11 اگست: یومِ اقلیت یا یومِ سیاہ


لاہور شہر کی مرکزی شاہراہ مال روڈ کے دونوں اطراف آویزاں بینرز پر الفاظ کے گرداب میں سجی تصاویر کودیکھ کر میں نے ڈرائیور سے \"rubinaگاڑی کی رفتار آہستہ کرنے کو کہا تاکہ بینرز پر لکھی تحریریں پڑھی جا سکیں لیکن مَیں جُوں جُوں اُن تحریروں کو پڑھتی گئی احساسِ تفاخر سے دِل کی دھڑکنیں تیز ہونا فطری عمل تھا ۔پہلے بینر پر ماسٹر فضل الٰہی کے پورٹریٹ کے ساتھ یہ تحریر نقش تھی \”لے کے رہیں گے پاکستان\” کا نعرہ تخلیق کرنے والے قائد اعظم کے جانثار ساتھی ماسٹر فضل الٰہی\”۔ ا گلا بینر ایس پی سنگھا کی بارُعب شخصیت کی عکاسی کر رہا تھا جنھوں نے پاکستان کے حق میں اپنا فیصلہ کُن ووٹ کاسٹ کر کے پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔

قیامِ پاکستان اور ترقی پاکستان میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اقلیتی ہیروز کے تواتر سے لگے درجنوں بینرز کو پڑھتے پڑھتے میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ \”لے کے رہیں گے پاکستان\”کا نعرہ تخلیق کرنے والے ماسٹر فضل الٰہی اور اپنا فیصلہ کُن ووٹ کاسٹ کر کے اُس نعرہ کو حقیقت بنانے والے ایس پی سنگھا نے قائد اعظم کے جانثار ساتھی بننے کا فیصلہ شاید چند دِنوں یا مہینوں میں کر لیا ہو لیکن ہائے رے قِسمت تیری سِتم ظریفی!

 قائد اعظم کے ان جانثار ساتھیوں کی تصاویر مال روڈ کے ا طراف میں آویزاں کرنے اور حکومتِ پنجاب کے سوشل میڈیا پیج پر اَپ لوڈ ہونے میں ستر برس لگ گئے۔

مال روڈ کا یہ پُر تاثیر مگر فکر انگیز منظر راہگیروں کوبلاشبہ بہت گہری جانکاری بخش رہا تھا کہ آج \”یومِ اقلیت\” ہے \”یومِ سیاہ\” نہیں۔ مزید یہ کہ 11اگست کو \”یومِ اقلیت\” کے طور پر منانا کیوں ضروری ہے؟ لیکن بد قسمتی سے سوشل میڈیا پر \” اقلیت\” کی بجائے لفظ \”غیر مسلم\”کے استعمال اور \”یومِ اقلیت\” کو \”یومِ سیاہ\” قرار دینے کی نا پُختہ اور بے رحم کاوشوں اور چھوٹی بڑی ٹولیوں کے لرزتے مظاہروں کے ذریعے عام لوگوں میں یومِ اقلیت سے متعلق پیدا کیے جانے والے ابہام نے آج طویل عرصے کے بعد میرے قلم کو تحریک دی کہ \”یومِ اقلیت\” کے مقصد و اہمیت کا احاطہ کیا جائے۔

قلم لکھتا ہے \” مَیں پاکستانی ہوں، مَیں عورت ہوں، مَیں اقلیت ہوں، مَیں مسیحی ہوں، مَیں سماجی کارکُن ہوں اور مجھے اپنی ان تمام شناختوں پر فخر ہے بلکہ ان سے پیار ہے اور مَیںاپنی کسی بھی شناخت کی نفی نہیں چاہتی \”۔اب ذرا اہلِ خُرد کی ضد تو دیکھئے ، کہتے ہیں ہم اقلیت نہیں،اگر اقلیت نہیں تو پھر کیا ہیں؟

وطنِ عزیز میں اگر عددی اعتبار سے مسلمان اکثریت میں ہیں تو پھر مسیحی یا کوئی بھی دیگر مذہبی شناخت رکھنے والے اقلیت ہیں۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے اور مساوی شناخت کا اظہار بھی ،کیونکہ مسیحی اکثریت والے ممالک میںمسلمان اقلیت ہیںمگراہلِ خرد بضد ہیں کہ اقلیت کی بجائے غیر مسلم لفظ کا استعمال کیا جائے۔ حالانکہ مذہب اسلام کو پیمانہ شناخت بنا کر غیر مسلم اور مسلم کا لفظ استعمال کرنے سے مسلمانوں کی مذہبی شناخت تو برقرار رہتی ہے جبکہ \”غیر مسلم\” کہلوانے سے میری مذہبی شناخت کی نفی ہوتی ہے کیونکہ مَیں \”مسیحی\” ہوں \”غیر مسلم\” نہیں۔

اب ذرا اہل خرد کی \” اقلیت\” کہلوانے کے خلاف ایک اور دلیل ملاحظہ کیجئے، فرماتے ہیں کہ اقلیت کہلوانے سے ہم تقسیم ہو کر دوسرے درجے کے شہری بن جاتے ہیںاگر ایسا ہے تو پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے اکیاون فیصد (51%) خواتین اکثریت اور انچاس فیصد(49%)مرد اقلیت ہیںیعنی خواتین \”پہلے درجے\” اور مرد \”دوسرے درجے \” کے شہری ٹھہرے۔مگر کیا کیا جائے اہلِ دانش کے اس بے وجہ اصرار کا کہ ہم اقلیت نہیں غیر مسلم ہیں ۔

اور پھر جس گلستان میں فکری بلوغت کے ساتھ ساتھ الفاظ کی قلت بھی شدید ہو وہاں معنی و تشریح کے لحاظ سے انگریزی زبان کے دو الگ الگ الفاظ یعنی Observe (غوروفکر کرنا،حقائق کا اعتراف کرنا) اور Celebrate (جشن منانا، خوشی کا اظہار کرنا) کیلئے اُردو زبان کا ایک لفظ \”منانا\” استعمال کرناکوئی انوکھی بات نہیں۔مثلاََماﺅں کا دن بھی \”منایا\” جاتا ہے اور عورتوں کا دن بھی \”منایا\” جاتا ہے۔حالانکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ماﺅں کا دن مناتے ( Celebrate) ہوئے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ عورتوں کا دن مناتے (Observe) ہوئے دنیا بھر کی خواتین کی سیاسی،سماجی اور معاشی کامیابیوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستوں سے صنفی عدم مساوات کے خاتمے کا بھر پور مطالبہ کیا جاتا ہے

 لہٰذا یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ \”یومِ اقلیت\” کو Celebrate نہیں بلکہ Observe کیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ یومِ اقلیت منانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وطن عزیز میں اقلیتوں کو تمام تر حقوق حاصل ہیں چنانچہ جشن منایا جائے بلکہ یومِ اقلیت دراصل قیامِ پاکستان اور ترقی پاکستان میں شاندار خدمات ادا کرنے والے اقلیتی ہیروز کو پاکستانی قوم سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو درپیش چیلنجز پر غورو فکر کرکے مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دیتاہے۔

رواں برس یومِ اقلیت پچھلے برسوں کی نسبت زیادہ موثّر اور بھر پور طریقے سے منایا گیا ۔اِس سلسلے میں حکومتِ پنجاب کی وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کے تحت الحمرا ہال لاہور میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی جس میں صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور جناب خلیل طاہر سندھو نے یومِ اقلیت منانے کے مقصد کا احاطہ کچھ یوں کیا \”میری اور میرے سٹاف کی دو ہفتوں کی شب وروز کی تحقیق کے بعد تحریکِ پاکستان کے اقلیتی ہیروز کا یہ سلائیڈ شو تیار کیا گیا ہے جو کہ ابھی بھی ادھورا ہے کیونکہ بہت سے اقلیتی ہیروز تاریخی اوراق سے مٹ گئے ہیں\”۔جیسے جیسے سلائیڈ شو چلتا رہا ویسے ہی ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ ناظرین نے کھڑے ہو کربھی قائد اعظم کے ان جان نثار ساتھیوں کوزبر دست خراجِ تحسین پیش کیا۔ کئی آنکھیں اس احساس سے آبدیدہ بھی ہوئیں کہ تحریکِ پاکستان کے یہ اقلیتی ہیروز تاریخِ پاکستان کا حصہ کیوں نہ بن سکے۔کئی دلوں میں قوت ارادی کے جذبوں کے سمندر موجزن ہوئے کہ اقلیتوں کے تشخص اور حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کی اُلجھی گُتھی کو فہم و فراست سے سلجھایا جائے۔

وزیرِمحترم کی با رعب آواز پھر گونجی \”آج کے دن ہم نہ صرف اقلیتی ہیروز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کے خلاف موجود امتیازی قوانین و پالیسیوںکے خاتمے کیلئے اپنی جدوجہد تیز تر کرنے کا عہد بھی کرتے ہیں\” ۔

اور پھر جناب خلیل طاہر سندھو اور پارلیمانی سیکرٹری جناب طارق مسیح گل مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی افراد کی ان کے متعلقہ شعبہ میں گرانقدر خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پنجاب کی طرف سے ایوارڈز دیتے رہے اور مَیںسوچتی رہی کہ یقینایہ فہرست بھی ادھوری ہے کیونکہ وطن ِعظیم کی تعمیرو ترقی میں حصہ ڈالنے والے اقلیتی افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔تاہم یومِ اقلیت کو اتنے با اثر اور منفرد انداز میں منانے پر وزیرِ محترم ، پارلیمانی سیکرٹری اور ان کی پوری ٹیم اورخاص طور پر حکومتِ پنجاب یقینا دادِتحسین کی مستحق ضرور ہے۔

یومِ اقلیت کے سلسلے میں لاہور ہی میں ایک اور تقریب پاکستان مینارٹیز الائنس(PMA) کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی جس میں شہباز بھٹی شہید کے قریبی ساتھی اور پاکستان مینارٹیز الائنس(PMA)کے چیئرمین جناب طاہر نوید چوہدری نے اس دن کو منانے سے متعلق شہباز بھٹی شہید کے وژن کو یوں بیان کیا \”چونکہ وطنِ عزیز میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل نہیں، یومِ اقلیت منانے کا مقصد قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کے تناظر میں پاکستان کو ایک ایسی ریاست بناناہے جہاں امن، انصاف اور برابری ہو۔ جہاں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں \”۔تقریب میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے

چیئرمین پاکستان مینارٹیز الائنس(PMA) کی بھر پور تائید کرتے ہوئے یومِ اقلیت کے مقصد کو مزید واضح کر دیا۔

جبکہ رواداری تحریک کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک اور تقریب میں جناب سیمسن سلامت چیئرمین رواداری تحریک نے پُر امن پاکستان کے خدو خال بیان کرتے ہوئے یومِ اقلیت پر چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا جس میں اقلیتوں کی سیاسی عمل میں مساوی شمولیت کیلئے انتخابی اصلاحات، قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کو آئین ِ پاکستان کا دیباچہ بنانااور خود مختار مینارٹی کمیشن کا قیام جیسے مطالبات شامل تھے۔

لاہور شہر میں منعقدہ ان چند تقریبات کی روداد سے شاید آپ اہلِ خرد کے ساتھ مل کر کوئی دلیل اَخذ کر سکیں کہ 11اگست \”یو مِ اقلیت\” نہیں \”یومِ سیاہ\”ہے اوراقلیتی ہیروز کو حکومت ِ پنجاب کی طرف سے ستر (70) برس بعد سراہے جانے پر ہمیں سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرنا چاہیے تو صد آفرین اہلِ خردکی عقل و دانش پر۔

آج آپ یوم اقلیت کو \” یوم سیاہ\” کہیں یا \”یومِ مساوات\” لیکن ایک نقطہ پر تو تمام اقلیتوں کا اتفاق ہے کہ شہباز بھٹی شہید نے پاکستان کی ستر (70) سالہ تاریخ میں وہ غیر معمولی کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے جو کسی دوسرے مسیحی لیڈر کے حصے میں نہیں آئے اور اگر آج مذہبی اقلیتیں ان کارہائے نمایاں یعنی ملازمتوں میں پانچ فیصد (5%)کوٹہ، سینٹ میں اقلیتوں کی نمائندگی اور سرکاری سطح پر لفظ عیسائی کی بجائے مسیحی کو متعارف کروا کر مسیحیوں کے مذہبی تشخص کے تحفظ کا ہر چھوٹے بڑے فورم پر بڑے فخر سے حوالہ دیتی ہیںتو پھر انہیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ بشپ جان جوزف شہید اور گروپ کیپٹن جناب سیسل چوہدری کے زیرِ سایہ سیاسی تربیت پانے والے اور اقلیتوں کے حقوق کی خاطر اپنے جسم پر انتیس (29)گولیاں سہنے والے شہباز بھٹی شہید کو یہ فکری مغالطہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ یومِ اقلیت کا اجراءکروا کر اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments