صدارتی ایوارڈ مجھے کیوں نہیں ملا


\"husnain

ایک طویل افسانہ بہت عرصہ پہلے غلام عباس صاحب نے لکھا تھا، تقریباً ستر اسی برس پہلے، اسے آج بھی آپ دیکھیں گے تو لگے گا کہ شاید موجودہ وقت کی کہانی لکھ دی گئی ہے۔ جو حالات و واقعات اس افسانے میں انہوں نے لکھے، آج بھی صورت حال بالکل ویسی کی ویسی ہے۔

وہ افسانہ ایسے دو افراد کے بارے میں تھا جو ایک کشتی پر بحر بند کے جزیروں کی سیر کا ارادہ لیے نکلے مگر ایک شدید سمندری طوفان میں پھنس کر ان کی کشتی تباہ ہو گئی اور وہ ایک گمنام جزیرے پر جا پہنچے۔

اس جزیرے پر شاعروں کی حکومت تھی۔ حکومتی طبقے میں شامل ہونے کی پہلی اور آخری شرط یہ تھی کہ آپ سخن ور ہوں اور بس ہر وقت فکر سخن میں گم رہیں۔ عام آدمی کو حکومت میں کوئی شمولیت نہیں دی جاتی تھی چاہے وہ کتنا ہی بڑا سرمایہ دار کیوں نہ ہو۔ سخن وروں کو کمانے تک کی اجازت نہیں تھی، ان کے تمام خرچے اور ناز نخرے عام لوگ اٹھاتے تھے جنہیں مداح کا نام دیا گیا تھا، بلکہ یہ مداحوں کا فرض سمجھا جاتا تھا۔

اس جزیرے پر سخن فہمی اور سخن وری ہی سب سے بڑی دولت سمجھی جاتی تھی۔ بلکہ ان کا احترام تقدس کی حد تک تھا۔ کسی کی تحریر یا شاعری یا اس کا مرکزی خیال چرا لینا سرقہ کہلاتا ہے، تو سرقہ وہاں کا سنگین ترین جرم تھا اور دوسرا بڑا جرم زبان ٹھیک سے نہ بولنا تھا۔

یہ افسانہ دراصل ہمارے ان شاعروں اور ادیبوں پر طنز تھا کہ جو اپنے ادبی کاموں میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ زندگی کی عام ضروریات تک کا خیال ان کو نہیں رہتا۔ خیالوں ہی خیالوں میں وہ خود کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگتے ہیں جب کہ حقیقت میں ان بے چاروں کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ہمارا کلچر کہیے یا پھر آب و ہوا کچھ ایسی ہے کہ ابھی بیس تیس برس پہلے تک اینٹ اٹھائیے تو نیچے سے شاعر نکلتے تھے، اب بھی کم و بیش وہی حال ہے بلکہ حقیقت دیکھی جائے تو شاعروں اور ادیبوں کی اس سخنور لسٹ میں ہم سمیت تمام کالم نگار بھی شامل ہو چکے ہیں۔

اس افسانے میں لڑائیاں بھی اس بات پر ہوتی تھیں کہ کون بڑا سخنور ہے، پھر سخنور کسی کو جواب دہ بھی نہیں تھے، تو وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ کچھ سخنور تو ایسے تھے جنہیں بنیادی انسانی جذبات کا بھی کچھ خاص علم نہیں تھا، وہ محبت پر لکھنے کے لیے پہلے محبت کی مشق کرتے تھے، جدائی کے گیت لکھنے کے لیے علیحدگی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ ایک دوسرے سے جلنے اور حسد کرنے کے جذبات کا بہت خوب صورت بیانیہ اس افسانے میں موجود ہے، سمجھیے افسانہ کیا ہے ہماری سخنوروں کی زندگی کا ایک چلتا پھرتا نقشہ ہے۔ افسانے کے آخر میں وہ دونوں افراد، یعنی ہیرو اور ہیروئین باوجود خود سخنور ہونے کے، اس جزیرے سے بھاگ نکلے۔

تو آج بیٹھے بٹھائے وہ افسانہ ایسے یاد آیا کہ آج کل اپنے جزیرہ سخنوراں میں ایک بیماری بہت شدت سے دکھائی دی۔ اور اتنی زیادہ نظر آئی کہ آپ اپنے اردگرد ایک ذرا سی نظر بھی دوڑائیں گے تو آپ کو بھی کئی مریض نظر آ جائیں گے۔ اسے بغیر ضرورت کے خدمت کرنے کی بیماری کہتے ہیں۔

میں ۔۔۔۔۔۔ کی خدمت کر رہا ہوں، میں نے پچاس سال اس فن کی نذر کر دئیے، میں نے یہ کام کرنے میں بال سفید کر لیے، جوانی کے کئی برس اس کام کو دے دئیے، قوم کے بہترین دماغوں کی پرورش میں بہت اہم کردار میرا ہے، میں یہ سب کچھ بغیر کسی لالچ کے کرتا رہا، میں ایک عظیم اور بے لوث فن کار ہوں۔ میری خدمات کا اعتراف کسی نے نہیں کیا۔

اس خالی جگہ میں آپ ادب رکھ دیجیے، مصوری، خطاطی، شاعری یا کوئی بھی فن رکھ دیجیے۔ تقریباً ہر صنف میں آپ کو ایسے افراد نظر آ جائیں گے جو اپنے خیال میں فن کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ درحقیقت اپنا تمام تر وقت اسی فن کی بھٹی میں جلا رہے ہوتے ہیں۔ دن رات کھانے پینے یا کمانے کی ان کو بھی کوئی فکر نہیں ہوتی، بس اسی شغل میں غرق ہوتے ہیں۔ کیا وہ واقعی فن کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں؟

ایسا نہیں ہے۔ فقیر سمیت وہ تمام لوگ اپنی انا کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں انہیں جانا جائے، انہیں پہچانا جائے، وہ کہیں سے گزریں تو لوگ انہیں پہچان کر ان سے ملیں، ان کے ساتھ سیلفیاں بنائیں، تاریخ میں ان کا نام ان کے فن کی وجہ سے لکھا جائے، انہیں زیادہ سے زیادہ شہرت ملے، عزت ملے، انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے بس وہ ہر وقت اپنا شوق پورا کرتے رہیں۔ ایسے لوگ بے چارے زیادہ تر مہاتڑ اور غریب غربا ہی ہوتے ہیں، تو انہیں سفید پوشی بھی قائم رکھنا ہوتی ہے، اس کے لیے کچھ نہ کچھ ہلکا پھلکا ہاتھ پیر چلا لیتے ہیں۔ تو وہ بنیادی طور پر فن کی خدمت سے زیادہ اپنی ذات کی خدمت اور اپنی انا کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں۔

مسئلہ وہاں آتا ہے جب ان میں سے کوئی ایک قدم آگے ہو جاتا ہے۔ کسی کو زیادہ شہرت مل جاتی ہے، بے شک اس میں اس مظلوم کے فن کی اچھائی ہو یا دیگر عوامل ہوں لیکن، کسی بھی ساتھی کی ترقی تمام سخنوروں کے لیے موت کا پیغام بن جاتی ہے۔ وہ چھلانگیں مارنا شروع کر دیتے ہیں، ادھر ادھر ٹکریں مارتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح اس ایک قدم آگے بڑھنے والے کو واپس پیچھے کھینچ لیں اور خود اس کی جگہ کھڑے ہو جائیں، یا کم از کم اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ جب ایسا کچھ بھی نہیں ہو پاتا تو پھر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ فلاں شخص جو آگے بڑھ گیا ہے، اس نے فن کی کیا ایسی خاص خدمت کی ہے۔ پھر اس بے چارے ترقی پانے والے کے اشتہار دیواروں پر لگائے جاتے ہیں، ہر محفل میں دہرائے جاتے ہیں اور بجائے مبارک باد کے، ترقی پانے والوں کو طنزیہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، انہیں طعنے دئیے جاتے ہیں۔

ہمارے یہاں ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ چودہ اگست کے بعد جب صدارتی ایوارڈ کی تفصیلات آتی ہیں تو کئی شخصیات پر کئی قسم کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، ان بے چاروں کا جینا حرام کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ایوارڈ کو ان کے گلے کی ہڈی بنا دیا جائے۔ اس برس بھی ہمارے فیس بک کے جزیرہ سخنوراں پر یہ کام زور و شور سے جاری ہے۔

اگر آپ اپنے فن سے مخلص ہیں تو آپ کو اس چیز کی فکر ہرگز نہیں ہونی چاہئیے کہ ایوارڈ کس کو ملا اور کس کو نہیں ملا۔ آپ اس قابل ہوں گے تو آپ کو بھی مل جائے گا اور قابل ہونے کے باوجود نہ ملے تو اپنا رویہ بہتر کیجیے، شاید تب مل جائے۔ دیکھیے ٹیگور کو نوبل نہ ملتا تو کیا آپ انہیں نہ جانتے؟ اقبال کو نہیں ملا پھر بھی وہ ہمارے قومی شاعر ہیں، دنیا میں ہر سال کتنے ہی ادیبوں اور شاعروں کو کتنے ہی انعامات ملتے ہیں، یہاں ہمارے علم میں نہیں ہوتا، ہاں کوئی زوردار تخلیق سامنے آتی ہے تو اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ تو بھئی اپنے زور بازو پر اپنے شوق پورے کیجیے، اپنی انا کو نیچا مت ہونے دیجیے، جب آپ کسی بھی ایوارڈ یافتہ پر کھلے عام تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو یقین جانیے آپ کا اپنا قد گھٹ رہا ہوتا ہے۔

اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ اس دوڑ میں شامل نہیں تو سلیم الرحمن بنیے، کوئی سرکاری و غیرسرکاری ایوارڈ انہوں نے آج تک قبول نہیں کیا، آپ بھی نہ لیجیے، صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی بھی سلیم صاحب نہیں لیں گے۔ بڑے لوگوں کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہیں یا کسی اور کو کسی قسم کا ایوارڈ ملا یا نہیں ملا۔ وہ جو ہم جیسے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں، جو بات کرنے میں فقیر، خاکسار، حقیر، درویش، کمترین، احقر جیسے لفظ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں، وہی اصل میں اپنی انا کے مریض ہوتے ہیں اور انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ مجھے صدارتی ایوارڈ کیوں نہیں ملا؟

پس نوشت: جزیرہ سخنوراں ابھی کچھ عرصہ پہلے آکسفورڈ پاکستان سے چھپ چکی ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments