اللہ میاں تھلے آ


\"sick-woman\"(عظمی طور)

ابنارمل رویوں کے شکار لوگ ہر دم ہر پل ایسے ہی پکارتے نظر آئیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

اثر فلک سے اتر آ ذرا خدا کے لیے
کہ ہم نے ہاتھ اُٹھائے ہیں اب دُعا کی لیے

یہ بات لکھتے ہوئے کئی بار اس بات پہ دھیان گیا کہ بی بی یہ معاشرے کی ذہنی صحت پہ لکھی جانے والی تحریروں میں سے ایک ہوگی اور بہت سی ایسی لکھی جانے والی تحاریر کی طرح یہ بھی کہیں نیچے بہت نیچے دب جائے گی۔ ذیادہ سے ذیادہ کیا ہوگا کوئی جذباتی سمجھ کر سر جھٹکے گا اور گزر جائے گا یا خود جذباتی ہو کر کچھ دیر روئے گا دل دکھائے گا اور پھر چل سو چل ۔ لیکن جذبات کے اظہار پر پابندی لگانا یہاں قطعاً منع ہے ۔ (سوشل میڈیا الیکڑانک میڈیا کیطرف اشارہ)

(1) اس کا بیٹا Deaf تھا ۔ یہ لفظ اس کے لیے Reasonable تھا ۔ تکلیف اپنی جگہ لیکن اس لفظ نے کافی ڈھارس بندھا رکھی تھی ۔

(2) اس کے شوہر کو بہت غصہ آتا تھا اور یہ اس کی عادت تھی ۔ اس حالت میں وہ سب بھول جاتا تھا کہ وہ ایک حساس اور چھوٹے دل کی عورت ہے اور جلد گھبرا جاتی ہے ۔

(3) وہ یتیم تھی اس کے سُسر کو بات کاٹنے کی عادت تھی ۔ اس کی ہر بات سے اختلاف تھا ۔ اس کی بات لبوں پہ آنے سے پہلے کہیں اور نکل جاتی ۔

(4) اس کا بھائی ایک روایتی مرد تھا۔ اس کے کان اپنی ماں بہن اور بیوی کیلئے بیٹی کی بانسبت کچھ اور سنتے سمجھتے تھے ۔

(5) اس کی بہن کو طنزیہ بات کرنے کی عادت تھی لیکن وہ دل کی بری بالکل نہیں تھی ۔

(6) وہ پورے گھر کی جان تھی ۔ اچانک بیماری نے اسے ادھ موا کر دیا ۔ اب ایک کمرے میں پڑی زندگی کے دن گن رہی ہے ۔

(7) اس کے دل میں ڈھیروں شکایات پنپ رہی تھیں لیکن وہ ایک ذہنی طور پر مفلوج معاشرے کی victim تھی ۔

عورت کے موضوع پہ بات کرنا میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے خود کو کھینچ کھینچ کر سب کے سامنے لا رہی ہوں مطلب سخت ناپسند ۔ لیکن آپ یہاں خود کو رکھیں ۔ ایک کمزور انسان کی حیثیت اس معاشرے میں کیا ہے ۔ وہ کمزوری مالی طور پر ہو ، جسمانی طور پر یا جذباتی طور پر ہم اور یہاں اس دنیا میں اس معاشرے میں آسانی سے رہنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر سامنے والے کا دل دکھانے کا سامان دن رات کیے جاتے ہیں ۔ اور سوچتے بھی نہیں ۔

رویوں پہ بات کی جائے تو لوگ برا مانتے ہیں لیکن یہ بھی تو مانے کوئی کہ رویے مار دیتے ہیں بلکہ مار کے رکھ دیتے ہیں۔ (محسوس کر لیا کریں اس پہ کچھ خرچ نہیں آتا)

بات صرف اتنی ہے کہ یہاں جو بیمار ہو یا ہو جائے یا پھر کسی میں کچھ کمی ہو تو ایسے میں اسے الگ کر دیا جاتا ہے ۔۔ اسے ایسے ٹریٹ کیا جاتا ہے جیسے وہ اچھوت ہے جیسے وہ بوجھ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ کرنے والے اس کے اپنے بھی ہو سکتے ہیں باہر والے بھی ۔ ایسے میں بیمار، معذور دعا اور دوا کے ہوتے ہوئے بھی سب سے بلکہ خود سے کٹ جاتا ہے ۔اب جیسے شاعر چاہتا ہے ویسے اللہ میاں تو نیچے نہیں آسکتا ناں ۔ \”

\”شیشہ روز پھرالے بندہ
شیشے نوں انسان نہ لبھے\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments