کشمیر متنازعہ علاقہ ہے


\"Kashmiriامریکہ نے بھارتی وزیر اعظم کے اس دعویٰ کو مسترد کیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی بات کرنے کی بجائے دنیا کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی بات کرنی چاہئے اور وہاں کے عوام پر پاکستانی حکومت کے مظالم کو ختم کروانا چاہئے۔ اس حوالے سے ایک بھارتی صحافی کے سوال پر امریکی محکمہ خارجہ کی ڈائریکٹر الزبیتھ ٹروڈیو Elizabeth Trudeau نے واضح کیا ہے کہ کشمیر کے سوال پر امریکی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہم بدستور اسے ایک متنازعہ علاقہ سمجھتے ہیں اور پاکستان اور بھارت کو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آپس میں مذاکرات کرنے چاہئیں۔ واضح رہے پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو خاص طور سے کشمیر کے سوال پر بات چیت کی دعوت دی ہے لیکن بھارت اس پیشکش کو مسترد کرتا ہے۔

بھارتی صحافی نے ایک پریس بریفنگ کے دوران بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آباد سب لوگ در حقیقت بھارتی باشندے ہیں، امریکہ کو اس پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ امریکی ترجمان نے اس سوال پر واضح کیا کہ وہ نریندر مودی کی بات کا جواب نہیں دے سکتیں اور نہ ہی ان کی باتوں کی وضاحت کرنے کی مجاز ہیں۔ لیکن کشمیر کے سوال پر امریکہ کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے بارے میں پاکستان اور بھارت کو مل جل کر بات چیت کے ذریعے کسی تصفیہ پر پہنچنا چاہئے۔ امریکی ترجمان نے مقبوضہ کشمیر میں تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ صورت حال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس دوران امریکی وزرات خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف کام کے لئے مذاکرات پرزور دیا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 15 اگست کو یوم آذادی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں جاری احتجاج اور سیکورٹی فورسز کے تشدد اور مظالم کی بات کرنے سے تو گریز کیا تھا لیکن آزاد کشمیر پر بھارتی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ وہاں کے لوگ پاکستانی مظالم کا شکار ہیں۔ بھارت اس حوالے سے عالمی سطح پر کوششیں کرے گا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے ایک تبصرہ میں کہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم دراصل مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پانچ ہفتوں سے جاری تحریک اور کشمیریوں کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس دوران حکومت پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی خاص طور سے دعوت بھی دی ہے۔ گزشتہ روز پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہم منصب کے نام ایک مکتوب میں مذاکرات کی باقاعدہ دعوت دیتے ہوئے بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ بر صغیر میں امن و مان کے لئے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی طرف سے البتہ اس قسم کی ہر کوشش کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے مقبوضہ کشمیر میں بھارت فورسز کے مظالم اور کشمیریوں کی حق خود ارادی کے لئے جد و جہد کو دنیا کی نگاہوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔

بھارت ابھی تک بات چیت سے گریز میں صرف اس لئے کامیاب ہے کیوں کہ امریکہ کشمیر کو متنازعہ اور تصفیہ طلب معاملہ قرار دینے کے باوجود بھارت پر اس حوالے سے مذاکرات کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بدستور کشمیر کو بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ ماننے سے انکار رکررہا ہے لیکن وہ اس سے بڑھ کر کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کے لئے کوئی قدم اٹھانے پر بھی تیار نہیں ہے۔ اسی لئے بھارتی وزیر اعظم کشمیر کے سوال پر بے بنیاد اور گمراہ کن دعوے کرنے اور بات چیت سے انکار کرنے میں کامیاب ہیں۔

امریکہ متعدد سفارتی شعبوں میں بھارت کے ساتھ تعاون کررہا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت میں بھی وہ اہم اور حساس علاقوں میں امن و امان کی ضمانت دینے کا ذمہ دار ہے۔ لیکن کشمیر کے مسئلہ پر وہ اپنی کسی قسم کی سفارتی اور اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ حالانکہ اس تنازعہ کی وجہ سے مقبوضہ وادی کے ڈیڑھ کروڑ لوگ شدید دشواریوں اور مظالم کا سامنا کررہے ہیں اور دو جوہری طاقتوں کے درمیان بدستور تصادم کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔ اس اندیشے کو ٹالنے اور خطے میں قیام امن کے لئے کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امریکہ کو اس حوالے سے اپنی سفارتی اور سیاسی حیثیت استعمال کرتے ہوئے بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments