالانکہ غور کریں توہم میں سے شاید کو ئی بھی اپنی گذشتہ تیسری نسل پر ہو ئے مظا لم کا بدلہ لینے کے عمل کو قا بل تحسین نہ سمجھے۔ اور کو ئی بھی لڑائی کو تیار نہ ہو۔ کیونکہ اب یہ بات پختہ یقین کے ساتھ نہیں کی جا سکتی ہے کہ صرف مسلمانوں کے آبا ؤ اجدا د پر ظلم ہوا تھا یا صرف ہندؤوں پر مظالم ہوئے ہوں گے اور اُس کے بدلے میں مسلمانوں اور ہندؤوں نے صرف اس وجہ سے کو ئی بدلہ نہیں لیا ہو گا کہ انکے مذاہب انہیں اس بات سے منع کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسا تو عقلی طور پر ہی ممکن نہیں کہ جو لو گ سرحد کے آرپار خود کش دھما کے کرتے ہیں اور معصوم لوگوں کو قتل کر تے ہیں ان کے آباؤاجدادنے اس وقت ظالموں کوبخشا ہو گا اور بلا شبہ دونوں اطراف پہ خونریزی ہوئی تھی۔ تو جب دونوں طرف لاشیں گری تھیں اور دونوں طرف خون بہا تھا تو اب کون بتائے گا کہ کم و بیش چار جنگیں لڑ کر بھی حساب برابر ہو ہے یا نہیں۔اس لیے اتنی لمبی بات کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں صرف اسلام سے پہلے زما نے کو زمانہ جاہلیت کہنا چھوڑدینا چا ہیے کیونکہ جن وجوہ کی بنیاد پر وہ زمانہ جاہلیت کہلا تا تھا وہ تمام چیزیں بدرجہ اتم اور زیادہ شدت کے سا تھ ہمارے معا شرے میں جوں کی توں مو جو د ہیں۔

اگر اسلام قبول کر کے بھی بیٹیوں کو زندہ جلانا ہے اور اڑسٹھ سال پڑا نے وا قعے کی وجہ سے ہمارے پڑوسی ملک کے ساتھ ہما را کو ئی لین دین نہیں ہے اور ہم چا ر جنگیں بھی لڑ چُکے ہیں تویہ کہنا بے سود ہے کہ زمانہ جاہلیت ختم ہو چکا ہے بلکہ تازہ زہ ترین صورت حال تو یہ ہے کہ وہ لو گ تو انسا نو ں کو غلا م بنا کر بیچتے تھے لیکن ہمارے ہا ں تو لاہور سے بہت زیادہ بچوں کو اغوا کرنے کی خبریں پھیلی ہوئی ہیں اور صدمے کی بات یہ ہے کہ ان خبروں کے مطابق ہمارے عہد کے پڑھے لکھے لوگ چونکہ جاہل نہیں ہیں اس لیے یہ لوگ اغوا شدگان کو غلام بنانے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے بلکہ انکے جسمانی اعضاء نکال کر فوری طور پربازار میں بیچ دیتے ہیں کیونکہ عقلمند اور جاہل برابر کیے ہو سکتے ہیں، فرق تو ہوتا ہی ہے جاہلوں اور عقلمندوں کے کاروبار میں۔
مولانا حا لی مسدس میں لکھتے ہیں کہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پر جھگڑا
لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا کبھی پا نی پینے پلانے پہ جھگڑا

عربوں کو جاہل کہنے کا حق ہم پاکستانیوں کو کس نے دیا چھاج بولے تو بولے مگر نگوڑی چھاننی کیوں شور مچائے ،جس کے اپنے دامن میں ہزاروں سوراخ ہیں۔اصل میں مولانا حالی صاحب کسی اور کے جوتے میں پاؤں ڈال رہے ہیں کیونکہ لازمی نہیں کہ جو بات ہم کو ہندوستان میں وسائل کے ذخائر پر بیٹھ کر جہالت معلوم ہوتی ہواس کمیاب پانی کے لیے عرب کے صحرا میں لڑنا بھی جہالت ہو۔کسی کو جاہل جاہل پکار کر ہم اپنی خجالت کم نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments