کیا افغان مہاجرین کی موجودگی ہمارا مسئلہ نہیں ہے؟


\"nodan-nodkhan-nasir\"(نودخان ناصر)

محترم ذیشان ہاشم نے اپنی تحریر \”کیا افغان مہاجرین ہماری معیشت تباہ کر رہے ہیں؟\” میں افغان مہاجرین کے پاکستان کی معیشت پر بوجھ نہ ہونے کی سیاسی اور سائنسی نقط نظر سے وضاحت پیش کی ہے ،ان کی تحریر اپنے موضوع کی حد تک کچھ کمی بیشی کے ساتھ قابل قبول ہے، لیکن مسئلہ صرف معاشی جمود کے نہ ہونے یا وسائل کے ذرائع آمدن کے تعین کا نہیں ہے۔

بوجھ نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مہاجرین کو لاکهوں کی تعداد میں شناختی کارڈ، لوکل سرٹیفکیٹ جاری کرکے مقامی آبادی کی معاشی، اقتصادی، تعلیمی اور سماجی ناکہ بندی کر دی جائے، بلوچستان میں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ سے بیس لاکھ مہاجرین موجود ہیں۔ مبینہ طور پر ایک لسانی تنظیم کی علاقائی اور نسلی تعصب کی بناء پر عددی برتری حاصل کرنے کی سعی میں ان مہاجرین سمیت کئی لاکھ دیگر افغان شہریت رکھنے والے افراد کے کهلی مدد کر کے دهونس دھمکی اور بعض جگہوں پر نادرا عملے کی ملی بھگت سے، رشوت کے ذریعے ان میں سے اسی فیصد کے قومی شناختی کارڈ اور بیشتر کے پاسپورٹ تک بنوا چکی ہے، جن کی سال ہا سال سے تجدید بهی ہوتی آرہی ہے۔

ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ کے بغیر شناختی کارڈ بننا ممکن نہیں،لیکن ان کو بغیر کسی رکاوٹ کے، ہزاروں کی تعداد میں جاری ہوچکے ہیں اور آج بهی دهڑلے سے ہورہے ہیں۔ ان غیر قانونی کاغذات کا استعمال کر کے وہ بلوچستان کو سالہا سال سے عوامی رہنماؤں، کارکنوں کی پس زنداں اذیتوں اور اپنی نسلوں کی قربانی دیکر جدوجہد کے نتیجے میں ملنے والی ہر صوبائی، وفاقی اور بین الاقوامی تعلیمی، تجارتی یا ملازمت کے موقع کو چور راستے سے ہڑپ کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ قتل غارتگری، اغوا برائے تاوان، اور بین الاقوامی دہشت گردوں کے لئے سائبان کی بیشتر آماج گاہیں انہی کی آبادیوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ پشاور یا ملک کے دیگر شہروں کی طرح مہاجر کیمپوں تک محدود نہیں بلکہ نچلے طبقے کے رہائشی علاقے سے لیکر شہر کے پوش ہاوسنگ سوسائٹیوں میں سمگلنگ اور جرائم کی آمدنی سے اپنے کئی کئی بنگلوں کے مالک ہیں۔

کاروبار کرنا ہر شخص کا حق ہے،چاہے وہ کوئی غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو لیکن کاروبار کے نام پر مارکیٹ پر ہر سمت سے قبضہ ،زمینوں اور اور مکانات کو منہ مانگی قیمت پر خریدنےکا سرمایہ رکهنے والے اس مہاجر کے سامنے متوسط طبقے کے اپنے گھرہونے کی آرزو ،ایک خواب بن چکی ہے۔

بات یہاں تک ہوتی تو ہم اپنی محرومیوں پر ہمیشہ کی طرح رو پیٹ کرصبر کر لیتے ، دہشتگردی اور ان جرائم کو روزمرہ کے معمول کا حصہ قرار دے کر آہیں بهرتے اور باقی ہم وطنوں کی پیروی میں بہتری کی امید میں رہتے لیکن عزیزم ان سب کے علاوہ ایک سب سے بڑا مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے وہ ووٹ کے غیر موثر ہونے کا ہے۔

آپ خود سوچیں، ووٹ سے عوام اپنے باہمی رضامندی سے کسی شخص کو منتخب کر کے اپنے روزمرہ کے مسائل سے لیکر قانون سازی کا اختیار دیتے ہیں،لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہمارے علم کے مطابق لاکھوں غیر قانونی اور غیر ملکی شہریوں کے بل بوتے پر مخصوص عصبیت کے شکار اس مشہور لسانی جماعت نے باقاعدہ افغان شہریوں کو کوئٹہ کے متعدد یونین کونسل کی کونسلری سمیت صوبائی حکومت کی وزارت تک پہنچایا ہوا ہے، ماضی قریب میں اس پارٹی کے سربراہ کا ان مہاجرین کو نکالے جانے کی صورت میں سخت مزاحمت کا عندیہ دیا گیا جو دراصل عوام سے غصب کی گئی اس جعلی نمائندگی اور اس کے نتیجے میں قائم ان کے خلافت کے چهن جانے کے خوف کا ردعمل ہے ۔

عرض صرف اتنی ہے کہ کسی اور مقام پر بیٹھ کر تکنیکی اور سائنسی نقط نظر سے کسی دوسرے علاقے کے کسی ایشو کا معروضی تجزیے سے حل شاید درست لگتا ہو لیکن جن پر بیت رہی ہو ان کی تکالیف اور مٹتی شناخت کا کسی سائنسی فارمولے سے حساب ممکن نہیں۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments