جو ذات کے کمتر ٹھہرے۔۔۔


\"sajjadقدیمی ذات پات کے تصور اور حالیہ طبقاتی نظام میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں طبقات کا تصور خالص معاشی ہے اور افراد اپنی محنت اور  چالاکی  سے دولت کما کے  اپنا سماجی رتبہ بڑھا سکتے ہیں مگر  ذات پات کے پرانے ڈھانچے  میں حرکت اور تبدیلی کی گنجائش صفر ہے۔

 بہرحال ہمارا موضوع قدیمی ذات پات کا نظام ہے۔

 ہم سب اچھوت کے لفظ سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ہندوؤں میں نچلی ذات کے شودر لوگوں کو اچھوت (untouchable) کہا جاتا ہے۔ \”اچھوت وہ انسان ہیں جن کے چھونے سے دوسرے انسان پلید اور گندے ہوجاتے ہیں\”

ذات پات دراصل سماجی تقسیم ہے جو ایک ہی طرح کے انسانوں کو اونچی نیچی ذاتوں میں الگ کرتی ہے۔ جہاں کوئی برتر ہے اور کوئی بدتر۔

 دنیا کے سبھی خطوں میں طبقاتی تضاد موجود ہے، کہیں پہ یہ تقسیم مذہبی ہے، کہیں ثقافتی، کہیں سماجی ہے۔

 مگر ہر جگہ معاشی عنصر بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔  یہ تقسیم ایک دم نہیں ہوئی بلکہ ہزاروں سالوں پہ محیط بتدریج عمل کا ماحصل ہے۔ ہم مختصراً جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔

تاریخی طور پہ زرعی سماج کے ساتھ نجی ملکیت کا تصور آیا۔ جو طبقاتی تقسیم کی بنیاد بنا ہے۔

\”زرعی سماج میں انسانوں کے درمیان پہلا عمرانی معاہدہ ہوا جس میں انہوں نے اپنے انفرادی حقوق اجتماعیت کے سپرد کر دیئے اور اقتدار اعلی ایک مخصوص گروہ کو سونپ دیا گیا\” (روسو۔\”معاہدہ عمرانی\” )

زراعت کی دریافت نے انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ مختلف نسل کے انسانی گروہ عمرانی معاہدے کے تحت ایک جگہ آباد ہوئے۔  شہروں کی بنیاد پڑی۔ غاروں، جنگلوں میں رہنے والے کچے پکے مکانوں میں رہائش پذیر ہوئے۔  شہری آبادی کو مختلف نوع کے مسائل درپییش ہوئے۔ ان مسائل سے نبٹنے کے لئے امداد باہمی کے تحت لوگوں میں کام بانٹ دیئے گئے۔  جسیم اور طاقتور افراد جنگ اور حفاظت کرنے والے ہوئے، ہنر مندوں کو ان کے ہنر کے موافق کام سونپے گئے۔ عورتوں کے ذمے خانہ داری تو تھی ہی اب اضافی ذمہ داری کھیتوں کی دیکھ بھال کی تھی۔ یہ تقسیم رضاکارانہ تھی۔  کوئی کام اچھا برا نہ سمجھا گیا نہ کام کرنے والوں میں اونچ نیچ تھی۔

 لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہنر پیشے کی صورت اختیار کر گیا۔  پیشہ سماجی شناخت بن گیا۔ اور سماجی تضاد گہرا ہوتا چلا گیا۔ طبقاتی تقسیم میں نجی ملکیت کا ہمیشہ بنیادی کردار رہا ہے۔

فریڈرک اینگلز نے اسے یوں بیان کیا ہے

\”ذاتی ملکیت سے دولت کا فرق بڑھتا ہے۔ دوسروں کی محنت کی طاقت کو استعمال کرنے کا امکان بڑھتا ہے۔اور اس طرح طبقاتی تضاد کی بنیاد تیار ہوتی ہے\” (بحوالہ اردو ایڈیشن \’ خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز)

 آغاز میں ذات پات کا تصور معاشی بنیادوں پہ استوار کیا گیا، بعد میں اسے مذہبی، سماجی، ثقافتی بنیادیں فراہم کی گئیں۔ اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ خطوں میں خالص ذات کی برتری کا تصور معدوم ہوچکا ہے۔ پس معاشی سرگرمیاں ہی انسانوں میں اونچ نیچ کا تعین کرتی ہیں ۔

برصغیر پاک و ہند میں ذات پات کا قدیمی نظام سرمایہ کی ٹھوکروں سے شہری علاقوں میں آخری سانسیں لے رہا ہے مگر دیہی علاقوں میں ذات پات کا تصور موجود ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں\” متحدہ ہندوستان میں ذات پات کا تصور وسطی ایشائی آریاؤں اور راجپوتوں کی آمد سے آیا۔ ہندوستان کے قدیمی باشندے کوتاہ قامت اور سیاہی مائل رنگت رکھتے تھے۔ آریا فتح سے ہمکنار ہوئے تو انہوں نے مقامی لوگوں کو رنگت کی بنیاد پہ خود سے کمتر گرداننا شروع کیا \”

ہندوؤں میں یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پہ ہے۔ ویدوں، پرانوں نے انسانوں میں تقسیم کی ہے۔

مشہور لکھاری ارون دھتی رائے کہتی ہیں ہندوستان میں لگ بھگ چار ہزار ذاتوں کا وجود ہے

ہندو سماج چار بڑی ذاتوں برہمن، کھشتری، ویش، شودر میں تقسیم ہیں۔ اور اس مذہبی تقسیم کو سماجی، ثقافتی سطح پہ بھر پور قبولیت حاصل ہے۔ اوپری اور نچلی ذاتوں میں سماجی روابط نہایت محدود ہیں۔

 ہمارے ہاں ذات برادری کا تصور سماجی ثقافتی سطح پہ موجود ہے۔

ہندوؤں کے ویش ہمارے ہاں  لوہار،بڑھئی۔ کمہار، جولاہا(پولی)، ماچھی، نائی، تیلی(چاکی)  جاتیوں میں کمتر مانے گئے۔

ہندوؤں کے شودر ہمارے ہاں بھنگی، کٹانے، پرہار، کہلائے

وسطی ایشیائی ریاستوں اور عرب  سے آئے لوگ سید کہلوائے جانے لگے۔  اور ابھی تک خود کو مقامی لوگوں سے افضل سمجھتے ہیں۔  اور مقامی لوگوں سے شادی بیاہ کو معیوب سمجھتے ہیں۔ یہ امتیازی رویہ آفاقی مساوات کا رد ہے اور قابل مذمت ہے۔

(اس مضمون۔کی تیاری میں ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب \’ اچھوت لوگوں کا ادب \’ اور ارون دھتی رائے، ڈاکٹر امبیدکر کے مضامین سے مدد لی گئی ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments