ہم غدار ہیں


\"farnood01\" خان عبدالغفار خان غدار تھے۔ ماسکو کے دریوزہ گر تھے۔ دلی کے کاسہ لیس تھے۔ کابل کے وظیفہ خوار تھے۔ یہی سلسلہ عالی ان کے نسب میں چلا۔ چنانچہ خان عبدالولی خان غدارابن غدار تھے۔ اسفندیار ولی خان غدار ابن غدار ابن غدار ہیں۔ اسی پختونخوا میں ایک شہر ڈیرہ اسمعیل خان ہے۔ وہاں ایک مولانا فضل الرحمن ہوتے ہیں۔ صاحب کے کام دیکھیئے کہ ہندوستان کی کانگریس سے ان کو رسم وراہ ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے ان کے مراسم ہیں۔ ایران سے ان کی قربتیں ہیں۔ افغان سرکار سے خط وکتابت رکھتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے پہ کبھی خفگی کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ ان سارے جرائم کے بعد انہیں غدار نہ کہنے کی کوئی وجہ باقی رہ جاتی ہے؟

 سندھ چلیئے۔ یہاں ذوالفقارعلی بھٹو ہوا کرتے تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم کے بعد ایک وہی تھے جنہیں لیڈر کہا جا سکتا تھا۔ ہوتے ہوں گے، ہمیں کیا، تاریخ تو یہ بتاتی ہے ملک کی سلامتی کو ان سے شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا وہ سبب تھے۔ استعمار کے پس خوردہ پہ ڈکاریں مارتے تھے۔ محتاط الفاظ میں بھی انہیں غدار سے کم کچھ کہنا آسان نہیں ہے۔ ایک مرد حق کے ہاتھوں کاتب تقدیر نے اسے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ بے نظیر بھٹو کے جرائم کی فہرست باپ سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ غدار بنت غدار کہیئے۔ آخری جرم تو وہی باپ والا کہ ایک توپچی سے متھا مار لیا۔ پھر وہی ہوا جو ایک غدار کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ بلاول نے ایک غدار عورت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ دیکھتے جایئے، وقت آنے پہ وہ غداری کا تمغہ پالیں گے۔ اسی سندھ میں ہی کوئی قدم چار قدم آگے کو چلیے۔ کراچی شہر آئے گا۔ ہائی وے سے داخل ہوتے ہی بائیں عائشہ منزل سے دو قدم عزیز آباد اور اس کے وسط میں نائن زیرو۔ دوکمرے کے ایک مکان میں الطاف حسین نامی ایک شخص رہتا تھا۔ ففٹی ہنڈا پہ جس نے تحریک چلائی تھی۔ اب نہیں پایا جاتا۔ البتہ ہر قدم پہ تصویریں ضرور ملیں گیں۔ غور سے ان کی شکل دیکھیئے۔ لگ رہے ہیں غدار کہ نہیں؟ قسم لے لیجیئے کہ ہندوستان کی کسی ماں نے ایسا ایجنٹ نہیں جنا جس نے ساری زندگی را کے لیے وقف کررکھی ہو۔ کوئی ہو اس جیسا تو سامنے آئے۔

\"bugti\" بلوچستان چلیئے۔ نواب اکبر بگٹی کے بارے میں تو یہ بتانے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں کہ وہ غدار تھے۔ ان کے غدار ہونے کے لیے تو کسی ثبوت کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ایک ہاتھ عصائے کلیمی اور دوسرا کمر پہ رکھ کے جب چلتے تو ہر باشعور نگاہ گواہی دیتی کہ ہو نہ ہو یہ بوڑھا ایک غدار ہی ہوسکتا ہے۔ خیربخش مری کی غداریاں تفصیل کی محتاج نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ عطاو اللہ مینگل غدار اور سردار اختر مینگل غدار ابن غدار ہیں۔ کتنے نام گنواوں، واللہ بلوچستان کی سرزمین پر تو گویا غداروں کی ہی فصلیں پکی ہیں۔ یہ دیکھیئے مشر محمود خان اچکزئی کو۔ ان کا کوئی ایک پہلو بتا دیں جس سے یہ غدار نہ لگتے ہوں۔ بندہ خدا جون کی تپتی دوپہر میں چادر لیتا ہے۔ جس طرح گرمی میں جیکٹ پہننے کا حوصلہ ایک خود کش حملہ آور میں ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح چادر پہننے کی ہمت پڑوسی ملک کے کسی زرخرید جاسوس میں ہی ہوتی ہے۔ اسی پشتون بیلٹ میں ایک خان محمد شیرانی ہوتے ہیں۔ یہ شخص عین افغان جہاد کے دوران کہا کرتا تھا کہ افغانستان میں لڑنے والے دراصل کرائے کے قاتل ہیں جو امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے شخص کا غدار ہونا اگر کسی ذی فہم کی سمجھ سے باہر ہو تو اسے چاہیئے اپنے جذبہ حب الوطنی کا کڑا احتساب کرکے ’’ضمیر‘‘ کی عدالت میں پیش کردے۔

 پنجاب چلیں؟ چلو چلتے ہیں۔ یہاں ایک شخص رہتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف۔ اچھا بھلا محب وطن تھا۔ امیر المومنین ضیاالحق پہ جان چھڑکتا تھا۔ خدا جانے \”را\” کے کس آفیسر کی نظر کھا گئی کہ منحرف ہوگیا۔ بیٹھے بیٹھے اسے ہندوستان سے قربت کی سوجھ گئی۔ رفتہ رفتہ غداری \"Bhutto5\"کی آخری منزل پہ آ پہنچا۔ اس کی غداری کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ مودی کو آموں کی ایک سے ایک قسم کی لدھا لدھ پیٹیاں بھجواتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ مودی آم کا شوق نہیں رکھتا، تو کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ان پیٹیوں میں یہ شخص کیا بھجواتا ہے اورکیوں بھجواتا ہے؟ اس پرطرہ یہ کہ مودی کی اماں کوساڑھیاں بھی بھجواتا ہے۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ سبط حسن بھی تو تھے۔ پھر وہ اپنے فیض احمد فیض۔ یہ رہے حبیب جالب۔ وہ رہے شیخ ایاز۔ خیر چھوڑیں اس فہرست کو۔

 یہ مستند غداروں کی ایک فہرست تھی جو اختصار کے ساتھ سامنے آگئی۔ لازم ہے کہ آنے والی نسل کو یہ علم بھی رہے کہ وہ محبین وطن کون تھے جن کی سینگوں پہ یہ پاک دھرتی دھری ہوئی تھی۔ وہ کون تھے جن کو چھینک آتی تھی تو یہ دھرتی کانپ جاتی تھی۔ کن کا مقدس لہو تھا جس نے مملکت خدا داد کو تمام جرائم و گناہ کے باوجود خدا کے غضب سے بچائے رکھا تھا۔ اس فہرست پہ نگاہ ڈال لیں تو غداروں کی فہرست پر سے گزر آنے والی نظر کچھ دھل سی جائے گی۔

 سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کریں۔؟ کیوں نہ خدا کے بابرکت نام سے شروع کریں۔ ؟ شروع اس خدا کے نام سے جس نے ہمیں ایک ایسا وطن عطا کیا جس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں کسی برف کی مانند ہیں جو سورج کی ایک کرن سے چھلنی ہوجاتی ہیں۔ تمام تعریفیں اس ذات پاک کی جس نے اپنے سائے ذوالجلال کے عین نیچے کچھ ایسے باغیرت سپوتوں کی پرورش کی جن کے دم قدم سے یہ سرزمین سلامت رہے گی اور تاقیامت رہے۔ اللہ اللہ کیسے کیسے نام ہیں۔ حافظ سعید، شیخ رشید، زید حامد، محترم سراج الحق، جناب عمران خان، چوہدری برادران، مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا مسعود اظہر، مولانا عبداللہ شاہ مظہر، شفیق مینگل، رمضان مینگل، علامہ طاہر القادری، آفاق احمد، مصطفی کمال، انیس قائم خانی، رضا ہارون۔ کچھ اور بھی تو ہیں۔ دفاعی امور کے ایم اے اسلامیات ماہرین، خاکی ریٹائرگان، رائل پام گالف کلب کے منظم ممبران، وسطی پنجاب کے گڈ طالبان، بے بی کٹ اینکران، ساڑھے تین عدد ٹی وی چینلز، تین اخبارات، آٹھ کالم نگار، کئی علما اور چند صوفیا۔ یعنی کہ قدسیوں کی ایک روح  آفرین فہرست ہے، ایک ایک نام پڑھتے چلے جایئے اور ساتھ فبای آلا ربکما تکذبان کا ورد کرتے چلے جایئے۔ایک ایک نام چومیئے، عقیدت کے ساتھ آنکھوں سے لگا یئے، اور پھر ایک سوال کا جواب ڈھونڈیئے۔ کون سا سوال۔ ؟

 یہ کہ۔!

\"mehmood چلیں راہنما تو اوپر تلے غدار ہوئے سو ہوئے، مگر اس قوم کو کیا ہوا کہ اپنی خوئے غداری پہ استقامت کے ساتھ کھڑی ہے۔ یعنی سوال یہ ہے کہ جو لوگ غدار ہیں، وہ تمام کے تمام وہ تھے اور وہ ہیں جو خالص عوامی نمائندے تھے اور ہیں۔ اور جو وطن کی محبت کے تنہا ضامن ہیں، وہ تمام کے تمام وہ ہیں جنہیں محلہ تو چھوڑیئے گلی سے بھی کوئی ووٹ دینے کو تیار نہیں ہے۔ اصغر خان کی میں کیا داستان سناوں۔ ابھی کل ہی جب پرویز مشرف کو عوام سے ووٹ لینے پڑے تو انہوں نے پورا پاکستان کو چھوڑ کر دور سنگلاخ پہاڑوں کے اس پار چترال کے ایک پولو گراونڈ کے نواح میں حلقہ چنا۔ مگر کیا ملا؟ یاد ہے جنرل (ر) حمید گل ایک دن احتجاجا وردی پہن کر ڈی چوک آئے تھے؟ دو ہفتے قبل عوام کو انہوں نے پکارا تھا۔ ان کے آنے پہ فقط گیارہ افراد نے لبیک کہا تھا۔ ابھی ایک نیا پاکستانی مصطفی کمال پاک پوتر ہو کرآیا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ اگلے انتخابات میں ان کو شکست ہوگی، اور غدار جیت جائیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح عام انتخابات غدار جیت جائیں گے اور وطن کے سکہ بند محب ہار جائیں گے۔

 قبولیت فقط غداروں کو حاصل ہے۔ سچے پاکستانی ہر بار مسترد کیے جا چکے۔ قصور کس کا ہے؟ ہمارا ہے۔ ہم خلق ہیں۔ ہم خلق کی آواز ہیں۔ ہم نقارہ خدا ہیں۔ ہم غدار ہیں۔ ہم سب غدار ہیں۔ واضح اکثریت میں بسنے والے غداروں کا احترام آپ سے نہیں ہوتا، اقلیت میں بسنے والے \”سچے\” سپوتوں کی تکریم ہم سے نہیں ہوگی۔

 سوال یہ ہے کہ۔ !

 کوئی حل ہے۔ ؟ کیوں نہیں۔ ابلاغیات کے طاقتور ترین مرکز پہ خفیہ مورچے لگا کر اکثریت کی تذلیل کرنے والے سپوت کبھی غداروں اور ملک کے سچے بیٹوں کی فہرست سامنے رکھ کر دیکھ لیں، پھر یونہی کچھ دیر سوچ لیں کہ شہر کے کوتوال سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments