جنرل ضیا، میرا بچپن اور وردی


\"Amjadیہ 18 اگست 1988 ،جمعرات کا دن تھا۔ ۔ جب میں صبح چھ بجے کے قریب دودھ اور گوشت لینے بازار جا رہا تھا۔ میری عمر اس وقت دس برس کی ہو گی۔ چھو ٹا سا بازار تھا جو گھر کے قریب ہی تھا ۔ حاجی صاحب کا چائے والا ہوٹل اور اسلم نائی کی دکان کے علاوہ حسب مخالف بازار میں ساری دکانیں بند تھیں ۔ میں نے حاجی صاحب سے استفسار کیا کہ آج دکانیں کیوں بند ہیں ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ موت برحق ہے اور ہر ایک کو آنی ہے ۔ آج جنرل ضیا ایک جہاز تباہ ہونےکے نتیجے میں مارا گیا ۔ اس لئے دکانیں بند ہیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن حاجی صاحب کی بارعب شخصیت کے سامنے مزید سوال کرنے کی ہمت نہ پا کر آگے چل دیا۔ اسلم نائی کی دکان جو چند قدم کے فاصلے پر تھی اور جہاں پر میں نے ہمیشہ سے جنرل ضیا کی تصویر چسپاں دیکھی تھی ۔ وہاں پر کچھ لوگ جمع تھےاور ایک شخص اخبار سے سب کو خبریں سنا رہا تھا۔ اس کا خبریں سنانے کا انداز اور لوگوں کا ردعمل دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ جیسے اب قیامت آنے والی ہے لوگ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے کہ اب کیا ہوگا ۔ پاکستان تو تباہ ہوجائے گا ۔اور مجھے قیامت کے بارے میں صرف یہ معلوم تھا کہ سب کچھ تباہ ہوجائے گا ۔

اسی سوچ کے ساتھ میں تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر کی طرف جانے لگا کہ ان کو اطلاع کر دوں کہ سب کچھ تباہ ہونے والا ہے۔ لیکن گھر پر والد اور والدہ کو دیکھا جو بلکل پرسکون تھے ۔ پھر کچھ وقت کے بعد ہمارے گھر لوگ ٹی وی دیکھنے جمع ہونے لگا ۔ اس وقت محلے میں صرف دو گھروں میں ٹیلی وژن تھا۔ اور دونوں ہی گھروں میں بچوں ، عورتوں اور بڑوں کا ہجوم تھا۔ بچے میری طرح سہمے بیٹھے تھے ۔ عورتیں ٹی وی پر نظریں جمائے رو رہی تھیں ۔ قریش پور کی درد بھری آواز اور الفاظ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ان کی براہ راست کمنٹری میں مرد مومن مرد حق، اسلام کا سپاہی ، مکہ اور مدینہ میں غائبانہ نماز جنازہ ، مجاہد دین وملت کے الفاظ کی بار بار دہرائی ماحول میں مزید رقت پیدا کر رہی تھی۔ میں اس وقت کے سکرپٹ رائٹرز کو بھی داد دیتا ہوں جنہوں نے نہایت کم وقت میں جنرل صاحب کی وہ وہ خوبیاں نکال ڈالیں جن کا شاید خود ان کو بھی پتہ نہیں تھا۔ وردی پھٹ گئی جنازہ ہو گیا، قیامت بھی نہ آئی اور وقت بدل گیا۔

سلیم نائی نے دس سال سے چسپاں تصویر دیوار سے رگڑ کر ہٹانے کی کوشش کی لیکن کافی عرصہ چپکے رہنے کی وجہ سے وہ اتنی مس تھی کہ سلیم صرف آدھی ہی ہٹا پایا ۔ایک آنکھ اور پوری مونچھ والی تصویر کے نیچے کسی منچلے نے ڈنگی مچھ (ٹیڑھی مونچھ) والا محاورہ لکھ کر اس کو اور مضحکہ خیز بنا دیا ۔ ایسا لگا کہ لوگوں کی وفاداریاں تبدیل ہو رہی ہیں۔ جنرل ضیاہ کی موت اور قیامت کا طلسم ختم ہونا شروع ہوا۔ جن کو میں نے جنازے والے دن ٹی وی دیکھ کر روتے ہوئے دیکھا تھا ان کے منہ سے چاروں صو بوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر کے نعرے سنتے دیکھا ۔ لیکن میں چونکہ دوسرے کیمپ میں تھا اس لئے ان کی مخالفت کرتا جو بے نظیر کے ساتھ تھے ۔ ہم بچوں کی آپس میں بحث ہوتی ۔ ایک طرف ہم اسلا م یعنی ضیا کے سپاہی اور دوسری طرف مغرب زدہ بے نظیر کے کافر جیالے ۔

 نومبر 1988 کو الیکشن ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں ۔ اور صرف دو ہی سال کے عرصے میں سوچ جوان ہو گئی۔ ما رشل لاہ اور سیاست کی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوئی ۔ جلسہ، ووٹ، الیکشن، حکومت اور اپوزیشن جیسے الفاظ شعور کی ڈکشنری میں شامل ہونا شروع ہوئے۔ سوال کی آزادی بھی ملنے لگی ، کتابیں پڑھنے کا رجحان بھی ہوا اور بحث و مباحثے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ دو سال میں کم از کم اتنی تبدیلی کو میں انقلاب سے ہی تعبیر کروں گا۔

اس دو سال کے ارتقا نے مجھے مارشل لا اور جمہوریت کا فرق سمجھا دیا ۔تب مجھے ہوٹل والے حاجی صاحب کا وہ جملہ سمجھ آیا جو انہوں نے نہایت تلخ لہجے میں کہا تھا کہ جنرل ضیا جہاز کی تباہی میں مارا گیا ۔ (جنازے والے دن مجھے شہید اور مارا گیا کا فرق معلوم نہیں تھا)۔

ستمبر 1988 کے بعد سے لیکر آج تک میں نے خود ان کے بیٹے اعجازالحق سمیت کسی کے منہ سے جنرل ضیا کی عظیم خدمات پر نہ تو کوئی تبصرہ سنا نہ تعریف۔

لگتا ہے لوگ صرف وردی سے محبت کرتے ہیں ورنہ جنرل ضیا آج بھی زندہ ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments