ڈیجیٹل مجاہدین


کہا جاتا ہے جن معاشروں میں نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے نہ ہوں وہ معاشرے بتدریج زوال کا شکار رہتے ہیں۔ اس ثابت شدہ امر \"tanzilaکو ملحوظ رکھیں تو ہمارے معاشرے کو دوگنی رفتار سے معاشرتی انصاف اور عدل کی منزلیں طے کرنی چایئیں تھیں۔ آزادی اظہار کا جو مظاہرہ آج وطن عزیز میں ہے اس کا یہ نقشہ تو خود ان لوگوں نے بھی نہ کھینچا ہو گا جنہوں نے آزادی اظہار کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اگر وہ معاشرے کبھی زوال کا شکار نہیں ہوتے جہاں حق کی آواز اٹھانے والے موجود ہوں تو ہمارے ہاں دانش وروں کی تعداد دیکھ کر یہ گماں کرنا بھی کفر ہے کہ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ تو پھر المیہ کیا ہے؟ لوگ اس معاشرے کی تباہی کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ جواب ڈھونڈنے کے لئے کچھ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سیالکوٹ کے دو بچوں کا بے دردی سے قتل، سب سے بڑے صوبے کے گورنر کا دن دیہاڑے قتل، سبین محمود، خرم ذکی، امجد صابری اور تازہ ترین قتل۔۔۔ قندیل بلوچ کا قتل۔

حق پرستوں نے تو ان سب واقعات کی مذمت کی۔ بھرپور بغاوت کا عَلم اٹھائے سب نے ایک عظیم الشان تحریک چلائی۔ اس جنگ کا پڑاﺅ دیکھنا ہو تو ذرا سوشل میڈیا کا ایک چکر لگا لیں۔ ان سب واقعات کے خلاف مجاہد اپنے سمارٹ فونز سے لیس باہر نکلے اپنا برگر پیپسی ساتھ رکھ کر سنیپ چیٹ، ٹویٹر، فیس بک اور بلاگز پر وہ دنگل کیا، الفاظ کے کاری واروں سے نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ڈیجیٹل فوج کے چاق و چوبند دستے جب چاہیں اتنے بڑے ملک میں اپنی مرضی کے ٹرینڈ کا فیصلہ کر دیں۔ جب چاہیں ایک ھیش ٹیگ سے طوفان بپا ہو جائے۔ یہ فوج کبھی آرام نہیں کرتی جب بھی حالات کی گردش انہیں پکارتی ہے یہ لبیک کہتے ہوتے ہوئے تیز دھار زہریلے الفاظ کی یلغار کر دیتے ہیں، پھر بھی ہمارے ہاں انسانی حقوق کی پامالی کے باب رقم ہوں، پھر بھی غیرت کے نام پر قتل جاری رہیں، ہماری مذہبی اقلیتوں کا استحصال ہو وکیلوں کے بجائے جج مقدمے لڑیں۔ ۔ انتہا پسند سوچ پسپا نہ ہو۔۔۔ یہ ان مجاہدین کی ان تھک جدو جہد رائیگاں کرنے کی سازش کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟

انتہا پسند انہ سوچ کے حامل تمام طبقات سوشل میڈیا کے ٹرینڈز سے ڈر کے دبک کے بیٹھ جاتے ہیں اور یہ اہم ترین کامیابی بھی ہمیں ڈیجیٹل مجاہدین کی زبانی معلوم پڑتی ہے۔ جب انتہا پسند سوچ والے لشکر باہر نکلتے ہیں تو ہر لمحے انہیں ڈیجیٹل فوج کے نڈر دستوں کا خوف کھائے رکھتا ہے کہ کہیں وہ گھات لگائے نہ بیٹھے ہوں، اسی لئے وہ ہزاروں کا مجمع لے کے نکلتے ہیں تا کہ وہ ڈیجیٹل مجاہدین کے کاری حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ مگریہ بات کوئی کیوں نہیں سمجھتا کہ ڈیجیٹل مجاہدین اپنا پڑاﺅ چھوڑ کر باہر کیسے آ سکتے ہیں۔ ورنہ ھیش ٹیگ بدل جائے گا۔ وہ اس شکست کو کہاں سہہ سکتے ہیں، تو آخر اس سچائی کو مان لینے میں کیا مذائقہ ہے کہ ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اب ھیش ٹیگ اور بلاگ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم اگر ویڈیو لنک سے اپنا کام سر انجام دیں تو بہت بڑی سبکی ہے مگر معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف جہاد صرف سمارٹ فونز اور ڈیسک ٹاپ پہ لڑنا ہی اس عہد میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہمیں تو ان ڈیجیٹل مجاہدین کا شکر گزار ہونا چاہئیے یہ نہ ہوں تو آرمی چیف تک اپنے فرائض سے نا آشنا رہے۔ یہ نہ ہوں تو بھارت بس ایک دن میں ہم پر ہلہ بول دے۔ یہ نہ ہوں تو ہم اخلاق باختگی کی آخری حد کو چھو آئیں خدا نا خواستہ۔ ۔ ۔ تو پھر المیہ ہے کیا؟

کچھ جوابات ان چند چیدہ واقعات سے مل سکتے ہیں۔ سیالکوٹ کے بچے جس طرح قتل ہوئے کیا وہاں کو ئی ایک انسان ہوتا تو ایسا ہونے دیتا۔ لوگ تو بہت جمع تھے مگر انسان ایک بھی نہ تھا۔ سلمان تاثیر کا قتل ڈراونا خواب مگر انہوں نے بھی ٹی وی پر غلط باتیں کیں۔ قندیل کو قتل کر دیا۔ مگر اس نے بھی حد کر دی تھی۔ یہ مگر والے بے چارے روایت پسند مڈل کلاس لوگ ڈیجیٹل مجاہدین نہ بن سکے۔ فارغ ہیں اس لئے لگے ہاتھوں جہاں بھی بلایا جائے پہنچ جاتے ہیں دھوپ میں مارے مارے پھرتے ہیں ٹریفک جام کر کے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ یہ کتنے محروم لوگ ہیں جو ایک ٹرینڈ سیٹ نہیں کر سکتے اور محض ہزاروں کا مجمع لے کر روز کہیں نہ کہیں دوکان سجا لیتے ہیں۔ ان کو اپنے دشمن کے پڑاﺅ کا پتہ نہیں کیا؟ ہمارے مجاہد تو فیس بک سے ٹویٹر تک اور پھر بلاگز تک جا پہنچے۔ حقوق کی جنگ انہی محاذوں پر روز لڑتے ہیں اور ٹرینڈ بنانے تک سینہ سپر ہو کے کھڑے رہتے ہیں کوئی مائی کا لعل انہیں چھو بھی نہیں سکتا، اور بھولئیے مت یہ سب مجاہد غاذی ہیں بہ کرمِ خدا۔ یہ غازی پر اسرار بھی ہیں کیونکہ بغیر نام کے ہی دستے کی قیادت کرتے ہیں۔ ۔ شائد سائبر کرائم بل نامی تریاق بھی ان پر اثر نہ کر سکے مگر وہ بحث کسی اور وقت کی ہے

جب میں نذرانہ عقیدت پیش کر ہی رہی ہوں توان بہادر، جاںباز مجاہدوں کی ایک خوبی بیاں ہونے سے رہ نہ جائے بس یہ کہنے والے سپاہی ہیں سننے کی تربیت ان کے ہاں کمزوری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جب بہت جذباتی ہوں تو کنگ مارٹن لوتھر کی تقاریر سے اقتباس فخریہ انداز میں پوسٹ کرتے ہیں اپنے تئیں تو دشمنوں کے سینے میں پیوست کرتے ہیں۔ بہت حب الوطنی کی شکائت ہو تو قائد اعظم کے اقوال سے بھی تیر برساتے ہیں۔ ۔ سب دشمن زیر کرنے کے عزم کے ساتھ یہ کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے جان چھڑانے کا چورن بھی کھاتے رہتے ہیں، یہ مجاہد قبلہ زید حامد جیسے سپہ سالاروں کی قیادت میں غزوہ ہند بھی لڑنے پہ مصر ہیں۔ ۔ (غزوہ وہ جنگیں ہیں جن میں حضورﷺ خود شریک ہوئے) ان مجاہدوں کا جذبہ دیکھئے ان کو خراج عقیدت پیش نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ کیا برائی ہے کہ یہ کنگ مارٹن لوتھر کے پیروکار، الیگزینڈر ہیرزن کے مداح چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے ہونے کی گواہی نہیں دے سکتے۔ آخر اتنا مشکل محاذ سنبھال کر رکھنا آسان کام تو نہیں۔ کیا ہوا جو یہ قندیل بلوچ کے قتل کے خلاف باہر نہ آ سکے۔ کیا ہوا جو یہ زندہ جلائی جانے والی عورتوں کے حق میں اپنے ہزاروں فالوورز میں سے چند سو کو لے کر باہر نہ نکل سکے۔ ٹرینڈ تو تھا نا۔

 ہمارے حقوق کی جنگ ڈیجیٹل مجاہدین نہ لڑیں تو ہمارا کوئی والی وارث نہ ہو مگر یہ بات ان جذباتی سپاہیوں کو کون سمجھائے کہ حقوق کی یہ جنگ سوشل میڈیا پر لڑی تو جا سکتی ہے، جیتی نہیں جا سکتی۔ اس کی مثال ابھی حال ہی میں ترکی کے عوام نے دی ہے۔ اگر صرف لڑنا ہی مقصود ہے تو اللہ آپ کو مزید فالوورز دے مزید ری ٹویٹس اور مزید لائکس۔ ۔ ۔ ۔

اور اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو پھر عملا بھی کوئی کشت کاٹنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments