پاکستانی نوجوان نسل: اثاثہ یا خطرہ؟


\"Muhammadپاکستان میں نوجوانوں کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ کی وجہ سے ملک اس وقت ایک آبادی کی بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ایک دہائی کے اندر یہ آبادی 70 فیصد سے تجاوز کر جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تعلیم اور مواقع کی منتظر ہے۔

کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوان نسل کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوانوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک ان کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے انہیں معیاری تعلیم اور مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان اپنے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مثال کے طور پر مختلف رپورٹس سے واضح ہو گیا ہے کہ ملک میں 25 ملین سے زائد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ملینیم ڈیولپمنٹ گول کے اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو پرائمری تک کی تعلیم فراہم کی جائے گی۔ دوسری طرف ہمارے پڑوسی ممالک جیسے سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھارت اس ہدف کو حاصل کر چکے ہیں یا اس کے بہت قریب ہیں۔

پاکستان کی اس ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ اگلے سالوں میں ملک میں ناخواندہ، غیر ہنرمند اور بیروزگار نوجوانوں کا جم غفیر ہوگا اور یہ ایک دھماکہ خیز طوفان سے کم نہیں ہوگا۔ اس کے مضمرات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

نوجوان نسل کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے میں کئی رکاوٹیں ہوسکتی ہیں۔ میرے خیال میں سب سے اہم عنصر حکومتوں کی تعلیم کی طرف کمٹمنٹ کی کمی ہے۔ اگرچہ تعلیمی قوانین اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہایت بے دلی سے کیا جاتا ہے۔

پی پی کی حکومت نے 2011 میں ملک میں ایجوکیش ایمرجنسی کا اعلان کیا لیکن بعد میں کچھ معلوم نہیں ہوا کہ اس اعلان سے تعلیم میں کیا تبدیلی آئی۔ اور بعض رپورٹس کے مطابق پچھلے سالوں میں تعلیم بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جا رہی ہے۔

اٹھارویں ترمیم میں تعلیم کا شعبہ صوبوں کے ذمہ قرار دیا گیا۔ لیکن صوبوں کے پاس کوئی واضح روڈ میپ اور صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیم کے حوالے سے صوبے کئی دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک میں سرکاری سکولوں کی حالت روز بروز خستہ حالی کی طرف جا رہے ہے۔ جس کی وجہ سے سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہی ہے۔

بحثیت قوم ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو معیاری تعلیم اور مواقع فراہم کیے بغیر کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے مستقبل کا دارمدار ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان نسل پر منحصر ہے۔

\"youth\"اس سلسلے میں پاکستان کو دوسرے ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کیسے اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کی اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ مثال کے طور پر 1970 کی دہائی میں ملائشیا میں بھی ہماری طرح آبادی ایک کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ ملائشیا نے قومی ترقی میں نوجوانوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے سنجیدہ تعلیمی اور سماجی اقدامات اٹھائے کہ دو دہائیوں کے اندر اندر ملک ایشین ٹائیگر بن گیا۔ لہٰذا نوجوان نسل کو اثاثہ سمجھتے ہوئے پاکستان کو ایسے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن سے نوجوان نسل کی صلاحیت کو ملکی ترقی کے لئے بروئے کار لا سکے۔

سب سے پہلے حکومت کو تعلیم کی موجودہ ہنگامی صورت حال کو سمجھتے ہوئے تعلیم کے حوالے سے ایک پر عزم اور مخلصانہ کمٹمنٹ دکھانے کی ضرورت ہے۔ دوم یہ کہ عوامی سطح پر ایک ملک گیر تعلیمی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ جس میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سوئم یہ کہ حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے درمیان تعلیم کے حوالے سے ایک با مقصد اور بامعنی تعاون اور اشتراک قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ نظام تعلیم میں ایک ایسا موثر نگرانی کا نظام متعارف کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیم کی ترقی پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات کر سکے۔

پاکستان میں اس وقت باصلاحیت نوجوانوں کی صورت میں ایک قمیتی اثاثہ موجود ہے۔ اس قومی اثاثہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں معیاری تعلیم اور مواقع فراہم کر کے ملک و قوم کی ترقی میں ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ قیمتی اثاثہ اگر ناخواندہ اور غیر ہنر مند رہا تو یہ ملک کی مستقبل کے لیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments