چار ویک اینڈ کا دیس نکالا


کچھ اس طرح کے جملے بڑ بڑاتے ہوئے وہ اپنے دفتر کے مرکزی گیٹ سے ہوتا ہوا پارکنگ میں جا کر رکا۔ اْس نے اپنی بلتی سفید ٹوپی، سکارف اور دستانے ایک شاپنگ بیگ میں رکھے اور شابنگ بیگ کو موٹر سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا کر ہاتھوں کی انگلیوں سے سر کے بچے کھچے بالوں کو ماتھے سے ہٹا کر اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے اور بٹھاتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اسے یہ چیزیں دفتر کے اندر لے جانا پسند نہیں تھا کیونکہ سب اس کا مذاق اڑاتے تھے۔
”بڑی ٹھنڈ اے بئی۔“
پھر زیبا اور نا زیبا جملوں کا کاروبار شروع ہو جاتا۔ اُس کے پیشہ ور رفیقوں کے بہت سے جملے اُس کے اندر تک کو کاٹ کر رکھ دیتے۔ پھر جوں جوں اُ س کا پارا چڑھتا، توں توں جملوں کی حدت اور شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ اس لئے وہ کسی کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہتا تھا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں رواج ہے، چھوٹی سی بات سے شروع ہونے والا مذاق، کسی بڑے ہنگامے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔

یہ اُس کے روز کا معمول تھا۔ لیکن آج وہ کچھ زیادہ ہی چست تھا۔ اس کی ڈیوٹی ٹوکن دینے کی تھی۔ آج نہ تو وہ کسی سے جھگڑا کر رہا تھا اور نا ہی کسی سے الجھ رہا تھا۔ بلکہ خوش ہونے کی نا کام کوشش کر رہا تھا۔ وہ کوشش کر کے اپنے آپ کو مصروف بھی رکھے ہوئے تھا۔ دراصل وہ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ وہ وقت جو اُس کے اور اُ س کی تنخواہ کے درمیان حائل تھا، وہ وقت جو اْس کی جان گڑیا کے فراک اور اْس کے درمیان حائل تھا۔ وہ ان لمحوں کا تصور کر کے خود ہی مسکرا دیتا جب گڑیا فراک پہنے اْ س کے سامنے کھڑی مسکرا تے ہوئے کہہ رہی ہو گی۔
”آپ اچھے پاپا ہیں۔“

وہ سوچتا، اس کے چہرے پر کیسے رنگ پھیلیں گے۔ فراک پہن کر تووہ پری ہی لگے گی۔ جونہی اس کا ہاتھ ٹوکنوں سے فارغ ہوتا، اس کا دماغ چل پڑ تا۔ کتنی پیاری ہے میری بیٹی، کاش میں بھی پیارا ہوتا، اْس کی ہر خواہش پورا کر سکتا، اسے ہر وہ شے لا کر دیتا جس کا اْس نے سوچا تک نہ ہوتا۔ وہ بڑی گاڑی میں بیٹھی کیسی لگتی۔ پیار سے پیاری۔

دُکان بچیوں کے کپڑوں سے جگ مگ جگ مگ کر رہی تھی۔ رنگ اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے گلستان میں بہار آئی ہو۔ ہر طرف گوٹے کناریوں کی برسات تھی۔ دُکان کی روشنیوں نے گوٹے کناریوں کو نئی زندگی، نیا روپ اور نیا جوبن دے رکھا تھا۔ وہ کھل رہی تھیں اور اپنی طرف اٹھنے والی ہر نظر کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ ہر فراک ہر گاہک کو مسکرا مسکرا کر یہی سمجھا رہا تھا، ”آو دیکھو، میں تو بنا ہی تمہاری بیٹی کے لئے ہوں۔“

کمال ایک مخصوص فراک کو اس طرح دیکھ رہا تھا، جیسے کئی دن کا بھوکا مٹھائی کو دیکھ رہا ہو۔ اُسے اْ س فراک کے اندر گڑیا دکھائی دے رہی تھی، جو فراک پہنے کہہ رہی تھی، ”شکریہ بابا۔ آپ بہت اچھے بابا ہیں۔“

”کیا چاہیے میاں جی؟“ کاؤنٹر سے ایک لڑکے نے کمال کا استغراق اور انہماک دیکھ کر پوچھا۔
کمال نے کچھ کہے بغیر سامنے لٹکے ہوئے فراک کی طرف انگلی اٹھا دی۔ لڑکے نے ایک چھڑی سے ایک فراک کی طرف اشارہ کیا، ”یہ؟“
کمال نے جواب دیا، ”نہیں جی وہ سنہری اور لا۔۔ لا۔۔ لال رنگ۔ وہ جامنی والے کے ساتھ۔“

فراک اس کے سامنے تھا۔ اس نے فراک کو پیار کرنے والے انداز میں چھوا، اسے اُٹھا کر اس کی پیمائش کا اندازہ کیا۔ ”کیسی لگے گی یہ گڑیا پر۔“ اس نے فراک کا کپڑا دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اؤ جی کمال! “ دکاندار نے کچھ سمجھے بغیر ہی جواب دے دیا یا شاید اُس کا معمول تھا۔ پتا نہیں کتنے پیار کے مارے یہی جملہ بولتے ہوں گے بس نام کا فرق ہو گا۔ کمال، اس برجستہ انداز اور اپنا نام سن کر پہلے تو حیران ہوا پھر جب جملے کی ہیئت سمجھ آئی تو مسکرانے لگا۔
”ک ک کتنے کی ہے؟“ اْس نے ہچکچاتے ہوئے دل کی بات پوچھ ہی لی۔
”ایک ہزار کی۔“ دکاندارنے ایک اور فراک کا لفافہ بند کرتے ہوئے بتایا۔
”کیا، ایک ہزار کا! کیوں بھئی پچھلے مہینے تو سات سو کا تھا۔“ کمال جیسے پھٹ پڑا۔
”نہیں بزرگو! پچھلے مہینے بھی اتنے ہی کی تھا، آپ کوغلط فہمی ہوئی ہے۔ چلیں آپ نو سو دے دیں۔“ دکاندار نے اپنا فنِ دکانداری دکھانے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن کمال بھی بضد تھا۔
”ارے بھئی کیا قہر ہے، خدا سے ڈرو، چھوٹی سی بچی کی فراک اور نو سو روپے کی!“
”ناراض نہ ہوں میاں جی، آپ خود سمجھ دار ہیں، اس کا کام بھی تو دیکھیں نا۔ خالص ہاتھ کی کڑھائی ہے۔ چلیں آپ آٹھ سو دے دیں۔“ دکاندار نے ایک اور پتا پھینکا۔
”نہیں آٹھ سو بھی بہت زیادہ ہیں۔“ کمال نے کچھ نرم انداز میں جواب دیا۔
”چلیں! نہ آپ کی نہ میری، ساڑھے سات سو دے دیں۔ یہ لیں۔“ یہ کہہ کر دکاندار فراک پیک کرنے لگا۔”آپ اسے سائیڈ پر رکھ لو، ابھی تو کھانے کی بریک ہوئی تھی تو میں آ گیا، سوچا چلو دیکھ لوں کہ فراک بک تو نہیں گئی۔“
دکاندار کو تو کمال کی یہ حرکت اتنی بری لگی کہ اس نے فراک کمال سے چھین کردوسرے کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے ایک بچے کی طرف پھینکتے ہوئے کہا، ”اوے دتے ڈسپلے کر دے۔“
کمال نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی، ”یار میں شام کو ضرور آؤں گا، آج مجھے تنخواہ مل جائے گی، تم اس فراک کو سائیڈ پر رکھ لو۔“
”او! نکال لیں گے جی ہمیں کون سا لنڈی کوتل جانا پڑنا ہے۔“ دکاندار نے بے زار ہوتے ہوئے کہا۔

اب کمال کے پاس وہاں رکنے کا کوئی جواز نہ تھا، ویسے بھی کھانے کا وقفہ ختم ہونے والا تھا۔ اس لئے وہ دکان سے نکلا اور دفتر کی طرف چل پڑا۔ سکارف کا ایک کونا اس کے دانتوں میں تھا۔ وہ اْسے مستقل چبائے جا رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے غصہ سے بھرے دانت سکارف سے جھگڑ رہے ہوں۔ دفتر کے دروازے میں داخل ہوتے ہوئے اس نے اپنے سکارف اور دانتوں کے اندر سے ایک گالی باہر پھینکی، ”مردود کہیں کا۔“
پتا نہیں یہ گالی اس نے کس کو دی تھی، خود کو یا سماج کو لیکن سچ تو یہ تھا کہ اس کا اطلاق دونوں پر ہو رہا تھا۔

غصہ اور مسکراہٹ لئے وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ٹوکن لینے والا تو کوئی نہیں تھا، اس لئے وہ کرسی پر گھومنے لگا۔ گھومنے والی یہ کرسی اس کے نئے باس نے اپنے دفتر سے اس وقت نکالی تھی جب انہوں نے اس دفتر کا پہلا دورہ کیا تھا۔ کمال ایک دن پچھلی گلی میں گیا تو اس کی نظر اس کرسی پر پڑی۔ اس نے اسٹور کیپر سے پوچھ کر وہ کرسی اٹھا لی۔ اس پر بیٹھ کر اسے بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے اپنے دو ستوں کو اس پر بٹھایا اور پوچھا تھا، ”یار مجھے اس کی کوئی ایک خامی تو بتا دو، جو صاب نے اسے نکال دیا۔“
اس پر اس کے ایک دوست نے اسے جواب دیا تھا، ”ابے نالائق، بیوی اور کرسی اپنی اپنی۔“
دوسرے دوست نے اس میں اضافہ کر دیا، ”نہیں بھیا! نیا دفتر، نئی کرسی اورنئی بیوی۔ وہ ہماری طرح تھوڑی ہی ہے جو ایک کو لے کر بیٹھا رہے۔ ابے وہ صاحب ہے۔ صاحبوں کو پرانی کرسی پر کانٹے چبھتے ہیں۔“
کمال نے لاحول پڑھا۔

نہ جانے کیوں کمال ان باتوں کو یاد کر کے کچھ ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔ اس نے گھومتے ہوئے اپنی کرسی کی طرف دیکھا تو اس میں کوئی خامی نہ ملی اور پھر نہ جانے کیوں اس کی توجہ اپنے گھر والی کی طرف چلی گئی۔
”کوئی نہیں یار۔“ اُس نے آہ بھری۔ ”بس لڑا نہ کر یار۔“

کرسی پر گھومتے ہو ئے وہ سامنے دیوار پر لگی خستہ حال گھڑی کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس گھڑی میں یہی کمال تھا، کہ اپنی ایک سوئی کھونے کے با وجود چل رہی تھی۔ دفتر کے لوگ بھی ایسے ماہر تھے کہ یہ ٹیڑھی ہو یا سیدھی وہ وقت دیکھ ہی لیا کرتے تھے۔

اس کی نگاہیں دروازے کا وقتا فوقتا نا مکمل طواف بھی کرتیں کہ کب خورشید داخل ہو اور کوئی نوید سنائے۔ لیکن خورشید نمودار تو ہوتا لیکن موسمِ سرما کے خورشید کی طرح مکھڑا دکھا کر بنا کچھ کہے مسکرا کر گزر جاتا۔ پھر اس نے اپنی قمیض کے کالر کا بٹن کھولا جو اس نے صبح سختی سے بند کیا تھا۔ جب اس نے اس دفتر میں نوکری شروع کی تھی تو وہ ٹائی باندھا کرتا تھا۔ اب ٹائی تو چھوڑ دی تھی لیکن اُس کی یہ عادت آج بھی قائم تھی کہ کالر کابٹن ضرور بند کیے رکھتا۔ کمرے میں حبس بھی محسوس ہو رہا تھا۔ اُس نے یعقوب سے پوچھا، ”یار یعقوب! آج مجھے گرمی لگ رہی ہے یا واقعی گرمی آ گئی ہے۔“
یعقوب نے ہنستے ہوئے جواب دیا، ”میں قربان جاؤں مالک کی قدرت پر سردی کو گرمی بنا دے گرمی کو سردی۔ بہار تو آ گئی ہے، نئے پھول کھل رہے ہیں، میلے بھی شروع ہو گئے ہیں لیکن گرمی نہیں آئی۔“
یعقوب کی عادت تھی کہ وہ ہر بات بہت لمبی کرتا تھا۔
”اؤ یار! تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے، جونہی منہ لگایا گٹھیں کروانا شروع کر دیتے ہو۔“

کمال یعقوب کی مزید خبر لیتا کہ خورشید کی آواز سن کر وہ کرسی سے اس طرح اٹھا کہ جیسے کرسی کا سپرنگ نکل گیا ہو۔ اکاؤنٹنٹ اسے دیکھ کر نہ حیران ہوا نہ پریشان۔
”اس دفعہ تو ادھار نہیں پکڑا سر آپ نے؟“
”نہیں جی۔ سر جی، شکر ہے اللہ کا اس دفعہ تو بچے ہی ہوئے ہیں۔“ کمال نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ لیں جی اپنے پیسے اور یہاں دستخط کر دیں۔“ اکاؤنٹنٹ نے روپے کمال کے سپرد کرتے ہوئے کہا۔

کمال نے اس کے ہاتھ سے پیسے تقریباً چھینتے ہوئے رجسٹر پر دستخط کر دیے اور پیسے گننے لگا۔ ایک دفعہ گنے، دو دفعہ گنے۔
”یار! یہ کچھ کم نہیں۔“
”اوہ، مجھے بتانا یاد نہیں رہا۔ اس دفعہ کمپنی نے سب کا ایک ایک ہزار روپیہ کاٹ لیا ہے۔“ اکاونٹٹ نے رجسٹر پر کچھ دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ کیوں جی؟“ کمال نے خاصے غصہ میں پوچھا۔
”سیلاب زدگان کی مدد کے لئے۔ کیا واقعی آپ کو نہیں پتا تھا؟“ اکاؤنٹنٹ نے پوچھا۔
کمال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رات کی ایک خبر دکھائی دینے لگی جس میں بتایا جا رہا تھا کہ ’’وزیر نے کروڑ روپے کا چیک سیلاب زدگان کی مدد کے لئے صدر ِ پاکستان کو پیش کیا۔“

اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیر اچھانے لگا، اُسے یوں لگا جیسے اُس کا دل سکڑ گیا ہو۔ اندر سپنوں کا مچھلی گھر ٹوٹا اور اُس میں گڑیا کا فراک مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ اُ س نے دروازہ کھولا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ اکاونٹنٹ اس کے پیچھے بھاگا۔
”آپ چاہئیں تو درخواست دے کر اپنے پیسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔“ اکاونٹنٹ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر انتہائی نرمی سے کہا۔ لیکن کمال نے اپنا دایاں ہاتھ اُس کے منہ پر رکھتے ہوئے کہا۔

”اپنی فصلوں کو بچانے کے لئے پانی غریبوں کی طرف بھیج دیتے ہیں، پھر ان کی مدد بھی نہیں کرتے۔ غریبوں سے ہی ان کی مدد کرواتے ہیں۔ عجیب کھیل رچا رکھا ہے ان نے۔ اب تم ہی بتاؤ میں گڑیا کو کیا منہ دکھاؤں گا، اْسے کیسے سمجھاؤں گا، اْسے کیسے مناؤں گا، کیسے بہلاؤں گا۔ کہاں سے لاؤں گا فراک؟ پھر وہی کت خانہ۔ اب تو برباد ہو گئے چار ویکینڈ، پورے چار ویکینڈ۔ چار ویکینڈ کا دیس نکالا۔ چار ویکینڈ میں یہی سنتا رہوں گا، بابا آپ بہت گندے بابا ہیں، یار بتا چار ویکینڈ کوئی کم وقت ہوتا ہے، اگر کسی ڈنگر کے پیارے بھی چار ویکینڈ تک روٹھے رہیں تو وہ بھی مر جاتا ہے۔ میں تو انسان ہوں۔ میں کس طرح قربان کروں گا اپنے چار ویکینڈ۔ وہی دیس نکالا۔ ایک نہیں چار ہفتوں کا دیس نکالا۔‘‘

اکاؤنٹنٹ کے سامنے کھڑا ایک اور شخص اونچی آواز میں یہ گنگناتے ہوئے ہنسنے لگا، ”چار ویکینڈ، کیسے کٹیں گے چار ویکینڈ، ویسے کٹیں گے چار ویکینڈ، جیسے کٹتے ہیں چار ویکینڈ“
اس کے قریب کھڑے اس کے دوسرے ساتھیوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2